کمپیوٹر کلاس شروع ہوتے ہی پوری کلاس کے طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ پانچویں جماعت کے ہر ایک طالب علم کو کمپیوٹر لیب جانے کا بے تابی سے انتظار ہوتا ۔ہر ہفتے کے دو پیریڈز میں پندرہ پندر ہ طلبہ کو لیب میں بھیجا جاتا۔

سر عمار کے کلاس میں آمد پر سب نے پر جوش سلام کیا۔

’’جی سر آج ہم سے کون جائے گا؟‘‘ حمدان نے بے چین ہوکر پوچها۔

تھوڑی سی بات چیت کے بعد سر عمار نے 15 طلبہ  کے نام لیے اور باقی طلبہ کو کلاس ورک کرنے کو کہا۔ان طلبہ میں  بارہ سالہ حمدان بھی شامل تھا۔ لیب میں پہنچ کر سب نے اپنے اپنے کمپیوٹر آن کیے اور کام میں مشغول ہو گئے۔

چھٹی کی بیل بجتے ہی تمام لڑکوں نے کمپیوٹر آف کیےاور باہر کی جانب بڑھ گئے۔ سوائے حمدان کے کیونکہ وہ ابھی تک کام میں مشغول تھا۔ اس کا خیال تھا تھوڑا سا ہی کام رہ گیا ہے۔ پانچ دس منٹ تک میں بھی اٹھتا ہوں۔

 

چهٹی کی بیل بجتے ہی اسکول خالی ہوگیا۔چوکیدار کریم بابا نے اسکول کی کلاسیں دیکھ کر دروازے بندکردیے ، جب وہ لیب کو دیکھنے آئے تو انہیں اندر حمدان کی موجودگی کا احساس ہی نہ ہوا۔ انہوں نے ایک نظر کھڑکی میں سے پوری لیب پر ڈالی اور باہر سے تالہ لگا کر چل دیے۔

’’اوہ! یہ کیا! باہر سے تالہ لگ گیا ہے۔ حمدان جلدی سے اٹھا اور کرسی پیچھے دھکیلی اور کرسی پیچھے ہی کی طرف الٹ گئی۔ جب تک وہ کرسی دوبارہ کھڑی کر کے دروازے کی طرف آتا چوکیدار بابا جا چکے تھے۔ ان تک حمدان کے کھٹکھٹانے کی آواز نہیں پہنچ سکتی تھی۔

اب کیا کروں؟  حمدان نے بند دروازے کی طرف دیکهتے ہوئے پریشانی سے سوچا۔ اسے سب کام اب بھول چکا تھا۔ آگے دو دن کی چھٹی تھی یعنی اب اسے دو دن تک اسی لیب میں رہنا تھا۔ وہ کبهی گھبرا کر دروازے کے پاس جاتا کبهی کرسی پر بیٹھ جاتا۔کھڑکیوں کے آگے بھی سلاخیں اور پھر جالی لگی ہوئی تھی۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے اور کس کی مدد لی جائے۔ وہ کھڑکی میں سے گراؤنڈ پر بھی بار بار نظر ڈال رہا تھاجہاں اب سناٹا چکا تھا۔

’’کیا بات ہے ابو !آج آپ پریشان سے ہیں۔ آپ نے کھانا بھی ٹھیک سے نہیں کھایا۔‘‘ عمر نے پوچھا تو چوکیدار بابا جو بستر پر لیٹ چکے تھے کہنے لگے۔

چوکیدار بابا کو آج نہ جانے کیوں بے چینی سی ہو رہی تھی۔ وہ کھانا کھا کراور ظہر کی نماز ادا کر کے  بستر پر لیٹ چکے تھے لیکن مسلسل ایک الارم سا ان کے اندر بج رہا تھا۔ کہیں کچھ غلط ہے۔ ہاں! یاد آیا۔ وہ حمدان چھٹی کے وقت نظر نہیں آیا  مجھے۔ حالانکہ وہ روزانہ سلام کرتا ہے۔ آج صبح بھی اس نے میرے سے ہاتھ ملایا تھا۔لیکن  چھٹی کے وقت وہ کہاں گیا۔ انہوں نے یکدم سوچا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

حمدان کو لیب میں بیٹھے کافی دیرگزر گئی۔اب وہ رو بھی رہا تھا۔ اچانک دروازے پر کھٹ پٹ ہوئی۔ سہمےہوے حمدان نے دروازے کے جانب دیکھا۔ایک دم سے دروازہ کهلا اور چوکیدار کریم بابا سامنے کھڑے تهے۔حمدان کی تو جیسے جان واپس لوٹ آئ یہو۔پسینے سے شرابور ،آنکھوں میں آنسو۔ تھوڑی دیر  حمدان کے اوسان بحال ہوئے  تو چوکیدار کریم  بابا نے پوچها ۔’’بیٹا! اب تک تم یہاں کیا کرہے ہو؟ میں تمھیں سب کلاسوں میں ڈھونڈ تا آیا ہوں۔مجھے شک  سا تھا تم آج سکول ہی رہ گئے ہو۔‘‘

حمدان یہ سن کر حیران رہ گیا کہ چوکیدار بابا کو کیسے پتہ چلا۔اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے بتانے لگے۔

’’ بیٹا حمدان میں 7 سال سے یہاں کام کر رہاہوں ۔مجهے ہر آنے جانے والے کی خبر ہوتی ہے اور تمہیں میں  کیسے بهول سکتا ہوں ۔تم تو صبح آتے ہوئے اور چهٹی میں جاتے ہوئے دوسرے بچوں کے برعکس مجھے سلام کرتے ہوئے جاتے ہو۔آج جب  تمھیں چهٹی کے ٹائم نہیں  دیکها تو پریشان ہوگیا اور تمھیں ڈھونڈنے لگااور اللہ کا شکر ہے تم مل گئے۔  ‘‘

’’شکریہ بابا! مجھے نہیں پتہ تھا سلام کرنے کا اتنا  بڑافائدہ ہو سکتا ہے۔ ‘‘ حمدان نے بستہ پہنتے ہوئے کہا  تو چوکیدار بابا ہنس پڑے اورکہنے لگے۔

’’شکریہ تو تمھیں بیٹا! اپنے ابو جان کا ادا کرنا چاہیے جنہوں نے تمھیں اتنی اچھی بات سکھائی اور اب وہ باہر کھڑے تمھارا انتظا ر کر رہے ہیں۔‘‘

 گیٹ پر حمدان کے والد پریشان کھڑے تھے کیونکہ وین والا انہیں بتا چکا تھا کہ حمدان وین میں کافی انتظار کے باوجود نہیں آیا۔ اب وہ خود سکول پہنچ چکے تھے۔ جب انہوں نے سامنے حمدان کو آتے دیکھا تو بھاگ کر اسے گلے سے لگا لیا۔ واقعی! سنت پر عمل کرنے میں فائد ہ ہی فائدہ ہے... دنیا کا بھی آخرت کا بھی!