گڈو اور چودہ اگست

(آخری قسط)

’’چلیں جلدی آئیں!‘‘ ابھی گڈو کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ امی  نے کہا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر دوسری دکا ن میں داخل ہوگئیں۔گڈو کا اب دل نہیں لگ رہا تھا۔  اسکا سارا دھیان اس رونے والےبچے کی طرف تھا اسکا رونا بہت تکلیف دہ تھا۔

’’گڈو بیٹا! یہ شرٹ دیکھیے۔کیسی ہے؟ آپکی پسند کی ہے ناں! آپ پہ خوب جچ بھی رہی ہے۔‘‘ امی جان کہ رہی تھیں۔گڈو بس گردن ہلا کے رہ گیا۔ وہ مسلسل اسی بچےکو سوچ رہا تھا۔ جب وہ دکا ن سے باہر نکلا اسے پھر وہی بچہ روتا ہوا نظر آیا۔وہ اس بچے کے پاس پہنچ گیا۔اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔ ’’دوست السلام علیکم! آپ  رو کیو ں رہے ہیں؟‘‘

بچے  نے جواب دیا۔ ’’مجھے بھی 14 اگست منا نی ہے ،چیزیں خریدنی ہیں۔‘‘

نرم دل گڈ و کا دل پسیج گیا۔ ’’آپ کانام کیاہے؟آپ اور آپ کی والدہ یہاں اس طرح کیوں کھڑے ہیں؟‘‘

وہ سوں سوں کرتے ہوئے کہنے لگا۔’’ہم کچھ بھی نہیں لے سکتے۔ سب چیزیں اتنی مہنگی ہیں۔  امی جان کہتی ہیں اگر ہم نے ہرے رنگ کی شرٹ اورجھنڈے والے  بیج لے لیے تو کھانے کے پیسے نہیں ہوں گے۔پھر ہمیں بھوکا سونا پڑے گا۔ میرے ابو بھی تو نہیں ہیں۔ وہ مجھے چودہ اگست کو اتنا کچھ دلاتے تھے۔‘‘ اتنا کہ کر وہ بچہ پھر سے رونا شروع ہو گیا۔

’’انا للہ وانا الیہ راجعون!! اداس نہ ہو دوست !!انکل وہاں بہت اچھے حال میں ہونگے۔ آمین!  اچھا!آپ نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتا یا ؟‘‘

اس نے جواب دیا۔ ’’میرا نام معاذ حسین ہے۔‘‘

گڈو نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بہت ہی اچھا نام ہے مگر میں  آپکو دوست ہی کہوں گا۔آپکو کوئی اعتراض تو نہیں ؟‘‘

’’نہیں! لیکن کیا آپ  واقعی مجھ سے دوستی کریں گے؟‘‘ معاذ نے بے یقین سے پوچھا تو گڈو نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ یہ دیکھ کر  معاذ نے  جلدی جلدی آنسو صاف کیے اور  فورا ً ہاتھ آگے کر دیا۔

’’میری کلاس میں سب نے میرے سے دوستی توڑ دی ۔ میرے ساتھ اب  کو ئی نہیں کھیلتا۔میرےابو جب بھی 14اگست آتی میرے لئیے جھنڈیاں لاتے ،پھر ہم پورا گھر سجاتے۔ میرے ابو پاکستان کی پوری کہانی سناتے۔اور کہتے۔’’تم پڑھ لکھ کر پاکستان کی خدمت کرنا۔ اس کا نام روشن کرنا۔‘‘ معاذ کھویا کھویا بتا رہا تھا۔

گڈو نے پیار سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگا۔ ’’آپ اس سال  بھی  ضرور مناؤ گے جشن آزادی۔سب چیزیں آجائیں گی انشاءاللہ!‘‘

معاذ کی امی نسرین  اتنی دیر سے دونوں کی گفتگو سن رہیں تھیں۔ کہنے لگیں۔’’اللہ تمھیں خوش رکھے بیٹا۔ آؤ معاذ، اب گھر چلیں۔ کل میرے پاس پیسےآجائیں گے اور میں آپ کو گرین ٹی شرٹ ضرور لے کر دوں گی۔‘‘ نسرین نے کہا اور معاذ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگیں۔

ادھر رخسانہ گڈوکو نہ پا کے بہت پریشان ہوئیں۔فورا ًدکان سے باہر نکلیں اورادھر ادھر ڈھونڈنے لگیں۔اچانک  انہیں فٹ پاتھ پر گڈو کھڑا نظر آیا جو معاذ سے ہاتھ ملا رہا تھا۔ یہ دیکھتے ہی انکا پارہ ہائی ہوگیا۔وہ غصے سے سیخ پا ان کے پاس پہنچیں اور معاذاوراسکی والدہ کو خوب سنائیں۔ گڈو بہت منمنایا ۔’’میری بات سن لیں امی!! پلیز!‘‘

مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔

آخر نسرین نے کہا۔ ’’بات سنیے بہن!! آپ جیسا سمجھ رہی ہیں ویسی کو ئی بات نہیں۔ آپ دراصل غلط فہمی کا شکار ہیں۔‘‘

رخسانہ غصے سے بولیں۔’’مجھے آپ کی کسی بات سے کوئی غرض نہیں۔ چلو آؤ گڈو!‘‘

نسرین  نے پھر کہا۔ "برائے  مہربانی  بس ایک بار میری بات سن لیں۔ آپکی سب غلط فہمی دور ہوجائے گی۔  میں اور میرے بیٹے نے آپکے بیٹے کو کچھ نہیں کہا، نہ ہی کوئی پیسے ما نگے ,نہ بلایا۔ بلکہ آپکا بیٹا تو اتنا حساس محبت کرنے والا ہے۔جب معاذبری طرح رورہا تھا مجھ سےضد کر رہا تھا تو یہ بچہ آیا اس نے معاذ سے بات کی اور دلاسہ دیا ۔ اور بس۔‘‘

رخسانہ نے ناک سکوڑتے ہوئے کہا۔ ’’رہنے دو بی بی!!" بہت دیکھیں تم جیسی جھوٹے،دھوکے باز جو لوگوں کوپھنسا کے انہیں لوٹتی ہیں۔‘‘

نسرین رندھی ہوئی آواز میں بولیں۔’’بیشک آپ نے ایسے لوگ دیکھے ہوں گے۔مگر  بخداہم ایسے نہیں۔ جب سے میر ے شوہر کا انتقال ہوا میں بے گھر ہوگئی ہوں۔صبح لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہوں۔ سر چھپانے کو جگہ نہیں بڑی مشکل سے اک جھگی ملی ہے۔ لیکن میں  نےکبھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا اور اپنے بیٹے کو بھی یہی سکھایا ہے۔  بچہ روز یہاں 14اگست کی چیزیں خریدنے لے آتا ہے ۔روز روتا ہے۔ میں بہلاتی ہوں کہ کل پیسے آجائیں گے تو پھر لے لیں گے۔خیر!  میں معافی مانگتی ہوں! آپ کو ناحق تکلیف دی۔  اپنے بچے کی طرف سے بھی شرمندہ ہوں۔ ‘‘ اتنا کہ کر نسرین معاذ کا پاتھ پکڑا اور تیزی سے بھیڑ میں گم ہو گئیں۔ رخسانہ وہیں شرمندہ سے کھڑی تھیں ۔

گھر پہنچتے ہی گڈو سیدھا دادا ابو کے کمرے میں  گیا اور ان سے لپٹ کر رونے لگا۔ دادا ابو پریشان ہو گئے۔ پھر گڈو نےانہیں پوری کہانی سنائی اور کہنے لگا۔ ’’امی جان اچھی نہیں ہیں۔ میں ان سے ناراض ہوں۔‘‘

دادا ابو بھی غمگین ہو گئے۔ پھر وہ گڈو کو سمجھانے لگے۔’’بیٹا!  آپ کی امی غلط نہیں ہیں۔  زمانہ خراب ہے۔کسی پہ بھروسہ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے جو کیا وہ احتیاط کے طور پر ہی کیا۔‘‘

انہیں خوشی ہوئی کہ انکا پوتا اتنا احساس کرتا ہے دوسروں کا۔وہ اس سے معاذ کی مدد کرنے کا وعدہ کر تےہیں۔

شام کو امی جان نے  گڈو کے ابو جان کو ساری بات کہ سنائی۔ وہ کہنے لگے۔ ’’اوہ! کوئی بات نہیں۔ مانا کہ زمانہ خراب ہے۔مگر ہر بندہ تو برا نہیں ہوسکتا۔ ہمیں ان کی ضرور مدد کرنی چاہیے۔ویسے بھی ہمارے گڈو کی خوشی بھی اسی میں ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائے اورگڈو کی جانب دیکھا جو ابھی تک خٖفا خفا سا تھا۔

’’دراصل آج ہماری  بے حسی اور خود غرضی ہمارے ملک کو لے ڈوبی ہے۔ہم آزادی تو منا لیتے ہیں۔ مگر اپنی سوچ کو آزاد نہیں کرتے۔ہم مفاد پرستی و مادی زندگی میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں  کہ انسان انسا ن ہی نہیں لگتا۔ دکھ درد کیا ہوتے ہیں بس یہ اپنوں تک محدود ہوگئے ہیں۔‘‘ وقار صاحب اداسی سے کہ رہے تھے۔

اگلے دن اسکول سے واپسی پرگڈو ابو جان اور امی جان  کو لے کر اسی جگہ گیا جہاں معاذ اور نسرین انہیں کل ملے تھے۔ مگر انہیں مایوسی ہوئی ۔انہوں نے  نے آس پاس کی سبھی دکانوں سے معلوم کیا۔کسی سے کچھ خاص پتہ نہ چل سکا۔۔بڑی جدوجہدکے بعد ان کا پتہ مل پایا۔ان کا گھر شہر سے دور اک پسماندہ علاقے میں  تھا۔ وہ دستک دے کر اندر داخل ہوئے ۔

نسرین بری طرح بخار میں تپ رہی تھی۔معاذ مسلسل پانی کی پٹیاں ان کی پیشانی پر رکھ رہا تھا۔

رخسانہ  نے محبت سے ان کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’نسرین بہن! میں اپنے کل کے رویے پر بے حد شرمندہ ہوں مجھے معاف کردیں۔‘‘

نسرین فوراً  بولیں۔ ’’نہیں نہیں رخسانہ باجی !!ایسا نہ کہیں مجھے کچھ برا نہیں لگا۔‘‘

رخسانہ نےانہیں گلے سے لگا لیا۔  

پھر انہوں نے نسرین کو اپنے گھرکھانا پکانے کے کام کی پیشکش کی جو انہوں بخوشی قبول کرلی ۔ وقار صاحب نے ساتھ ہی معاذ کی تعلیم دوبارہ شروع کروانے کا بھی یقین دلایا اور یہ بھی اعلان کردیا اس بارمعاذ اور گڈو ایک ساتھ چودہ اگست کا دن منائیں گے۔ان شاءاللہ!  پھر جشن آزادی والے دن ، معاذ اوگڈو نے چھت پر چڑھ کر بڑا سا سبز جھنڈا لہرایا تو ہر ایک کا چہرہ  خوشی سےکھل اٹھا۔ 


{rsform 7}