چھٹی کا دن تھا۔امی جان لاؤنج میں ناشتہ لگاچکی تھیں ۔سب ہی دسترخوان پر موجود تھے سوائے محمد امین کے جو صبح سے ہی اپنے کمرے کی سیٹنگ میں مگن تھا۔چند لمحے انتظار کے بعد انہوں نے اس کے کمرے جھانکا۔

’’بیٹاآؤ ناشتہ کرلو۔‘‘
’’جی امی جان آتاہوں ۔‘‘اس نے اپنے ارد گرد بکھرے  مختلف  رنگ و سائز کے قلم اور پنسلوں کوسمیٹا اور ہاتھ دھوکر ناشتے کی میز سلام کرکے براجمان ہوگیا۔
’’وعلیکم سلام بیٹانکل آئے ہو اپنی پنسلوں کے گھیرے سے ۔‘‘باباجان مسکراتے ہوئے بولے۔
’’جی باباجان۔‘‘جواباًوہ ہنس پڑا۔

دراصل محمد امین کو اچھے اچھے قلم اور رنگ برنگی پنسلیں جمع کرنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جوقلم پسند آجاتا اسے حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش ضرور کرتا ۔اپنی پاکٹ منی بھی قربان کرنی پڑتی تو کرگزرتا ۔یہی وجہ تھی کہ اسے محمدامین کی جگہ نرالے شوق کا امین بھی کہاجاتاتھاجواسے بھی اچھالگتاتھا۔
ناشتے سے فارغ ہوتے ہی وہ سب بہن بھائی بابا کے گرد جمع ہوگئے اور سیرپر جانے کی ضد کرنے لگے۔ بچوں کےامتحان ختم ہوچکے تھے اور چھٹیاں بھی تھیں ۔ بابا جان نے کچھ سوچتے ہوئے اعلان کیاکہ وہ انہیں داداجان سے ملوانے لے جائیں گے یہ اعلان سنتے ہی بچوں میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی ۔ان کے دل و دماغ میں پچھلی دفعہ کامزہ تازہ ہوگیااور وہ بے چینی سے اس لمحے کا انتظار کرنے لگے۔

 آخروہ صبح بھی طلوع ہوگئی جب وہ داداجان کی طرف نکل رہے تھے۔ تقریبادوگھنٹوں کا سفر طے کر کے سرسبزوشاداب علاقے میں وہ داخل ہوچکے تھے جہاں داداجان لبوں پرمسکراہٹ لئے اور ان کے  تایازاد آنکھوں میں انتظار لئے ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہ گاڑی سے اترتے ہی کود کر ان سے چمٹ گئے۔ کزنزکی خوشی بھی دیدنی تھی۔ انہوں نے اپنے چھوٹے سے لیکن خوبصورت کمرے میں بٹھایا۔تایاابواور تائی امی نے بھی خوب آؤبھگت کی لیکن وہ بچے بھی کیا جو ٹِک کر بیٹھ جائیں۔ سب کزنزنے صحن میں لگے جھولے کی طرف دوڑ لگائی۔ خوب جی بھر کر جھولے لئے۔ مزیدارپرخلوص کھانوں کالطف اٹھایا۔سرشام داداجان نے سب بچوں کو اپنے ساتھ لیااور پارک کی سیر کروانے لے چلے بچے کھیل میں لگ گئے ۔جب وہ خوب کھیل چکے تو داداجان انہیں واپسی پر  مارکیٹ لے گئے اور کہا  کہ چلو بچواب جو چیز آپ کولینی ہے لے لو۔
داداجان کی طرف سے آفر ملتے ہی سب بچوں نے کھلونوں والے کی طرف دوڑ لگادی جب کہ محمدامین کی نگاہیں کچھ تلاش کرنے لگیں۔
’’کیا بات ہے بیٹاآپ نے کیالینا ہے ۔‘‘ دادا جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
’’داداجان یہاں اسٹیشنری کی دکان نہیں ہے کیا؟ ‘‘وہ سوالیہ لہجے میں بولا۔
’’اوہ بیٹااس بار تو کوئی کھلونا ہی لے لو۔ قلم تو ویسے بھی آپ جمع کئے رکھتے ہو۔‘‘
’’نہیں دادجان مجھے کھلونا نہیں لینا۔‘‘ وہ اٹل لہجے میں بولاتو داداجان خاموش رہے کیونکہ وہ اس کی عادت سے واقف تھے۔
اچانک ایک دکان پر نظر پڑتے ہی اس نے اس سمت دوڑ لگادی۔ اپنی مطلوبہ دکان کو پاتے ہی وہ اندر چلاگیا۔
’’انکل اس قلم کی قیمت کیاہے۔‘‘اس نے ایک خوبصورت قلم کی بابت پوچھا
’’بیٹایہ ایک ہی ہے اوریہ بچہ خریدچکاہے۔‘‘انہوں نے اس کے ساتھ کھڑے اسی کے ہم عمر بچے کی طرف اشارہ کیا۔
’’اوہ ۔‘‘ وہ اس بچے کی طرف بڑھ گیا۔
’’بھیایہ مجھے دے دیں ۔‘‘
’’کیوں میں تو یہ خرید چکاہوں۔‘‘بچے نے جواب دیا۔
’’میں بھی تو آپ سے خریدناہی چاہتاہوں ۔آپ اپنی قیمت لے لینامجھ سے۔۔‘‘
’’نہیں میں نہیں دوں گاتم کوئی اور لے لو۔‘‘ بچے نے صاف انکار کر دیا۔
’’دیکھو تم مجھ سے ڈبل قیمت لے لینا۔‘‘اس نے اصرار کیا ۔
’’آخر کیوں تم یہ قلم ہی کیوں لیناچاہتے ہو۔‘‘اب کی بار بچہ بھی اکتاگیا 
’’مم۔۔مجھے پسند ہے نا بھیا اس لئے۔۔پلیز!‘‘
لیکن بچے نے بات سنی ان سنی کی اور جان چھڑانے والے انداز میں آگے بڑھ گیا۔
داداجان اور بچے جو اس کا انتظار کرتے کرتے یہاں ہی آچکےتھے یہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔ داداجان نے افسردہ کھڑے محمد امین کے کندے پر ہاتھ رکھاتو وہ چونک گیا۔
’’بیٹا آپ کوئی اور لے لو۔‘‘
’’نہیں داداجان وہ مجھے اچھے نہیں لگے‘‘
’’یہ لے لو بھئی یہ بھی تو کتناپیاراہے۔‘‘احمد بھیانے قلم اس کی طرف بڑھایا۔
’’رہنے دیں کوئی بھی نہیں لینا مجھے ۔۔دونمبر ہے یہ بھی۔‘‘اس نے زور سے پٹخااور منہ بسور کر کھڑاہوگیا۔
واپسی پر محمد امین کا موڈ سخت خراب ہوچکاتھا۔اس نے رات کا کھانا بھی ٹھیک سے نہ کھایا۔عشاء کے بعد سب بچے دادا جان کے کمرے میں کہانی سننے کے لئے آبیٹھے تو انہوں نے کہانی سنانے سے انکار کردیا۔بچے بھی تشویش میں پڑ گئے۔ چند ثانیے خاموش رہنے کے بعد انہوں نے محمد امین کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے۔
’’محمد امین آپ اتنے بیزار کیوں ہیں جبکہ آپ نے احمد سے بھی بدتمیزی کی تھی کیوں؟‘‘
’’داداجان وہ اصل میں مجھے بلیوکلر کے قلم بہت پسند ہیں اور اور وہ قلم میری پسند سے بھی بڑھ کر تھا ۔سو میں چاہتاتھاکہ وہ مجھے مل جائے اور میں چاہتاہوں کہ سب سے بہترین قلم میرے پاس ہو ۔‘‘محمد امین نے تفصیل سے جواب دیا۔وہ محسوس کر چکا تھا دادا جان اس سے ناراض تھے۔
’’لیکن دوسرے قلم کو آپ نے دونمبر کیوں کہا۔ یہ کتنی بری بات ہے کہ ہم دکاندار کے سامنے اس کی چیزوں کو دو نمبر کہیں۔ اسے کتنا افسوس ہوا ہو گا۔ ‘‘

’’ جج۔۔ جی  داداجان! وہ میرے ذہن میں ہی نہیں رہا۔ ‘‘وہ بے ساختہ بولا۔
’’میری بات غورسے سنوبیٹا!‘‘ اب کہ داداجان نے پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ کو بتاتاہوں سب سے اچھا قلم وہ نہیں ہوتاجو بہت مہنگاہویاجس پر قسم قسم کے نقش و نگار مزین کئے گئے ہوں بلکہ سب سے بہترین قلم وہ ہوتاہے جس سے آپ دوسروں کو فائدہ پہنچائیں اگر ایک معمولی سے قلم کے ذریعے آپ  اچھی اچھی باتوں کو پھیلانے کا کام لیں گے تو اللہ پاک بہت خوش ہوں گے ۔ اگر مہنگے ترین قلم سے آپ برائی کا ساتھ دیں گے تو اس میں کوئے شک نہیں کہ اللہ پاک ناراض ہو  جائیں گے۔ قلم تو ایسی ادب و احترام کی چیز ہے جس کی قسم اللہ نے کھائی ہے۔ آپ نے اپنی پسندکو مدنظر رکھتے ہوئے قلم کی بے ادبی کی ۔بری بات بیٹااگر آپ کا کردار سب سے اچھاہوگا آپ کی سوچ صاف ہوگی تو آپ کا قلم سب سے بہترین ہوگا۔اپنے قلم سے کوشش کریں ۔اچھائی کاپیغام دیں توآپ کا قلم ہمیشہ بلندیوں کا سفر کرے گا۔‘‘ اتنا کہ کر دادا جان خاموش ہو گئے۔ باقی سب بچے بھی کچھ سوچ رہے تھے۔
’’جی داداجان میں سمجھ گیااور میں اس پر عمل بھی کروں گا انشاء اللہ۔‘‘ محمد امین  نے کہا۔
’’یہ ہوئی نا بات ۔اب یہ لو آپ کا پسندیدہ قلم۔‘‘ باباجان نے بالکل اسی طرح کا قلم اس کی طرف بڑھایا جو وہ کسی اور دکان سے لے آئے تھے۔
’’شکریہ داداجان۔‘‘محمد امین کا چہرہ پھول کی طرح کھل گیا۔ ’’میں اس قلم کو سب سے اچھا قلم بناؤں گا۔‘‘

’’انشاءاللہ! چلو بچو! اب کہانی سنیں۔‘‘ داد ا جان نے کہا تو سب بچوں نے خوشی سے نعرہ لگایا۔