فاتی بہت اداس  تھی ۔ اس کے انگلش ریڈنگ میں نمبر بہت کم آئے تھے۔میڈم نے بھی اس کو کلاس میں ڈانٹا۔ گھر آکر بھی وہ بہت دیر تک چپ چپ رہی۔

امی جان نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔

’’امی میں نے انگلش کی پڑھائی اچھی طرح نہیں کی۔ اسی لیے میرے دس میں سے صرف تین نمبر آئے ہیں۔‘‘

’’اوہ ! چلو کوئی بات نہیں۔ اگلی بار اچھی طرح پڑھ لینا۔ ‘‘ امی نے پیار سے تسلی  دی تو فاتی پریشانی سے کہنےلگی۔

’’نہیں امی جان! اصل میں مجھے انگلش کی بک پڑھنا بہت مشکل لگتی ہے۔ ‘‘

 

’’اچھا! تو یہ بات ہے۔ اچھا ایسا کرتےہیں کہ میں آپ  کی آپی سے کہوں گی۔ وہ روز آپ کو انگلش کی ریڈنگ کروایا کرے گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے!‘‘ فاتی نے آخر کا ر اپنے آنسو صاف کر لیے اور اس کا دل مطمئن ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلے دن اسکول سے واپس آکر دوپہر میں امی نے فاتی اور بلو سے کہا۔

’’بچو! ہاتھ منہ دھو لو!  قاری صاحب کے پاس مدرسہ جانے کی تیاری کروتاکہ دیر نہ ہوجائے۔‘‘

یہ سننا تھا کہ فاتی اور بلو نے منہ بنا لیے۔

’’نہیں امی جان آج بس ایک چھٹی کروادیں۔‘‘ بلو لجاجت سے کہنے لگا۔

’’امی  آج آخری پیریڈ گیمز کا تھا ۔ میں بہت تھک گئی ہوں۔ آج چھٹی کر لوں؟‘‘

’’ہاں ناں امی! پلیز پلیز!‘‘ فاتی اور بلو دونوں ہی ضد کرنے لگے تو امی جان پریشان ہو گئیں۔ یہ روز کا معمول تھا۔ دونوں سپارہ پڑھنے سے کتراتے تھے۔

 فاتی منہ بسورتے ہوئے روز یہی کہتی۔ ’’امی ہم گھر میں ہی قرآن کا سبق پڑھ لیا کریں گے۔قاری صاحب سے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا ضروری ہے سارے مخرج حلق سے نکالنا اورپوری تجوید سیکھنا۔‘‘

لیکن آج امی نے پکا ارادہ کیا ہوا تھا کہ دونوں کو مدرسے ضرور بھیجنا ہے۔سو انہوں نے سختی سے  دونوں کو جوتے پہننے کا کہا ۔آخر تیار ہو کر منہ بنابناکر بوجھل قدموں کے ساتھ فاتی اور بلو  ابو کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ 

جب وہ دونوں مدرسہ پہنچے تو سب بچے پہلے سے آئے ہوئے تھے ۔قاری صاحب نے فاتی اور بلو کو بھی بیٹھنے کا کہا۔ پھر قاری صاحب نے پوچھا۔’’پیارے بچو! کیا آپ سب تیار ہو امتحان دینے کے لئے ؟‘‘

’’جی !‘‘  بچوں نے ایک ساتھ کہا ۔

فاتی اور بلو کی تیاری نہیں تھی ۔ ان دونوں نے آہستہ آواز میں کہا جس کو قاری صاحب نے صاف  محسوس کر لیا ۔

جب امتحان ہوا تو سب سے اچھی تجوید دانی اور شانی کی تھی۔قاری صاحب نے دونوں کو انعام دیا اور سب بچوں کے سامنے ان کی تعریف بھی کی ۔

 پھرقاری صاحب  نےسب بچوں کو سمجھایا۔’’میرے پیارے بچو !قرآن اللہ پاک کی کتاب ہے ۔ اس کو صحیح  طریقے سے پڑھنا  بہت ضروری ہے ۔جب ہم زیر زبر پیش کو صحیح طرح ادا نہیں کرتے تو اس کے معنی بدل جاتے ہیں ۔اس لیے قرآن پاک کی تجوید سیکھنا بہت ضروری ہے۔یاد رکھنا بچو! دل لگا کر تجوید سیکھنے سے اللہ تعالی  بہت خوش ہوتے ہیں ۔ جب ہم اللہ کو خوش رکھیں گے تو ہمارے سب کام آسان ہو جائیں گے۔‘‘

فاتی اور بلو غور سے قاری صاحب کی باتیں سن رہے تھے۔ قاری صاحب کا آخری جملہ سنتے ہی فاتی نے کہا ۔

’’قاری صاحب اگرمیں تجوید سیکھنے میں محنت کرو گی تو کیا میری انگلش ریڈنگ میں اچھے نمبر آئیں گے ؟‘‘

یہ سوال سن کر بڑے بچے ہنس پڑے۔

’’بالکل!اللہ پاک ان لوگوں کو مدد کرتے ہیں جو اللہ کی کتاب کو شوق سے پڑھتے ہیں۔ اور میرے بچو! جس طرح انگلش اور اردو کی غلط ریڈنگ کرنے سے نمبر کم ملتے ہیں اوراستاد ناراض ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح قرآن پاک کو صحیح نہ پڑھنے سے اللہ پاک ناراض ہوتے ہیں۔ اس کو تجوید کے ساتھ ہی پڑھنا چاہیے۔‘‘

اس دن کے بعد سے فاتی اور بلو نے مدرسے سے کبھی چھٹی نہیں کی کیونکہ انہیں اللہ پاک کو خوش رکھنا آگیا تھا۔