اخلاق کی خوشبو

          Print

گرمی کی چھٹیاں شروع ہو گئی تھی۔ سارے محلے والوں کو یہی ڈر تھا کہ اب بچوں کی شرارتیں عروج پر ہوں گی۔ مگر چونکا دینے والی بات تو یہ تھی کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ اور اسکی ایک ہی وجہ تھی، اور وہ تھا عادل۔

کافی دنوں سے عادل کے مزاج میں کچھ تبدیلیاں نظر آ رہی تھی۔ وہ پہلے کے مقابلے اب کافی بدل چکا تھا۔ وہ بچہ، جو بات بات پر سب سے بدتمیزی کیا کرتا تھا۔ اب آپ جناب کے علاوہ بات نہ کرتا۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ، جس بچے کا پڑھائی سے دور

دور تک کوئی تعلق نہیں تھا اس نے جماعت میں تیسرا مقام حاصل کیا ۔

عادل کے گھر والوں کے لیے یہ بات بھی حیران کن تھی کہ جس بچے کو پودوں سے سخت چڑ تھی، اب اس نے کئی طرح کے پودے اپنے آنگن میں لگا رکھے تھے۔

پہلے جب کبھی عادل گھر سے باہر نکلتا تو امی ابو کو یہی ڈر ہوتا کی اب کوئی نہ کوئی شکایت ضرور سننے کو ملے گی کہ دیکھیں آج عادل نے پھر ہمارے گھر کی کانچ توڑ دی، آج عادل نے ہمارے پودوں کو نقصان پہنچایا، آج عادل نے اسکول میں پھر لڑائی کی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اب ایسا کچھ نہ تھا۔ غور کرنے والی بات تو یہ تھی کہ عادل میں یہ مثبت تبدیلیاں کسطرح رونما ہوئی۔

یہ کچھ مہینے پہلے کی بات ہے، جب ایک دن جماعت کے سارے بچے میدان میں کھیل رہے تھے، اور ہر بار کی طرح عادل کی شرارتیں عروج پر تھی۔ آج بھی عادل اپنے شرارتی دوستوں کے ساتھ مل کر ہر کسی کو پریشان کرنے میں مصروف تھا۔ تب ہی عادل کی نظر سامنے سے آتے ہوئے ارسلان پر پڑی، ارسلان کے ہاتھوں میں گیند تھی، عادل نے وہ گیند اس سے لینی چاہی لیکن ارسلان نے دینے سے انکار کر دیا اور آگے بڑھ گیا۔ اس بات پر عادل نے اسےزور سے دھکا دیا ، ارسلان گر پڑا۔ اسے زمین پر گرا دیکھ عادل اور اس کے دوست کھلکھلا کر ہنسنے لگے۔ تبھی ارسلان فوراً زمین سے اٹھا اور عادل کے بالکل سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اس کے کپڑے گندے ہو چکے تھے، آنکھیں لال تھی اور چہرے سے غصہ صاف ظاہر ہو رہا تھا ارسلان نے ایک غصیلی نظر سب پر ڈالی اور وہاں سے نکل گیا۔ اس کے اسطرح سے دیکھنے سے سب کی ہنسی روک گئی۔ کیوں کہ کسی نے بھی ارسلان کو اس سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔

دراصل ارسلان جماعت میں کافی شریف اور خاموش رہنے والا لڑکا تھا۔ اس کے اخلاق اور شرافت کی وجہ سے استاد اسے کافی پسند کرتے تھے۔ لیکن عادل ہمیشہ اس کے اخلاق کا فائدہ اٹھاتا۔ نت نئے نئے طریقوں سے اسے پریشان کیا کرتا۔ کبھی اس کا بستہ چھین لیتا، تو کبھی اس کا ٹفن کها لیتا، تو کبھی اس کی بیاض لے کر اسے پوری جماعت میں دوڑاتا۔

اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی عادل نے کبھی ارسلان کے چہرے پر غصہ نہیں دیکھا ۔ لیکن آج جیسے ارسلان کا ضبط خواب دے گیا ہو لیکن اس نے پھر بھی اپنے اچھے اخلاق کا دامن نہیں چھوڑا اور عادل سے کوئی لڑائی نہیں کی۔ مگر اس واقعہ کے بعد اس نے عادل سے بات کرنا چھوڑ دیا۔

کچھ دنوں بعد عادل کی شرارتوں سے تنگ آ کر اسکول کے کچھ لڑکوں نے اسے بہت مارا پیٹا۔  جب یہ بات ارسلان کو پتہ چلی تو وہ دوڑا دوڑا اسے بچانے چلا آیا۔ ارسلان نے نہ صرف اسے ان سب سے بچایا بلکہ اسے سہارا دے کر جماعت میں لے آیا اور میز پر بیٹھا دیا۔ اس اپنے رومال سے اس کے زخم صاف کئے اور اسے اسی طرح سہارا دیتے ہوئےگھر تک چھوڑ آیا۔ عادل کو کافی چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ کافی دن اسکول نہ آسکا ۔  لیکن اس دوران ارسلان اسکی طبعیت پوچھنے بلا ناغہ آتا تھا۔

کچھ دن بعد جب عادل پوری طرح ٹھیک ہو گیا تو امی نے اسے پھلوں کی ایک ٹوکری دی اور کہا کہ وہ اسے ارسلان کے گھر دے آئے اور اس کا شکریہ بھی ادا کرے۔

وہ کافی دیر سے ارسلان کے گھر کے باہر کھڑا کچھ پریشان لگ رہا تھا، پھر اس نے ڈرتے ہوئے دروازے پر دستک دی، دروازہ کسی بزرگ خاتون نے کھولا، اور اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’وہ ارسلان........ارسلان گھر پر ہے؟‘‘

انہوں نے سر ہلا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی۔ عادل ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا اور دل ہی دل میں سوچا کہ اس نے نہ جانے کتنی ہی دفعہ ارسلان کو پریشان کیا۔  اس بات پر ارسلان کی امی اس پر غصہ نہ کریں۔

عادل نے اپنا تعارف کرایا۔ اس پر انہوں نے بڑے پیار سے اسے ایک کرسی پر بٹھایا اور وہ بھی وہی رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ گھر کے اندر والے حصے میں چلی گئیں، اور واپسی پر ان کے ایک ہاتھ میں کھانے پینے کے لوازمات سے بھری ایک ٹرے اور دوسرے ہاتھ میں دو شیشیاں تھیں۔

انہوں نے ٹرے میز پر رکھی اور شیشیاں بھی، اور پاس رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئیں۔ اب انہوں نے عادل کو اپنے پاس بلایا،  وہ فوراً اٹھ کر ان کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

انہوں نے پاس رکھی ایک شیشی اٹھائی اور اس کے ایک ہاتھ پر تھوڑی سی مائع چھڑکی اور کہا سونگھو ۔ اس نے سونگھا، بڑی عجیب سی بو تھی، اس نے برا سا منہ بنایا۔ اب کے انہوں نے اس کے دوسرے ہاتھ پر دوسری شیشی کے مائع کا چھڑکاؤ کیا۔ اور پھر کہا سونگھو۔ وہ بہت خوشبودار مائع تھا، یہ تو بہت خوشبودار ہے، اس نے فوراً کہا۔

اس  پر انہوں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور ہنس کر سوال کیا۔ تمہیں پتہ ہے کہ پہلی شیشی میں کیا تھا؟ عادل نے نہیں میں سر ہلایا۔

اس پر انہوں نے کہا کہ پہلی شیشی میں تیل تھا جس کی خوشبو تمہیں پسند نہیں آئی۔ عادل نے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا۔

اور دوسری شیشی میں کیا تھا؟ اس نے تجسس سے پوچھا۔ اس پر انہوں نے مسکرا کر جواب دیا ۔ اس میں عطر تھا، جس کی خوشبو تمہیں بہت پسند آئی۔بیٹے بالکل اسی طرح ہمارے اخلاق سے بھی خوشبو آتی ہے۔ اگر ہمارے اخلاق اچھے ہوں تو سب ہمیں پسند کرتے ہیں اور ہم سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے اخلاق برے ہو تو سب ہمیں برا سمجھتے ہیں اور ناپسند کرتے ہیں۔‘‘

بس پھر کیا تھا۔ یہ بات عادل کے دل میں اتر گئی اور اس دن کے بعد سے اس کے مزاج میں مثبت تبدیلیاں رونما ہونے لگی۔ اب تمام محلے والے اس سے بے حد خوش ہیں۔ عادل اور ارسلان کی دوستی بھی گہری ہوتی چلی جارہی ہے۔ 


{rsform 7}