Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

 ’’بیٹایہ پانچ سو روپے ہیں ۔‘‘باباکے یہ کہتے ہی وہ اچھل پڑی۔

’’کیاواقعی ؟‘‘سات سالہ  نور باباکو ناقابل یقین نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
’’ہاں بیٹا!‘‘
’’یہ ۔۔کیسے ہوسکتاہے !‘‘ نور بڑبڑائی۔
’’یہ ہوسکتاہے تبھی تو ہوا ہے۔‘‘ بابامسکرائے۔
’’لیکن بابامیں نے بھی تو گنتی کی تھی لیکن اتنے تو نہ تھے ۔‘‘ وہ مصر تھی۔

 میں تیز رفتاری کے ساتھ سائیکل چلا رہا تھا۔سانس پھول رہاتھا۔موسم میں حبس کے باعث جسم پسینہ سے شرابور ہوچکاتھا۔ میری نظرباربار دستی گھڑی کی جانب جارہی تھی۔ کوشش تھی کہ بروقت ٹیوشن سینٹر پہنچ جاؤں۔ دراصل آج اسکول سے آنے کے بعد کھانے کے بعد جو سویا تو عین عصر کی اذان کے وقت آنکھ کھلی۔ بھاگم بھاگ گھر سے نکل کر مرکزی سڑک پر آیا تو جیسے جیسے آگے بڑھتاگیا ، ویسے ویسے سڑک پر ٹریفک جام دکھائی دے رہا تھا۔ ہجوم اتنا تھا کہ محاورۃً نہیں حقیقتاً کھوئے سے کھوا چل رہا تھا ۔ اس صورت حال نے میرے اوپر مزید جھنجلاہٹ اور بے زاری طاری کردی۔ میں نے خطرات کے باوجود عجلت سے کام لیتے ہوئے مخالف سڑک پر سائیکل ڈال دی اور پوری قوت سے پینڈل پر پاؤں مارنے لگا۔ جلد ہی میں سر راشد کے دروازے پر کھڑا تھا۔

اس کے لیے یہ خبر کسی صدمے سے کم نہیں تھی کہ اب وہ اپنے ہی گھر میں دادی اماں سے نہیں مل سکے گا، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس پر دادی اماں سے ملاقات پر پابندی کیوں عائد کردی گئی تھی۔

اگر اب میں نے تمہیں اماں کے ساتھ دیکھا تو اچھا نہیں ہوگا۔

امی کے ان الفاظ نے حارث کو اداس کردیا تھا، اس نے نم آنکھوں سے ابو کی طرف دیکھا لیکن ان کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ کر وہ سمجھ گیا کہ وہ بھی اس فیصلے میں شامل ہیں یا شاید انہیں اس فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں۔ حارث بہت ہونہار، ذہن اور فرمانبردار بچہ اور ساتویں جماعت کا طالب علم تھا، پڑھائی اور کھیل سے فارغ ہونے کے بعد رات کو سونے سے پہلے دادی اماں سے مزیدار کہانی سننا گویا اس کے روزمرہ کا معمول تھا، وہ اپنی دادی سے بہت پیار کرتا تھا اور وہ بھی اسے بہت چاہتی تھیں۔

Zaroor amal kru gi

 ’’بیٹا ! تم کہاں تھے مغرب کے بعد سے؟‘‘ علی جیسے ہی گھر میں داخل ہواتو آپا نے سوال کیا۔

’’ کچھ نہیں آپا بس ایسے ہی دیر ہوگئی ۔‘‘ علی نے ہچکچاتے ہوئے جواب دیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ انہوں نے سختی سے پوچھا ۔

’’آپا وہ باہر جو چوکیدار خان بابا ہیں ناں! وہ کل سے بہت بیمار ہیں۔ میں ان کو لے کرمحلے کے  ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔وہاں رش تھا توباری کے انتظار میں دیر ہوگئی ۔‘‘
آپا حسبِ توقع یک دم برہم ہوگئیں۔

 مسز سعید لمبی سی گاڑی سے اتریں۔  گھر میں داخل ہوتے ہی ملازمہ سے بولیں کہ جلدی سے کھانا میز پر لگا دو پھر مجھے اپنی ایک دوست کے گھر جانا ہے۔

 اتنے میں فیصل جو ان کا اکلوتا بیٹا تھا لاؤنج میں داخل ہوا۔ اس کے ساتھ اس کا دوست عمر بھی تھا۔

 عمر کو دیکھتے ہی مسز سعید کا منہ بن گیا۔ وہ فیصل کے غریب دوستوں کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں۔

’’ خیریت ہے عمر ! کیسے آنا ہوا؟   فیصل! میں نے کئی بار تم سے کہا ہے کہ جو بھی بات ہو تم لوگ یونیورسٹی میں ہی کرلیا کرو۔یوں ان ۔۔ کو گھر لانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘مسز سعید کے لہجے میں واضح حقارت تھی جس کو عمر نے بری طرح محسوس کیا۔
’’ ماما عمر کو کچھ کام ہے وہ اس لیے میرے ساتھ چلا آیا ہے۔‘‘ فیصل کو ماما کی ناپسندیدگی کا اچھی طرح علم تھا۔ اس لیے ہچکچاتے ہوئے بولا۔ ’’عمر کو کچھ سافٹ وئیر چاہیے تھے جن کی سی ڈی میرے پاس ہے۔ وہی دینی تھی۔‘‘

Zaroor amal kru gi

اتوارکا دن تھا۔ فاتی نے کھیلنے کی غرض سے ابھی کھلونے جوڑے ہی تھے کہ اچانک آپی کی آواز آئی ۔

’’فاتی! فاتی!بہنابات سنو ناں!‘‘
’’جی آپی!‘‘
’’میری پیاری سی بہنا جلدی سے جاؤ اور میری سہیلی حمیراکو یہ رسالہ تو پکڑا آؤ ۔‘‘ آپی نے حکم دیا۔
’’اووں ..آپی ! میں کھیلنے لگی تھی۔ ‘‘ فاتی منمنائی ۔
’’ایک منٹ لگے گابس ۔گڑیا جاؤ ناں!‘‘ آپی نے پچکاراتوفاتی نہ چاہتے ہوئے بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔جاتے آتے تو دس منٹ لگ ہی گئے۔
واپس آ کرفاتی پھر کھلونوں میں مصروف ہوگئی۔ چند لمحے ہی گزرے تھے کہ آپی پھر فاتی کو پکارتے ہوئے آن وارد ہوئیں۔
’’فاتی بہناجلدی سے میرابلیک جوتا تو ڈھونڈلاؤ۔ مجھے ٹیوشن کے لیے دیر ہو رہی ہے ۔شاباش !‘‘

Zaroor amal kru gi

’’ امی امی ! کھانا کب لگے گا بہت زور دار بھوک لگی ہے ۔‘‘ ند ا نے کچن میں آتے ہی پوچھا۔ وہ اپنا ہوم ورک مکمل کر چکی تھی۔’’ندا! تمھارے ابو اور بھیا نماز پڑھ کر آجائیں تو کھانا لگاتے ہیں۔‘‘ امی جان نے کہا۔ 

تھوڑی ہی دیر میں ندا کی آواز بلند ہوئی ۔ ’’امی! ابو اور بھیا آگئے ! پھل بھی لائے ہیں۔ ‘‘ ابو کو پانی پلانے کے بعد ندا نے امی کے ساتھ مل کر پھل دھو کر فریج میں رکھے اور کھانے کے برتن کمرے میں لے گئی۔

تھوڑی دیر بعد سب کھانے میں مشغول ہو گئے۔ امی جان نے بہت مزیدار پلاؤ بنایا تھا۔ ندا جلدی جلدی کھا رہی تھی۔ اسی کوشش میں کچھ چاول پلیٹ سے نیچے گر گئے۔