Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

’’وہ دیکھو! وہ دیکھو! لنگڑے بابا جا رہے ہیں! ہی ہی ہی!‘‘

علی نے گلی میں جاتے ہوئے امجد صاحب کا مذاق اڑایا اور سب دوست ہنسنے لگے۔ امجد صاحب کا کچھ عرصے پہلے ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ان کی ٹانگ میں چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چلتے لگے تھے۔

تھوڑی دیر بعد زرنیہ خالہ سبزی لینے گھر سے نکلیں تو علی نے پھر نعرہ لگایا۔

’’کالی خالہ ۔۔ آفت کی پرکالہ!‘‘ زرینہ خالہ نے مڑ کر علی کو گھور تے ہوئے دیکھا اور دکان پر چلی گئیں۔

شدید گرمیو ں کے دن تھے۔ ابھی سکول میں چھٹیاں ہونے میں کچھ دن باقی تھے۔ بیلا اپنا سکول کا بستہ اٹھائے ہوئے تھکے ہوئے قدموں سے گھر کی طرف جانے والی راہ پر سر جھکائے جا رہی تھی۔ سر پر رکھی ہوئی ٹوپی اسے دھوپ سے بچانے کو ناکافی تھی۔ لیکن اسے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اسی شوق میں وہ گھر سے اتنی دور واقع سکول پیدل چل کر آتی جاتی تھی۔ پانی کی بوتل میں تھوڑا سا پانی باقی تھا۔ بیلا سخت پیاس محسوس کر رہی تھی۔ لیکن اس نے سوچا کہ چند قدموں پر واقع جو برگد کا بوڑھا درخت ہے وہ اس کے نیچے تھوڑی دیر رک کر پانی بھی پی لے گی اور درخت کی چھاؤں میں تھوڑی دیر آرام بھی کر لے گی۔ وہ درخت کے نیچے جا کر بیٹھ گئی اس نے بوتل کا ڈھکن کھولا اورجیسے ہی پانی پینے لگی اسے ایک آواز سنائی دی۔

 میری چھوٹی بہن شنّو بڑی باتونی لڑکی ہے۔ ابھی اسکول سے آ کر بستہ رکھا بھی نہ تھا کہ اسکول کا قصہ لے بیٹھی۔

امی جان جھنجھلا کر بولیں۔ ’’اے لڑکی ! تجھے کیا بھوک نہیں لگتی؟ دوسروں کے بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں، لیکن تو ہے کہ باتیں کئے جا رہی ہے، پہلے کھانا کھا لے، پھر بک بک کرنا۔ ‘‘

شنو کھانا کھانے کے لئے بیٹھ تو گئی مگر کیا مجال جو کھانا کھاتے وقت بھی اُس کی زبان بند رہتی، کوئی سُنے یا نہ سُنے اُسے اِس کی پرواہ نہیں، اُس کا کام تو بولنا ہے، وہ بولنے سے کبھی نہیں تھکتی، لگاتار بولتی رہتی ہے۔

 کسی جنگل میں ایک ننھا منا ہاتھی رہا کرتا تھا۔ نام تھا جگنو۔ میاں جگنو ویسے تو بڑے اچھے تھے۔ ننھی سی سونڈ، ننھی سی دم اور بوٹا سا قد، بڑے ہنس مکھ اور یاروں کے یار، مگر خرابی یہ تھی کہ ذرا دماغ کے کمزور تھے۔ بس کوئی بات ہی نہیں رہتی تھی۔ امی جان کسی بات کو منع کرتیں تو ڈر کے مارے ہاں تو کرلیتے مگر پھر تھوڑی ہی دیر بعد بالکل بھول جاتے اور اس بات کو پھر کرتے لگتے۔ ابا جان پریشان تھے تو امی جان عاجز، تمام ساتھی میاں جگنو کا مذاق اڑاتے اور انہیں بھول بھلکڑ کہا کرتے۔

ابا جان میاں جگنو کا کان زور سے اینٹھ کر کہتے۔ دیکھو بھئی جگنو۔ تم نے تو بالکل ہی حد کردی۔ بھلا ایسا بھی دماغ کیا کہ کوئی بات یاد ہی نہ رہے۔ تم باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ ہاتھی کی قوم تو بڑے تیز دماغ ہوتی ہے۔ برس ہا برس کی باتیں نہیں بھولتی۔ مگر خدا جانے تم کس طرح کے ہاتھی ہو۔اگر تمہاری یہی حالت رہی تو تم سارے خاندان کی ناک کٹوادو گے۔

چھٹی کا دن تھا۔امی جان لاؤنج میں ناشتہ لگاچکی تھیں ۔سب ہی دسترخوان پر موجود تھے سوائے محمد امین کے جو صبح سے ہی اپنے کمرے کی سیٹنگ میں مگن تھا۔چند لمحے انتظار کے بعد انہوں نے اس کے کمرے جھانکا۔

’’بیٹاآؤ ناشتہ کرلو۔‘‘
’’جی امی جان آتاہوں ۔‘‘اس نے اپنے ارد گرد بکھرے  مختلف  رنگ و سائز کے قلم اور پنسلوں کوسمیٹا اور ہاتھ دھوکر ناشتے کی میز سلام کرکے براجمان ہوگیا۔
’’وعلیکم سلام بیٹانکل آئے ہو اپنی پنسلوں کے گھیرے سے ۔‘‘باباجان مسکراتے ہوئے بولے۔
’’جی باباجان۔‘‘جواباًوہ ہنس پڑا۔

 ’’ماریہ تم  نےیہ رونی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے؟‘‘

حرا نے ماریہ کا اداس چہرے دیکھتے ہی سوال جھاڑا۔

’’کیا بتاؤں حرا!!میں آج دوپہر کو اتنا حسین خواب دیکھ رہی تھی کہ عین کلائیمکس کے وقت امی حضور سر پہ آدھمکیں۔وہ جھنجھوڑاکہااللہ کی پناہ۔میں سر تا پا ہل کے رہ گئی اور خواب سب بھک سے اڑ گیا۔‘‘وہ افسردگی سے آہ بھر کے رہ گئی۔

’’ویسے انھوں نے ایسا کیا کیوں ماریہ؟‘‘

حرا نے رازداری سے پوچھا۔

’’انہیں سوئی میں دھاگا جو دلوانا تھا اور کافی دیر سے مجھے آوازیں دے رہی تھیں!‘‘

کسی بادشاہ کے دربار میں بہت سے خدمت گاروں میں دو گہرے دوست بھی تھے ۔ باقر دریا سے پانی بھر کر لاتا تھااور عاقل سوداسلف لانے اور کھانے پکانے پر مامور تھا۔ عاقل نہایت لاپروا اور فضول خرچ تھا ، مگر اس کے ساتھ نہایت ذہین بھی تھا۔ سلطنت کے بعض ایسے کام جن کو حل کرنے میں بادشاہ اور اس کے وزیر کو وقت پیش آتی ، اور وہ مسئلہ جب عاقل کے علم میں آتا تو وہ اسے نہایت آسانی سے حل کردیتا ۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے عاقل بادشاہ کی نظر میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ بادشاہ اکثر اسے بہت سے انعامات سے نوازتا رہتا ۔

باقر عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ، مگر وہ کسی بھی قسم کی فضول خرچی واسراف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ عاقل باورچی کانے میں کام کے دوران کھانے پینے کا بہت سا سامان اپنی لاپروائی سے ضائع کردیتا ، بلکہ پانی بھی بے تحاشا ضائع کرتا ۔ باقر عاقل کو ہمیشہ ٹوکٹا رہتا ۔ جواب میں عاقل کہتا : تم مجھے پانی کے استعمال پر اس لیے ٹوکتے ہو کہ تمھیں زیادہ پانی نہ لانا پڑے اور تم مشقت سے بچ جاؤ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم نہایت کنجوس بھی ہو ۔