Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

بلو کافی دیر سے ہوم ورک میں مصروف تھا جب اچانک اس کی نظر گھڑی پر پڑی۔

’’اوہ! چھ بج گئے۔ میرے دوست انتظار کر رہے ہوں گے۔‘‘

’’امی جان میں نے  آدھاہوم ورک کرلیا ہے ۔اب میں کھیلنے جانا چاہتا ہوں ۔‘‘ بلو نے امی سے کہااور جلدی میں الٹی سیدھی کتابیں بیگ میں ڈالنے کی کوشش کی تو سب کتابیں زمین پر گر گئیں۔لیکن  بلو کو بہت جلدی تھی۔ وہ  شوز پہن کر کمرے سے باہر آ گیا۔

’’امی بقیہ ہوم ورک گھر آکر کرلوں گا۔کیا میں ابھی چلا جاؤں ؟ آج میرا میچ ہے ناں!‘‘

فاتی کمرے میں آئی تو کمرے کا برا حال تھا۔ اسے سخت کوفت ہوئی۔ وہ کچن میں آئی اور جھلا کر کہنے لگی۔ ’’امی جان! بلو آج پھر سب کچھ پھیلاکر باہر جارہاہے۔‘‘

’’ٹنگ ٹنگ!‘‘

 بیل بجتے ہی سارے بچے کلاس میں جانے لگے تو فاتی نے لنچ باکس بند کیا اور بلّو  سے کہا۔

’’بلّو  جلدی کرو ۔بریک ٹائم ختم ہوگیا ہے۔‘‘ بلّو  نے پانی کی بوتل کھولی ہوئی تھی۔

’’ہاں چلو ۔‘‘ بلّو نےتیزی کے ساتھ بوتل کا ڈھکن بند کیا اوردونوں کلاس روم کی طرف بھاگے۔

فاتی تیسری کلاس میں اور بلّو دوسری کلاس میں پڑھتا تھا ۔یہ دونوں کلاسوں کا گیمز کا پیریڈ تھا لیکن  موسلا دھار بارش کی وجہ سے بچوں کو کلاسوں میں ہی رہنے کا کہا گیا اور مس اسماء کو ان کی طرف بھیج دیا گیا۔ مس اسماء نے دوسری اور تیسری کلاس کو  ایک ہی کلاس میں اکھٹا کر لیا اور ان سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے لگیں۔

پیارے بچو! سات سالہ حارث سےاس  کے بابا بہت پیار کرتے ہیں۔وہ  جیسے ہی رات کو کام سےآتے ہیں حارث کے ساتھ کھیلتے ہیں اور اس کو مزے مزے کی کہانیاں سناتے ہیں ۔ آج جب حارث کے بابا گھر آئے تو ان کے ساتھ ان کے دوست بھی تھے ۔ بابا ان سے باتیں کر رہے تھے۔

کافی دیر ہو گئی ۔ بابا اپنے دوست کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھے رہے۔حارث بہت بور ہو رہا تھا۔اس نے بابا کے پاس جا کر بابا کو زور زور سے بلانا شروع کیا۔ جس سے بابا کو انکل کی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

اس لیے بابا انہوں نے پیار سے حارث کو باہر جانے کو کہا۔  مگر حارث نے بابا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچنا شروع کیا۔ 

’’بابا کھیلتے ہیں ناں چلیں بابا کھیلتے ہیں۔‘‘

 

اچانک بابا نے حارث کو سختی سے ڈانٹ دیا۔

فاتی تھیلی میں سے باجرہ لے کر چھت کی طرف دھیرے دھیرے جانے لگی تاکہ بلّو کو پتا نہ چلے  اوروہ سارے کبوتروں کو باجرہ اور پانی ڈال سکے۔اصل میں بلو کبوتروں کا بالکل خیال نہیں کرتا  تھا بلکہ ان کو بے حد تنگ کرتا تھا ۔ اس لیے  فاتی بھی بہت پریشان ہوجاتی ۔ اس نے کئی بار امی جان سے شکایت لگائی۔ بلّو کو بہت بار ڈانٹ پڑی لیکن پھر بھی کبوتروں کے ساتھ اپنی شرارتوں کے ساتھ باز نہ آیا۔

فاتی اپنے  جیب خرچ میں سے ہر ہفتے ابو کے ساتھ بازار سے باجرہ لاتی۔اسے پرندوں کا خیال رکھنا بہت اچھا لگتا۔ 

خاص طور پر کبوتر اس کے پسندیدہ پرندے تھے۔

فاتی بہت اداس  تھی ۔ اس کے انگلش ریڈنگ میں نمبر بہت کم آئے تھے۔میڈم نے بھی اس کو کلاس میں ڈانٹا۔ گھر آکر بھی وہ بہت دیر تک چپ چپ رہی۔

امی جان نے وجہ پوچھی تو کہنے لگی۔

’’امی میں نے انگلش کی پڑھائی اچھی طرح نہیں کی۔ اسی لیے میرے دس میں سے صرف تین نمبر آئے ہیں۔‘‘

’’اوہ ! چلو کوئی بات نہیں۔ اگلی بار اچھی طرح پڑھ لینا۔ ‘‘ امی نے پیار سے تسلی  دی تو فاتی پریشانی سے کہنےلگی۔

’’نہیں امی جان! اصل میں مجھے انگلش کی بک پڑھنا بہت مشکل لگتی ہے۔ ‘‘

’’یہ کیا فاتی اور بلو تم دونوں اب تک سوئے نہیں ہو ۔گھڑی کی طرف ذرا دیکھو کیا ٹائم ہوگیا ہے ؟‘‘

امی جان نے اچانک کمرے کا دروازہ کھولا تو فاتی اور بلو دونوں اپنی اپنی ویڈیو گیم کھیلنے میں مگن تھے ۔ امی  کمرے میں کب آئیں انہیں پتہ ہی نہیں چلا ۔فاتی نے اپنا ویڈیو گیم جلدی سے تکیہ کے نیچے چھپا دیا اور کہا ۔

’’نہیں امی جان میں  تو نہیں کھیل رہی تھی۔ یہ بلو ہی وڈیوگیم کھیل رہا تھا۔‘‘  فاتی نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ تکیے کے نیچے سے گیم کےEnd ہونے کی آواز  آنےلگی۔

بلّو اور فاتی بوجھل دل ،آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو اور دبے قدموں کے ساتھ سکول سے گھرواپس آرہے تھے۔ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟کیسے مدد کرسکتے ہیں  ؟ آخر فاتی نے کہا۔

’’ہم مل کر ہانی اور شانو کی مدد کریں گے تو وہ دونوں بہت خوش ہو جائیں گے۔‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے! لیکن کیسے؟‘‘ بلّو بولا۔