پیارے بچو ! ولی ایک بہت ہی پیارا بچہ ہے ۔  وو گھر کےقریب ہی واقع ایک سکول میں پڑھتا ہے ۔ ولی پہلی جماعت میں پڑھتا ہے۔ آفس جاتے ہوئے اس کے بابا اس کو سکول چھوڑتے ہیں اور چھٹی ٹائم اسکی امی اسے سکول سے لاتی ہیں۔   دونوں ماں بیٹا راستے میں ایک دوسرے سے بہت سی باتیں کرتےہیں۔

کل جب ولی کی امی اسے سکول سے لینے آئیں تو ولی کسی سوچ میں گم اورچپ چپ سا تھا ۔ امی نے حسب معمول ولی کو پیار کیا اور اس کے ہاتھ سے بیگ لے لیا ۔

"آج میرا بیٹا چپ کیوں ہے ؟" امی نے تھوڑا سا چلنے کے بعد محسوس کیا توکہا ۔

کیوں کہ پہلے تو ماں کی شکل نظر آتے ہی ولی کی باتیں شروع ہو جاتی تھیں ۔ امی مسکرائے جاتیں اور ولی کی باتیں سنتی جاتیں ۔مگر آج تو ولی صاحب جانے کن سوچوں میں گم تھے۔  

"امی جان ! یہ نیکی کیا ہوتی ہے؟"امی کے پوچھنے پر ولی نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔

"بیٹا! نیکی ایسا کام ہوتا ہے جس کے کرنے سے اللہ تعالی خوش ہوتے ہیں۔ " امی نے ذرا مسکرا کر کہا ۔

" امی جان! آج مجھے ضرور کوئی نیکی کرنا ہے ؟" ولی نے کہا 

" اچھا ! مگر آج ہی کیوں؟ ۔۔۔ نیکی تو ہر وقت کرتے رہنا چاہیئے۔" امی جان نے کہا 

" امی جان ! آج ٹیچر نے سب کو یہی ہوم ورک دیا ہے ناں ۔۔۔ "

" کیا ہوم ورک؟"امی جان کو سمجھ نہیں آئی تو پوچھا 

"کہ کل سب بچے ایک ایک نیکی کر کے آئیں گے۔"

" اوہ اچھا! ارے واہ یہ تو بہت ہی اچھا ہوم ورک ہے ۔" امی جان نے سر ہلایا

"آہ ۔۔۔" اسی وقت ولی کو زور کی ٹھوکر لگی ۔ ارے میرا بچہ امی جان نے بروقت پکڑ کر اسے بچایا ورنہ وہ پتھر کافی بڑا تھا جیسے اپنی باتوں کے دوران وہ نہ دیکھ سکے تھے ۔ اسی وقت ولی نے ماں سے ہاتھ چھڑوایا اور پتھرراستے سے اٹھا کر ایک طرف ڈال دیا ۔

"اگر بات ایک ہی نیکی کی تھی تو آپ کا ہوم ورک تو ہو گیا ولی بیٹا۔"وہ واپس پلٹا تو امی جان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ 

 " مگر امی جان ! ابھی تو ہم گھر بھی نہیں پہنچے، بیگ بھی نہیں کھولا اور کچھ کیا بھی نہیں ۔۔۔۔ " ولی نے ماں کو حیرت سے دیکھتے ہوئے معصومیت سے کہا ۔

" میرے بچے! نیکی تو خالی ہاتھ بھی ہو جاتی ہے نیکی کے لیے کسی سامان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ امی جان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ 

"اچھا۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ " ولی کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ نیکی کب ہو گئی۔

" خیر اب جلدی سے گھر چلو ، پھر میں آپ کو سمجھاتی ہوں۔"  امی جان نے ولی کا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھ گئیں ۔

    گھر پہنچ کر امی جان نے بیگ رکھا ولی کو پانی پلایا پھرخود بھی پیا ۔

" اب بتائیں ناں امی جان۔۔۔؟" ولی نے ماں کے بیٹھے ہی بے چینی سے کہا۔

" بیٹا! آپ نے راستے سے پتھر کیوں ہٹایا تھا ۔؟ امی جان نے ولی سے پوچھا 

" اس سے میرے پاو&ں پہ چوٹ لگ گئی تھی ناں امی جان۔۔۔ " ولی کچھ سوچتے ہوئے خاموش ہوا ۔

"تو۔۔۔؟‘‘ 

"تو اگر وہ پتھر وہیں پڑا رہتا تو سب لوگوں کو چوٹ لگتی ،یہ سوچ کر میں نے اسے ایک طرف ڈال دیا  ۔" ولی نے وجہ بتائی۔

" تو بیٹا۔۔۔۔ ! راستے سے تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دینا نیکی ہی تو ہے ۔" امی جان نے آسان ترین لفظوں میں ولی کو سمجھایا۔ 

" سچ۔۔۔۔ امی جان! نیکی کرنا تو بہت آسان ہے ۔" ولی چہکا۔

 "جی میری جان ! نیکی کرنا بہت آسان ہے ۔ امی جان مسکرائیں 

" اب تو میں روز کوئی نیکی کیا کروں گا "

"ان شاءاللہ ، اب جلدی سے اپنا بیگ ، جوتے ان کی جگہ پہ رکھو اور کپڑے بدلو ۔۔ ماں کا کہنا ماننا بھی نیکی ہے ۔" امی جان نےبیگ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا

"ارے واہ! ایسے تو میں ایک کی بجائے آج بہت سی نیکیاں کر لوں گا ۔" ولی اپنے جوتے اور بیگ اٹھا کر کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے بولا۔

"ان شاءاللہ۔" امی جان نے پیچھے سے آواز لگائی۔