راز مل گیا

          Print

آج کل فائزاکثر ہی گہری سوچ میں ڈوبا رہتا تھا ۔والدین ہوں، بہن بھائی یا دوست سب سے ہی بات کرنے اور ان کا سامنا کرنے سے کترا  رہا تھا۔ فائز پیارا سا گول مٹول سا  بچا تھا۔بچپن میں تو سب ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے، ایک صحت مند بچے کے ساتھ کھیلنا اور گود میں اٹھائے اٹھائے پھرنا کسے پسند نہیں ہوتا،بس یہی حال فائز کے گھر والوں کا بھی تھا۔مگر جوں جوں فائز بڑا ہوتا گیا،اسکی زیادہ کھانے کی عادت پکی ہوتی چلی گئی۔بھوک کم ہو یا نہ بھی ہو تو اسکو کھانے کی طلب رہتی

اور وہ کچھ نا کچھ کھاتا رہتا۔اس عادت نے اس کے جسم کو کافی موٹا کر دیا تھا۔

فائز کے والدین اور بہن بھائی اس کے ضرورت سے زیادہ کھانے سے  پریشان تھے اور وقتاً فوقتاً اس کو ٹوکتے بھی تھے مگر نہ فائز اپنی اس عادت پر قابو پا رہا تھا اور نہ ہی اسکو احساس تھا۔دراصل احساس اس میں تب پیدا ہوا جب اس کے بہن بھائیوں نے اس  زائد وزن کا مذاق اڑانا شروع کیا۔اس کے اسکول محلے کے  دوستوں کے علاوہ خاندان میں کزنز بھی اس کے موٹاپے اور بے ڈول جسم کو دیکھ کر ہنستے اور اکثر مذاق مییں ایسےطنزیہ جملے کستے کہ فائز کا دل بہت دکھ جاتا۔اب وہ غور کرتا کہ اس کے آس پاس رہنے والے سب ہی افراد متناسب جسم کے اسمارٹ لوگ ہیں  اور ان سب میں وہ اکیلا موٹاپے کا شکار ہے۔

اب اس پر اپنے آپ کو دبلاکرنے کی دھن سوار ہو گئی تھی اور اکثر تنہائی میں وہ  طرح طرح کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ایک دن اسے ایک مشہور اخبار میں ایک میڈیکل سینٹر کا اشتہار دکھائی دیا۔ ان کا ماننا تھا کہ ان کی مندرجہ ذیل ادویا کھانے والے ایک ہی ماہ میں اپنا وزن کافی حد تک کم کر سکتے ہیں۔  ساتھ میں وہ  لوگ اپنے مستند ہونے اور قابل ڈاکٹرہونے  کا دعویٰ بھی کرتے تھے۔ اشتہار میں یقین دلایا گیا  تھاکہ موٹے افراد مایوس نہ ہوں۔ یہ دوائیں استعمال کرنے سے وہ  ایک ماہ  میں ہی  بھی اچھے منتاسب اور سمارٹ  جسم کے مالک بن جائیں گے اور ایک  خوبرو نوجوان نظر آنے لگیں گے۔ ساتھ ہی کچھ  غذاؤں کے متعلق بھی ہدایات تھیں۔دوا کا پہلا کورس مفت تھا۔ فائز نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چپکے سے وہ دوا منگوا لی  اور استعمال کرنا شروع کر دی۔

ایک ہفتے  بعد ہی وہ ہسپتال کےبستر پر نڈھال  پڑا تھا۔جہاں اس کو بتایا گیا کہ جو دوائیں فائز کھا رہا تھا وہ اس  کی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں اور اپنی روز مرہ کی خوراک سے آدھی غذاؤں کو نکال دینے سے اس کے اندر طرح طرح کی کمزوریاں پیدا ہو رہی تھیں۔

 فائز کے والد نے  پہلے تو اس کو ڈانٹ پلائی پھر پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ہم سب انسانوں کو ، مختلف انداز اور جسامت کا بنایا ہے۔ کوئی زیادہ وزن والاہے تو کوئی دبلا پتلا، کسی انسان کا رنگ گہرا ہے تو کوئی سانولا یا گورا۔ ہم انسان اس کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کر سکتے۔ہاں ہم مناسب ورزش اور خوارک کے متوازن استعمال سے اپنے جسم کے زاید وزن کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔

اورہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اللہ کی دی ہوئی ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوں جو اس نے ہم پر حلال کیں۔مگر میانہ روی کے ساتھ اور خود پر قابو  اور برداشت کر کے۔کسی بھی چیز کی زیادتی یا بے جا کمی سےانسان لے اپنے لیے نقصان دہ ہے۔

اب فائز روزانہ صبح سویرے اپنے والد کے ساتھ ورزش کرنے جاتا ہے۔ آج وہ اعتدال میں ہرغذا کھاتے ہوئے ایک خوشحال و مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔ آخر اس کو سمارٹ اور صحت مند رہنے کا  راز مل گیا ہے ۔ 


{rsform 7}