’’وہ دیکھو! وہ دیکھو! لنگڑے بابا جا رہے ہیں! ہی ہی ہی!‘‘

علی نے گلی میں جاتے ہوئے امجد صاحب کا مذاق اڑایا اور سب دوست ہنسنے لگے۔ امجد صاحب کا کچھ عرصے پہلے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ان کی ٹانگ میں چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتے لگے تھے۔

تھوڑی دیر بعد زرنیہ خالہ سبزی لینے گھر سے نکلیں تو علی نے پھر نعرہ لگایا۔

’’کالی خالہ ۔۔ آفت کی پرکالہ!‘‘ زرینہ خالہ نے مڑ کر علی کو گھور تے ہوئے دیکھا اور دکان پر چلی گئیں۔

وہ علی کو ڈانٹ نہ سکیں کیونکہ علی کسی کی بات نہیں سنتا تھا اور نہ ہی کسی کی ڈانٹ ڈپٹ کو خاطر میں لاتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علی کے والدین وفات پا چکے تھے ۔ اس کے بڑے دو بھائیوں نے ہی علی کو پالا تھا۔ عبداللہ بھائی سب سے بڑے تھے۔ وہ ایک فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ پھر اسد بھائی تھے جو صبح کالج جاتے تھے اور شام کو ایک اکیڈمی میں ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ روز صبح سب اکھٹے نکلتے ۔ پہلے عبداللہ بھائی اسد بھائی کوکالج چھوڑتے پھر علی کا سکول آجاتا ۔ آخر میں وہ فیکٹری چلے جاتے ۔ پھر واپسی پر اسد بھائی علی کو لیتے ہوئے گھر آجاتے۔ عبداللہ بھائی شام کو آتے تھے۔ ان کی فیکٹری گھر سے کافی دور تھی۔

’’دیکھو! عبداللہ! آج پھر علی نے مجھ پر آوازیں کسیں۔ تم اس کو سمجھا لو بھیا۔ ورنہ میری چھڑی ہو گی اور علی ہو گا۔‘‘ آج بھی عبداللہ بھائی فیکٹری سے واپس آئے تو علی کی شکایتوں کے انبار نے ان کا استقبال کیا۔ امجد صاحب اپنا رونا رو رہے تھے۔

’’مجھے افسوس ہے انکل! میں علی کی طرف سے آپ سے معافی مانگتا ہوں اور۔۔‘‘ عبداللہ نے کہنا چاہا لیکن امجد صاحب بہت غصے میں تھے۔ آج وہ عبداللہ کی معذرت قبول کرنے پر تیا رنہیں تھے۔

’’بھائی رہنے دو۔ تم سے ایک لڑکا قابو میں نہیں آتا۔ میں ہوتا تو ٹھیک کر کے رکھ دیتا۔ ہونہہ!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اسد! علی کی شکایتیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ ‘‘ عبداللہ نے رات کو کھانے کے بعد اسد سے کہا۔ علی سونے چلے گیا تھا۔

’’ہاں !! زرینہ خالہ نے بھی مجھ سے آج پھر علی کی شکایت کی۔ وہ ساتھ کے محلے والے دو بچے بھی آئے تھے۔ کہ رہے تھے علی روز سکول میں انہیں موٹا ٹھوس ڈبل ڈوس کہتا رہتا ہے۔‘‘

دونوں بھائی سوچ میں پڑ گئے کہ علی کو کیسے سمجھایا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’علی ذیشان۔ مارکس 5/20۔۔۔ ہیں! علی ! یہ آپ کا ہی پیپرہے؟‘‘ سر رمضان ایک دم حیران ہو ئے اور انہوں نے بے ساختہ علی کا پیپر پلٹ کر دیکھا۔ آج انہوں نے سرپرائز ٹیسٹ لیا تھا۔ لیکن علی ہمیشہ سے پڑھائی میں خاص طور پر بیالوجی میں بہت اچھا تھا۔ اس کا ہر ایک ٹیسٹ بہترین نمبر لیے ہوتا تھا۔

آج کیا ہوا۔ علی کو خود بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اتنا آسان سا سوال اس کے ذہن سے یوں نکل گیا تھا جیسے کسی نے ربر سے مٹا دیا ہو۔ اب سر رمضان کے ریمارکس پر تو علی نے چاہا زمین کھلے اور وہ اس میں چلا جائے۔ شرمندگی کے مارے اس کا برا حال تھا۔ اس کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ تو بہت لائق فائق سٹوڈنٹس میں شمار ہوتا تھا۔

اگلے پیریڈ میں حساب کا ٹیسٹ تھا۔ علی پوری تیاری کر کے آیا تھا۔ اس نے ایک بار پھر بک کھول کر مثالوں کو اچھی طرح دیکھ لیا۔ ٹیسٹ شرع ہوا توعلی کوبنیادی فارمولا ہی بھول گیا۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن ذہن میں نہیں آسکا۔

’’اب کیا کروں؟ چلو اگلا سوال کرتا ہوں۔‘‘ اس نے پریشانی سے صفحہ پلٹا لیکن یہ کیا۔ اس میں بھی وہی فارمولا لگتا تھا جو اسے بھول چکا تھا۔ اب توعلی کی شکل دیکھنے والی تھی۔

ٹائم ختم ہوا اور سر نے سب سے پیپر ز لے لیے۔اتنے میں چھٹی کی بیل بھی بج اٹھی۔ علی نے خالی ذہن کے ساتھ بستہ اٹھایا اور گھر کی جانب قدم بڑھادیے۔

’’یہ میرے ساتھ کیا ہورہاہے۔ ایسا تو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پہلے بیالوجی کے پیریڈ میں بے عزتی پھر میتھ کا فارمولا بھول گیا۔۔ اف! سر پیپر چیک کریں گے تو ۔۔ ۔ بس! میں کل چھٹی کر لوں گا۔ ‘‘ علی دل ہی دل میں سوچتا جا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’نہیں بھائی! میں نے نہیں کھانا۔ بس ! بھوک نہیں ہے۔‘‘ عبداللہ اور اسد نے بہت کوشش کی اور لیکن علی کھانا چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا۔

’’اسے کیا ہوا۔ ‘‘ عبداللہ بھائی نے حیرت سے کمرے کے بنددرواز ے کو دیکھا۔

’’ضرور سکول میں کوئی بات ہوئی ہے۔‘‘ اسد نے کہا اور اٹھ کر علی کے کمرے میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بھائی! مجھے آج اتنا اچھا سبق یاد تھا بیالوجی کا۔ لیکن جب پیپر سامنے آیاتو میں سب بھول گیا۔ پتہ نہیں کیسے۔ اور ۔۔ اور۔۔‘‘ علی کی آواز رندھا گئی۔ وہ رونے لگا۔

اسد بھائی نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور اس کے آنسو صاف کیے۔

’’اور بھائی! میرا میتھس کاپیپر بھی اتنا برا ہوا ہے کہ بس۔ ایک دم ہی فارمولا میرے ذہن سے نکل گیا۔ اب کیا کروں؟ ‘‘

’’ہم م م ! ایسا لگتا ہے تم نے کسی کی بددعا لی ہے علی! میں تمھیں سمجھاتا تھا کہ بزرگوں کا احترام کرو۔ ان کا مذاق مت اڑاؤ۔ اپنے ہم عمر بچوں کی عزت کرو۔ لیکن تم نے میری بات نہیں سنی۔‘‘ اسد بھائی نے اداسی سے کہا۔علی تو یہ سنتے ہی پھر سے روہانسا ہو گیا۔

’’دیکھو! دکھے دلوں کی آہ نہیں لینی چاہیے۔ پھر تم نے تو سر عام بزرگوں کا مذاق اڑایا ہے۔ کتنی بری بات ہے یہ۔ کیا تمھیں ایسا کرنا چاہیے تھا؟ ‘‘

علی نے جھکے سر کے ناں میں سر ہلا دیا۔

’’علی ! میرے پیارے بھائی! اللہ پاک کو مذاق اڑانا بالکل پسند نہیں ہے۔ سب لوگوں کو اللہ پاک نے بنایا ہے۔ ہم کسی کو کالا کسی کو موٹا کہیں گے تو اللہ پاک ناراض ہو جائیں گے۔ پھرجب اللہ پاک ناراض ہو جائیں تو ہماری زندگی سے برکت اور کامیابی اٹھ جاتی ہے۔ہمارا کوئی کام ٹھیک نہیں ہو پاتا۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ پاک کو راضی رکھیں اور اس کی بندوں میں نقص نہ نکالیں۔ٹھیک ہےناں؟‘‘

یہ عبداللہ بھائی تھے جو نہ جانے کب ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئے تھے۔ علی اٹھ کر ان کے گلے لگ گیا اور رونے لگا۔

’’بس تم ایک کام کرو۔ کل سکول جانے سے پہلے زرینہ خالہ اور امجد صاحب سے معافی مانگو۔مجھے یقین ہے وہ تمھیں ضرور معاف کر دیں گے۔ ٹھیک؟ ‘‘ اسد بھائی نے کہا تو علی نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’انکل مجھے معاف کر دیں! میں نے آپ کا بہت دل دکھایا ہے۔‘‘ علی نے کہا تو امجد صاحب نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ پھیر ا اور کہنے لگے۔

’’کوئی بات نہیں بیٹا! ‘‘

پھر علی نے زرینہ خالہ سے اور سکول جا کر اپنے سب کلاس فیلوز سے معافی مانگ لی۔ اس نے عہد کر لیا تھا اب و ہ کسی کا مذاق نہیں اڑائے گا۔اس نے میتھس کے سر کو بھی ساری بات بتا دی تھی۔ سب علی کے بدلے ہوئے رویے سے بہت خوش تھے۔

میرے بچو! دکھے ہوئے دلوں سے نکلی ہوئی بددعا ربر کا کام کرتی ہے۔ یہ آپ کی زندگی سے کامیابی اور سکون کو مٹا دیتی ہے۔ کوشش کرو کہ کسی کا دل نہ دکھاؤ۔