Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

پیارے بچو!سندھ کے ریگستانی علاقے میں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔یہ کہانی اس گاؤں کے ایک لڑکے کی ہے جس کانام خدا بخش تھا۔ سب گاؤں والے خدابخش کو بخشو کے نام سےپکارتے تھے۔

یہ گاؤں صحرائے تھر کے ساتھ لگتا تھا جس کی وجہ سے گاؤں والوں کے لئے پینے کا پانی حاصل کرنا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ گاؤں کے لوگ اپنی زندگیوں کا قیمتی وقت پانی کی تلاش میں گزار دیتے تھے۔ کبھی سال میں ایک آدھ بار بارش ہو جاتی تھی اور پانی گڑھوں یا تالابوں کی شکل میں جمع ہو جاتا تو گاؤں والے وہاں سے پانی حاصل کرتے۔ گاؤں میں کئی جگہوں پر سینکڑوں فٹ گہرے کنویں تھے۔ گاؤں والوں کو کئی کئی میل کا سفر طے کر کے پانی لینے جانا پڑتا۔ ان ساری مشکلات میں وہ اونٹوں کی مدد لیتے تھے کینونکہ صحرا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا اونٹوں کے بغیر ممکن نہیں اس لئے گاؤں کے اکثر لوگوں کے پاس اونٹ تھے۔

  ’’مما آج تو ہم باغ جائیں گے ناں ۔۔۔ ‘‘ چھ سالہ نینی نے ماکے پا س آکر لاڈ بھرے انداز میں کہا۔

’’ بالکل نینی! آج چونکہ موسم بھی اچھا ہو رہا ہے تو آج ہم ضرور چلیں گے باغ ۔۔۔۔‘‘ مسز وقار نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا 
’’
مگر ۔۔۔‘‘ مسز وقار کہہ کر رکیں اور نینی منہ اٹھا کرسوالیہ انداز میں ماں کو دیکھنے لگی۔
’’
جانے سے پہلے آپ کو اپنا گھر کاکام مکمل کرنا ہو گا ‘‘ انہوں نے بات مکمل کی ۔
’’
جی مما! میں اپنا کام ضرور پورا کر کے جاؤں گی ۔۔کیونکہ واپسی پر بہت تھکن ہو جائے گی پھر کام کرنے کو دل نہیں چاہے گا ناں ‘‘۔ نینی بڑوں کی طرح اپنی بات مکمل کی ۔
’’
شاباش ! میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے ۔۔‘‘ مسز وقار نے محبت سے نینی کے ماتھے پر پیار اور کہا۔

 امجد کی نگاہ اک گاڑی پہ پڑی جو چند لمحے پہلے ہی سنگل پہ آکر رکی تھی۔ گاڑی کے فرنٹ شیشے پہ کسی پرندے نےاپنا کام کر دکھایا تھا۔ وہ بڑی پھرتی سے گاڑی کی جانب لپکا۔

مبادا کوئی اور بچہ پہلے پہنچ جائے اور اسکے ہاتھ سے کام لے لے۔

اس نے وائپر ایک ہاتھ میں پکڑا اور دوسرے میں سرف میں دبویا ہوا اسپنج اور لگا شیشہ صاف کرنے۔

’’اے لڑکے! کس نے کہا تم سے صاف کرنے کو؟‘‘

زبیر صاحب کی کڑک دار آواز سہم کے رہ گیا۔

’’پتہ نہیں کہاں سے چلے آتے ہیں۔ اپنا پیشہ بنالیا ہے مسکین شکل بناکے ذرا سا ہاتھ چلاکے پیسے بٹورنے کا!"

زبیر صاحب کا پارہ چڑھا ہوا تھا۔وہ مسلسل بڑبڑا رہے تھے۔

امجد کو لگا کوئی اس کے دل کو کاٹ رہا ہے۔اس کو کام شروع کیے  ابھی کچھ ہی دن ہوئے تھے۔  اتنے تلخ الفاظ اس نے پہلی بار سنے تھے۔

’’صاحب جی آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں محنت مزدوری کرکے عزت کی روٹی کماتا ہوں۔ ‘‘

وہ تھوڑی دیر رکا اورگال پہ آئے آنسو پونچھے۔

 ’’انعم پلیز ضد مت کرو ۔ جب سے رزلٹ آیا ہے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی ہے۔ تمھیں کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کہ ہمارے خاندان میں لڑکیاں بہت زیادہ نہیں پڑھتیں ۔ تمھیں جتنا پڑھاسکتے تھے پڑھوادیا۔‘‘ امی نے آخر کار جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔

’’مگرامی آپ ایک مرتبہ ابو سے بات کریں تو سہی۔‘‘  انعم کہ رہی تھی۔ اس کے لہجے میں امید  کی کرن تھی۔

 ’’ بیٹا تمھیں تمہارے ابو نے بارھویں جماعت تک پڑھوادیا۔ میرے ابا نے تو مجھے آٹھویں جماعت سے ہی اسکول جانے سے منع کردیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ لڑکیوں کا کام گھر سنبھالنا ہوتا ہے ۔‘‘

 کمپیوٹر کلاس شروع ہوتے ہی پوری کلاس کے طلبہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ پانچویں جماعت کے ہر ایک طالب علم کو کمپیوٹر لیب جانے کا بے تابی سے انتظار ہوتا ۔ہر ہفتے کے دو پیریڈز میں پندرہ پندر ہ طلبہ کو لیب میں بھیجا جاتا۔

سر عمار کے کلاس میں آمد پر سب نے پر جوش سلام کیا۔

’’جی سر آج ہم سے کون جائے گا؟‘‘ حمدان نے بے چین ہوکر پوچها۔

تھوڑی سی بات چیت کے بعد سر عمار نے 15 طلبہ  کے نام لیے اور باقی طلبہ کو کلاس ورک کرنے کو کہا۔ان طلبہ میں  بارہ سالہ حمدان بھی شامل تھا۔ لیب میں پہنچ کر سب نے اپنے اپنے کمپیوٹر آن کیے اور کام میں مشغول ہو گئے۔

چھٹی کی بیل بجتے ہی تمام لڑکوں نے کمپیوٹر آف کیےاور باہر کی جانب بڑھ گئے۔ سوائے حمدان کے کیونکہ وہ ابھی تک کام میں مشغول تھا۔ اس کا خیال تھا تھوڑا سا ہی کام رہ گیا ہے۔ پانچ دس منٹ تک میں بھی اٹھتا ہوں۔

 یونان میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ بڑا نیک دل اور دانش مند تھا،اسی لیے عقل مندوں اور حکیموں کا بڑا قدر دان تھا، خود بھی بہت بڑا عالم تھا اور عالموں کی بہت زیادہ قدر کرتا۔اسے اچھی اچھی باتیں لکھوانے اور انہیں اپنے کتب خانے میں جمع کرنے کا بہت شوق تھا۔ دس برس کے عرصے میں اس نے سینکڑوں کتابیں جمع کرلی تھیں، وہ ان نادر کتب کا مطالعہ کرکے بہت خوش ہوا کرتا۔

بادشاہ ایک دن بیٹھا مطالعے میں مصروف تھا کہ اسے خیال آیا، کتب خانے میں ایسی کوئی کتاب موجود نہیں جس میں انسانی جسم کی تمام بیماریوں کی علامت اور ان کا علاج تحریر ہو، اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی کتاب ضرور لکھوائے گا۔
بادشاہ نے اسی وقت شاہی حکیم کو بلایا اور کہا۔ حکیم صاحب میں چاہتا ہوںکہ آپ حکمت پر ایسی کتاب لکھیں جس میں تمام انسانی بیماریوں کی علامات اور ان کا علاج تحریر ہو۔

"تمہاری  ہمت کیسی ہوئی  میرے بیٹ  کو ہاتھ لگانے کی ، تمہیں پتہ  ہے  یہ کتنا مہنگا بیٹ  ہے۔  ماموں جان  نےآسٹریلیا  سے میری برتھ ڈے  پر گفٹ بھیجا  ہے اور تم اسے خراب  کرنا چاہتے ہو ۔؟  تمہاری اوقات  بھی ہے  ایسا  بیٹ  خریدنے کی؟  آئندہ اگر  میری  کسی چیز  کو ہاتھ لگایا   تو تمہارے  ہاتھ توڑ دوں گا میں ، دفع  ہو  جاؤ  اب یہاں سے۔ "

ارحم انتہائی  حقارت  سے مالی بابا کے  بچے کو ڈانٹ رہا تھا حالانکہ  بے چارے بچے نے  بس  اس کے نئے بیٹ  کو بس چھوا  ہی تھا  ،لیکن  ارحم نے  انتہائی  بری طرح اس کو جھڑک  دیا۔

بیچارہ آٹھ سالہ  ناصر روتے ہوے اپنے کوارٹر  کی طرف بھاگ گیا۔