گلاب اور خوشبو

          Print

پیارے بچوں! ایک بہت خوبصورت اور ہرا بهرا سا باغ تھا۔ باغ میں رنگ برنگے پهول کهلے تهے۔ ایک تتلی اڑتی ہوئی آئی اور ان پھولوں پر منڈلانے لگی۔ کبهی اس پهول پر بیٹهتی کبهی اس پهول پر۔ وہ پهول کا رس پینے میں مست تهی۔ اتنے میں اس نے پیچهے دیکها۔ گلاب اور خوشبو میں کسی بات پر جھگڑا ہورہا تها۔

وہ اڑتی ہوئی ان کے قریب آئی اور گلاب پر بیٹھ گئی۔ تتلی نے گلاب سے پوچھا کیوں جھگڑا کرتے ہو

تو گلاب نے کہا کہ میں خوبصورت ترین رنگوں اور بہترین بناوٹ کا مالک ہوں۔ میں سجاوٹ کے لحاظ سے بہت اعلیٰ ہوں، مجهے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ہر کوئی مجهے اپنے گهروں، کمروں، اور محلوں میں سجاتے ہے۔ میں قابل ذکر ہوں بہ نسبت خوشبو کے۔

اب تتلی نے خوشبو سے پوچھا کہ تم کیوں جهگڑتی ہو۔ خوشبو، گلاب کی بڑائی برداشت نہ کرسکی۔ اس نے بهی اپنی داستان شروع کی کہ میری منزل لامحدود ہے۔ میں ہر کسی کی سانسوں میں بستی ہوں۔ صبح ٹهنڈی ہوا میں سیر کرتی ہو۔ شام کی مدہوش ہوا میں محسوس کی جاتی ہو۔

فرق صرف اتنا ہے کہ میں دکھائی نہیں دیتی۔ میری کوئی ظاہری شکل نہیں ہے اسی لیے گلاب مجھ سے خفا ہے۔ اگر میں گلاب میں نہ بستی تو گلاب نہ مہکتا اور نہ اس کی قدر ہوتی۔ میں گلاب کی خاطر اپنی ساری زندگی گلاب میں ہی بسر کرتی ہوں۔ میں گلاب سے ہی پیدا ہوتی ہو اور اسی میں فنا بهی ہوجاتی ہو۔ میں پهولوں کو مہکاتی ہو اور تتلیوں کو اڑا کرلاتی ہوں۔ میں پهولوں کو مہکاتی اور قابل ناز بناتی ہوں۔ مگر پهول مجھ سے خفا ہے۔

تتلی نے ان دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ اگر پهول نہ ہوتا تو تمہارا وجود نہ ہوتا اور اگر خوشبو نہ ہوتی تو پهول کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ تتلی نے پهول سے مخاطب ہوکر کہا کہ یہ سچ بات ہے خوشبو ہی مجهے مائل کرکے تم تک لاتی ہے۔ تم خوشبو سے ناراض ہو پهر بهی وہ تم میں مہک رہی ہے۔ دیکھو! وہ کتنی اچهی ہے۔

آؤ یہ جھگڑا ختم ہی کردیتے ہیں۔ اس طرح تتلی نے گلاب اور خوشبو کا جهگڑا ختم کروایا۔ اور دونوں میں صلح ہوگئی۔ ہمیں بهی پهول اور خوشبو سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور کبهی غرور نہیں کرنا چاہئے۔


{rsform 7}