Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

میرا جہاز مل گیا!

          Print

arrownew e0جیسے ہی فاتی اور بلو گھر میں داخل ہوئے، حیران رہ گئے۔ پورے گھر کی سیٹنگ بدل چکی تھی۔ بھیا  مالی انکل کے ساتھ پچھلے والے باغ میں مصروف تھے۔ پورا گھر چمک رہا تھا۔ امی کچن میں تھیں اور  مزیدار کھانوں کی خوشبو آ رہی تھی۔

’’فاتی اور بلو بیٹا! جلدی سے کپڑے بدل لو۔ آپ کی دادی جان آرہی ہیں۔ ‘‘ امی جان نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

’’یا ہو!‘‘ فاتی اور بلو نے خوشی سے

بسم اللہ کی برکت

          Print

’’دادا جان! کہانی سنائیں ناں! ‘‘ سعد نے کہا تو دادا ابو نے عینک اتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ پھر کہنے لگے۔

’’اچھا ٹھیک ہے! سناتا ہوں۔‘‘ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ امی کمرے میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں نیم گرم دودھ کے دو گلاس رکھے ہوئے تھے۔ ایک گلاس انہوں نے دادا ابو کو پکڑایا اور ایک سعد کوتھماتے ہوئے بولیں۔

’’بیٹا! کہانی بھی سنو اور دودھ بھی پی لو۔ ‘‘ یہ کہ کر انہوں نے سعد کو پیار کیا اور

میری پنسل کہاں گئی؟

’’سٹوڈنٹس! اپنا کلاس ورک مانیٹر کو جمع کروادیں۔‘‘ سائنس کے سر ذیشان نے کہا تو سب بچے جلدی جلدی کاپیاں بند کرنے لگے۔ بلو نے بھی حاشیے کے اوپر تاریخ اور ’’کلاس ورک‘‘ لکھا اور کاپی بند کرکے مانیٹر احسن کا انتظار کرنے لگا جو کاپیاں اکھٹی کرتے کرتے اِسی سمت آرہا تھا۔ اگلا پیرڈ سر حسیب کا تھا جو اسلامیات پڑھایا کرتے تھے۔ 

’’اب آپ لوگ باب ’’سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم‘‘ کی مشق نمبر 4 اپنی نوٹ بکس میں لکھیں۔ ‘‘ سر نے بک بند کرکے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’ہائیں! میری پنسل کہاں گئی؟ابھی تو میرے پاستھی۔‘‘ بلو نے پریشانی سے سوچا۔ 

بعد میں کروں گا

          Print

پیارے بچو! آج میں آپ کو شیری کی کہانی سناؤں گی۔ شیری اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ پڑھائی میں تیز تھا اور کھیل کود کا بھی شوقین تھا۔ ویسے تو شیری میں تمام اچھی خوبیاں موجود تھیں۔لیکن اس کی ایک عادت ٹھیک نہیں تھی۔ وہ یہ کہ وہ ہر کام کو بعد میں کرنے کے لئے ٹال دیتا۔ اپنی اس عادت کی وجہ سے اسے  \اکثر ڈابھی پڑتی۔نٹ 

ایک دفعہ امی نے اسے کہا،"شیری بیٹا! دروازے پر دودھ والا آیا ہے، اس سے دودھ لے

سائنس کی کاپی

          Print

گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کو تھیں۔ فاتی اور بلو نے ویسے تو سارا ہوم ورک ختم کر لیا تھا لیکن ابھی سائنس کا ہوم ورک باقی تھا۔ یہ ایک ایکٹیویٹی تھی جس میں مختلف قسم کے پتے اکھٹے کر کے کاپی کے سادہ صفحے پر چپکانے تھے۔

اس دن شام کو ناصر ماموں چلے آئے۔ وہ  آرمی میں انجنئیر تھے اورنور پور بیس کمال آباد میں رہا کرتے تھے۔  کبھی کبھی راولپنڈی  اپنے زیر تعمیر مکان  کا چکر لگاتے تو فاتی اور بلو سے ملنے بھی ضرور آتے

! ایک بار پھر عید

          Print

’’فاتی!  تمھارے پاس کتنی عیدی اکھٹی ہوئی؟‘‘ بارہ  سالہ بلو نے اشتیاق سے پوچھا۔

’’میرے پاس کل ملا کر 1ہزار۔ ‘‘ دس سالہ فاتی نے بتایا۔ ’’اور تمھارے پاس؟‘‘

’’میرے پاس بھی 8 سو ہیں۔ لیکن یہ کم ہیں۔ ‘‘ بلو کچھ اداس ہو گیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ فاتی نے پوچھا۔

’’بس ایسے ہی! میں ایک بات سوچ رہا تھا...‘‘  یہ کہ کر بلو نے فاتی کو اپنا پلان سنایا۔

’’اوہ

سچی! سوری چنو منو

          Print

احمد نے پہلے چنو کو پنجرے سے نکالا اور پھر منو کو۔ دونوں چوزے دوڑ کر اس کے پاس چلے آئے۔ احمد نے پیار سے دونوں کو ہاتھوں میں اٹھا لیا اور کھیلنے لگا۔ پھر اس نے دونوں کو سحری کے طور پر باجرہ کھلایا اور پانی پلایا۔ پھر خوشی خوشی انہیں واپس پنجرے میں بند کر کے ہاتھ دھونے چلا گیا۔

’’احمد بیٹا! تم آج بہت خوش نظر آرہے ہو۔ ‘‘ امی جان