Zaroor amal kru gi

 ’’بیٹا ! تم کہاں تھے مغرب کے بعد سے؟‘‘ علی جیسے ہی گھر میں داخل ہواتو آپا نے سوال کیا۔

’’ کچھ نہیں آپا بس ایسے ہی دیر ہوگئی ۔‘‘ علی نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے سختی سے پوچھا ۔

’’آپا وہ باہر جو چوکیدار خان بابا ہیں ناں! وہ کل سے بہت بیمار ہیں۔ میں ان کو لے کرمحلے کے  ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔وہاں رش تھا توباری کے انتظار میں دیر ہوگئی ۔‘‘
آپا حسبِ توقع یک دم برہم ہوگئیں۔


’’علی تم کو معلوم ہے کہ یہ وقت تمہاری پڑھائی کا ہوتا ہے اور خان بابا کو بلڈنگ کے دوسرے لوگ ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جاسکتے تھے ؟  ساری دنیا کا غم تمہارے ہی دل میں کیوں ہے۔ کبھی تم مالی کی مدد کر رہے ہوتے ہو کبھی کام والی ماسی کو گھر تک چھوڑ کر آرہے ہوتے ہو۔ میں اتنی دیر سے تمھارا انتظار کر رہی تھی کہ تم آؤ تو تمھیں حساب کے سوال کرانے ہیں لیکن تم ہو کہ بس!‘‘ آپا ڈانٹے چلے جارہی تھیں کیونکہ انہیں علی کا یوں ہرایک کی خدمت کرتے جانا ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔

***********

’’ٹرن! ٹرن! ٹرن!‘‘ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی تو دادی جان کی آواز آئی۔
’’یہ ٹیلیفون کب سے بج رہا ہے۔ کوئی تو اُٹھالے ۔‘‘
سعدیہ دورٹی ہوئی آئی اور فون اٹھایا۔ دوسری جانب خالہ مریم تھیں۔

’’السلام علیکم بیٹا! کیسی ہو؟‘‘

’’جی مریم خالہ میں ٹھیک ہوں۔ اللہ کا شکر ہے۔ آپ کیسی ہیں !‘‘
مریم خالہ بولیں۔ ’’ بیٹا   دو روز سے میری طبیعت اچھی نہیں ہے۔ تم آکر میرے لیے کھانا بنا دو اور گھر بھی صاف نہیں ہوا ۔ ماسی چھٹی  پر ہے۔‘‘ مریم خالہ ان کے گھر کے قریب ہی رہتی تھیں۔
سعدیہ نے فوراً جواب دیا ۔’’ معاف کیجئے گا خالہ جان میں اگر آپ کے گھر آؤں گی تو میں کل کا ٹیسٹ کیسے تیار کروں گی؟ سوری  میں نہیں آسکتی ۔یہ امی سے بات کریں۔‘‘ سعدیہ نے اتنا کہ کر امی جان کو فون تھما دیا۔

امی جان نے کہا بھی کہ خالہ کی طبیعت خراب ہے تو ان کے گھر چلتے ہیں لیکن سعدیہ نہ مانی۔ آخر امی  اکیلی ہی خالہ کے گھر چلی گئیں جو قریب ہی دوسری گلی میں واقع تھا۔

***********
دادی جان نے عشاء کی نماز کے بعد سعدیہ اور علی کو اپنے کمرے میں بلایا ۔
’’سعدیہ بیٹا تم نے مریم خالہ کو کیوں منع کیا ؟‘‘ انہوں نے پیار سے پوچھا۔

 ’’ دادی جان !آپا نے علی کو بہت ڈانٹا خان بابا کو ڈاکٹر پر لے جانے پر ۔تو میں بھی کیوں اپنا وقت ضائع کروں۔ویسے دل تو میرا بہت کر رہا تھا لیکن میں نے سوچا میرا کل بہت اہم ٹیسٹ ہے ناں!‘‘ سعدیہ معصومیت سے کہ رہی تھی۔ دادی جان کے لیے دودھ کا گلاس لاتی ہوئی آپا دروازے میں ہی رک گئیں۔
’’ میرے بچو! ہمارے نبی کریم ؐ دوسروں کے کام کاج بھی کرتے تھے اور بیماروں کی تیمارداری بھی کرتے تھے ۔یہ سب کام تو ہمارے پیارے نبی کریم محمدؐ کی سنت ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہر روز تہجد کے وقت ایک نابینا بڑھیا کے گھر جاکر صفائی کیا کرتے تھے۔ گھڑے میں تازہ پانی بھر کر لایا کرتے تھے اور کھانا بھی رکھ آتے تھے۔لوگوں کی خدمت کرنا اور ان کے کام آنا نیک لوگوں کی خوبی ہے۔ اس میں کوئی شرم یا جھجک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

آپا دروازے میں کھڑی یہ سب سن رہی تھیں اور بہت شرمندہ تھیں۔ پھر انہوں نے کچھ دیر سوچااور کمرے میں داخل ہو گئیں۔

’’یہ لیجیے دادی جان! اور سعدیہ !چلو خالہ کے گھر چلتے ہیں۔ وہ بیمار ہیں اور انہیں ہماری ضرورت ہے۔اکیلی امی جان تو کچھ بھی نہیں کر پائیں گی۔‘‘ آپا نے دودھ کا گلاس دادی جان کے ہاتھ میں تھمایا اور آہستگی سے بولیں۔ان کے  لہجے میں ندامت تھی۔

’’ہیں آپا! آپ سچ کہ رہی ہیں ناں! ‘‘ سعدیہ تو مارے خوشی کے اچھل پڑی۔
’’ہاں! بالکل! اور علی! میرے ساتھ کچن میں آؤ۔ اور ایک دودھ کا گلاس خان بابا کو دے آؤ۔ ان سے کہنا دوا دودھ کے ساتھ لیں۔‘‘ آپا بولتے بولتے کمرے سے چلی گئیں تو سعدیہ نے دادی جان کی جانب دیکھا۔ دادی جان مسکرا رہی تھیں ۔ وہ دودھ کا گلاس لاتی آپا  کی آہٹ بہت پہلے ہی سن چکی تھیں!