Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

’’فاتی! نلکا بند کر دو۔ کب سے کھلا ہوا ہے۔‘‘ امی جان چلائیں۔

فاتی صحن میں لگے واش بیسن سے ہاتھ منہ دھونے کے بعد تولیہ سے خشک کر رہی تھی۔ امی جان کی آواز پر اس نے یکدم بوکھلا کر نلکا بند کردیا۔ 

"کتنی بار کہا ہے بیٹا! جیسے ہی منہ ہاتھ دھو لو نلکا فورا ًبند کرو۔" 

"جی امی! سوری مجھے بھول  جاتا ہے۔" فاتی نے ہمیشہ کی طرح سوری کرتے ہوئے سر جھکا لیا تو امی جان نے مزید ڈانٹنے کا ارادہ ترک کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ماں! آج تو اتوار ہے ۔ ہمیں پڑھنے نہیں جانا ہے۔ کیا ہم باغ میں جاکر کھیلیں؟‘‘ سنجو نے اپنی ماں سے پوچھا۔
’’ کیا تم نے اور اَنجو نے دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھولیے ؟‘‘
’’جی ہاں! ماں ہم دونوں دانت صاف کرکے منہ ہاتھ دھو چکے ہیں۔‘‘
آج صبح تو اپنے گاؤں کا موسم بڑا سہانا لگ رہا ہے۔ رات تو بڑی بھیانک تھی کیوں کہ زلزلے کے ہلکے ہلکے جھٹکے لگ رہے تھے۔ گھر کے دروازے کھڑکیاں ہِل اٹھی تھیں۔ مکان کے اس طرح ہِلنے سے چھوٹی اَنجو تو بُری طرح ڈر گئی تھی۔
’’ جاؤ بچّو! جاکر باغ میں کھیلو ، آدھے گھنٹے بعد مَیں آواز لگادوں گی تم دونوں ناشتہ کرنے آجانا۔‘‘ ماں نے اُن دونوں سے کہا۔
’‘ماں آج ناشتے میں کیا بناؤ گی؟‘‘

گرمیوں کی چھٹیاں تھیں۔ زاہد کلیم اور جاوید اور میں نے پکنک منانے کا پروگرام بنایا پہلے یہ طے پایا کہ چاروں پچاس پچاس روپے اکٹھے کریں گے اور پکنک پر جاتے ہوئے راستے میں سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے لیں گے۔ لیکن کلیم نے اس منصوبے کی مخالفت کی اس کا کہنا تھا کہ بازاری چیزیں کھانے کی غیر معیاری ہوتی ہیں اور پھر مہنگی ہیں۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہم چاروں اپنے اپنے گھروں سے اپنی اپن پسند کی چیزیں پکوا کے لیے آئیں اور وہاں اکٹھے بیٹھ کر کھائیں گے۔ اس طرح ایک تو معیاری اور صاف ستھری چیز یں کھانے کو ملیں گی اور دوسرے بچت بھی ہو جائے گی کلیم کی یہ تجویز سب کو پسند آئی۔

اب بات آ گئی کہ کون کیا لائے گا۔ جاوید نے کہا کہ میں آم لے کر آؤں گا۔ زاہد نے کہا کہ وہ روٹیاں لائے گا۔ میں نے پلاؤ پکوا کر لانے کا وعدہ کیا جبکہ کلیم نے حامی بھری کہ وہ مرغ پکوا کر لائے گا۔ پھر یہ طے پایا کہ کل صبح نو بجے سب اپنے اپنے حصے کی چیزیں لے کر قریبی بس سٹاپ پر پہنچ جائیں گے۔ اور وہاں سے اکٹھے پکنک پوائٹ پر بذریعہ بس روانہ ہو جائیں گے۔ ہم سب نے پکنک کی خوشی میں رات بھر بے قراری سے کاٹی۔

arrownew e0شیخ وقاص کسی گہری سوچ میں گم صم بیٹھے تھے تفکر کے آثار ان کے باریش چہرے سے عیاں تھے ۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن کسی نقطے پر پہنچ نہیں پارہے ۔کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد ان کے چہرے پر چمک ابھری گویاکوئی حل پالیاہوانہوں نے اپنے قدم باہرکی طرف بڑھادیے۔
در اصل وہ اپنے اکلوتے بیٹے ہارون کی وجہ سے پریشان تھے جوایک فرمانبردارلڑکاتھاجس سے گھر والے تو کیامحلے اور مکتب والوں کو بھی کوئی شکایت نہیں تھی لیکن چند دن سے اس کے طورطریقے بدلنے لگے تھے۔ کوئی بڑی تبدیلی تو نہ تھی لیکن جہاں سے تبدیلیاں شروع ہونے لگتی ہیں انہیں والدین سے زیادہ کون جانتاہے لہذاانہوں نے دودن اسے خاموشی سے نوٹ کیااور وہ جلد ہی سمجھ چکے تھے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو اس پر اثر انداز ہورہی ہے۔اس رات وہ کمرے میں بیٹھے اس کا انتظارکررہے تھے کہ ہارون گھر میں داخل ہوا۔

’’بلو بیٹا جلدی سے اٹھو پھر سے دیر ہوجائےگی۔‘‘ امی جان نے کھڑکی کے پردہ سرکاتے ہوئے کہا۔

’’اچھا امی جان!‘‘  بلو نے بستر میں منہ اچھی طرح لپیٹ کر کہا۔

اس دوران فاتی بھی کمرے میں آچکی تھی۔

’’بلو بس اب  اٹھ بھی جاؤ۔ یہ دیکھو میں تیار بھی ہوگئی ہوں۔‘‘

آخرکار بلّو نے بستر سے منہ نکالا اور خوب انگڑائیاں لیں۔ اس کی نیند اب بھی پوری نہ ہوئی تھی۔

’’ارے  یہ کیا! ساڑھے سات بج گئے؟‘‘ بلّو منہ ہاتھ دھو کر آیا تو  اسے دھچکا لگا۔

’’اف! میں نے تو ابھی میتھس کا ہوم ورک بھی مکمل کرنا تھا۔ ‘‘

پھر ہر روز کی طرح بلّو نے  ابھی ناشتہ شروع  ہی کیا تھا کہ وین آگئی۔

’’امی کچھ کھانے کو ہے؟‘‘

فاتی  اور بلّونے کوئی پانچویں بار امی جان سے پوچھا۔

امی نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا  اور بسکٹ کا  آخری   پیکٹ کھول کر فاتی کو تھما دیا۔ فاتی نے دو بسکٹ خود رکھے اور دو بلّو کو دیے جو بھوک سے نڈھال اب سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

خشک بسکٹ حلق سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ رہ رہ کر بلّو کو صبح کا پراٹھا انڈہ یاد آرہا تھا جو وہ صبح بیڈ کے پیچھے چھپا آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے کوئی دو بجے ہوں گے جب فاتی کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔
’’یہ کیا!بجلی چلی گئی کیا؟ لیکن یہاں تو بجلی نہیں جاتی۔‘‘  نو سالہ فاتی نے سوچا۔ان کا گھر ایک مشہور سوسائٹی میں تھا جہاں سال میں شاذو نادر ہی بجلی جاتی تھی وہ بھی ایک آدھ گھنٹے کے لیے ۔ و ہ بمشکل اندھیرے میں چلتی ہوئی بلّو  کےکمرے میں گئی۔ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا۔

’’بلّو! اٹھو ذرا دیکھو۔ بجلی چلی گئی ہے۔‘‘ گیارہ سالہ بلّو آنکھیں ملتا ہو ا اٹھ بیٹھا۔وہ بھی پسینے میں شرابوز تھا۔

’’اوہ! ٹھہرو۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور سوئچ بورڈ کے سارے بٹن دبا دیے لیکن  نہ زیرو بلب لگا نہ ہی انرجی سیور۔ پنکھا بھی رکا ہو ا تھا۔

’’بجلی چلی گئی ہے یا پھر ہمارا فیوزاڑ گیا ہے۔‘‘ یہ کہہ بلّو کمرے سے باہر نکل آیا۔ لاؤنج میں گھپ اندھیرا تھا۔ امی ابو کی آنکھ ابھی نہیں کھلی تھی۔ اچانک فاتی زور سے چیخی۔

’’بلّو !۔۔۔ بھوت! بھوت!!‘‘