Fati or

        درمیانی عمر کے  بچے زندگی کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں نصیحت کی لمبی چوڑی باتیں کم ہی بھاتی ہیں۔ پھر ان کو کیسے بتایا جائے  کہ  آنے والے دور کے زینے کیسے چڑھنے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے فاتی اور بلّو کی کہانیاں ضرور پڑھیں۔


 

سچی خوشی کا راز

          Print

سندر بن واقعی بہت ہی زیادہ سندر اور خوب صورت تھا۔چاروں طرف قدرت نے اپنی خوب صورتی بکھیردی تھی۔ کل کل کرتے جھرنے ، اور خوب صورت چمکیلی ہری بھری گھاس، ایسے لگتی تھی جیسے جنگل میں کسی نے قالین بچھادی ہو۔ان مناظر کودیکھ کر جانوروں اور پرندوں کے دل باغ باغ ہوجاتے تھے۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول تھے ۔ جن پر تتلیاں اور بھونرے منڈلاتے رہتے۔

یہ کہانی اس زمانے کی ہے

خودغرضی کی سزا

          Print

دانش آج بھی بڑے شوق سےاپنے پسندیدہ درخت کے اوپرچڑھ کر بیٹھا تھا۔اسکول سےواپسی پر وہ راستے میں پڑنے والے باغ میں رک کر کچھ دیر سستاتاتھا۔اسی باغ کے ایک درخت کی شاخوں پر بیٹھ کراپنا بچا ہوا لنچ کھاتا اور پھراپنے گھر کو جاتا تھا۔
دانش پڑھنے میں جتنا اچھا تھا ، اسکول میں ہم جماعتوں کو ساتھ اتنا ہی لا تعلق رہتا تھا۔ گھرپر اچھی ٹیوشن لینے کے ساتھ ساتھ وہ خود بھی اپنی پڑھائی پر خوب محنت کرتا تھا اور ہمیشہ اپنی جماعت میں نمایاں پوزیشن لیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ دانش کو کبھی کسی کی مدد کی ضرورت نہیں پڑی۔ اسی وجہ سے اس کےدل میں یہ خیال بیٹھ گیا تھا کہ خود اچھا پڑھ لینا ہی کافی ہوتا ہے۔

کامیابی کا راز

          Print

ہانی بہت نیک، ہوشیار اور سلجهی ہوئی لڑکی تهی۔ وہ ہر کلاس میں اوّل آتی تهی۔ اس کی ذہانت کی وجہ سے اس کے اساتذہ بھی اسے بہت پسند کرتے تھے۔ اس کے اوّل آنے پر اسے ہر سال انعام سے نوازا جاتا۔ اسکول میں تو سب ہانی کو پسند کرتے ہی تهے اور وہ گهر میں بهی سب کی پیاری تهی۔ دادا، امّی، ابّا، بھیّا سب اس سے محبت کرتے تهے کیونکہ وہ بہت فرمانبردار بچی تهی۔

 ہانی اسکول کے ہر مقابلے میں حصہ لیتی اور زیادہ سے زیادہ مقابلہ جیت کر انعام حاصل کرتی۔ اس طرح اس کے پاس کافی انعامات جمع ہوگئے تھے۔ وہ ان انعامات کو دیکھتی اور خوش ہوکر کہتی کہ یہ میری محنت کا نتیجہ ہے۔

مخلص دوست

          Print

ایک پتھر درخت کی سب سے بالائی شاخ پر بیٹے ہوئے طوطے کو لگا اور وہ پھڑپھڑاتا ہوا شاخ سے گر کر نیچے زمین پر آن گرا.... اسے تڑپتا دیکھ کر ندیم کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی، ہونٹوں پر مسکراہٹ تیرنے لگی۔

نشید سے یہ منظر دیکھا نہیں گیا، وہ دور کھڑا ندیم کی حرکات کو کافی دیر سے دیکھ رہا تھا،

تیز تیز قدم بڑھا کر ندیم کے قریب پہنچ کر کچھ کہنا ہی چاہ رہا تھا کہ ندیم بول اٹھا، نشید دیکھا تم نے میرا نشانہ، اب دیکھو میں اس اڑتے ہوئے کبوتر کو کیسے

زندگی مکمل ہو گئی

          Print

سعد نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے آپ کو نانی کے گھر پایا۔گو کہ گھر میں صرف دو افراد رہتے تھے،وہ اور اس کی نانی،  پھر بھی  سعد کو کبھی اپنی نانی سے دلی لگاؤ محسوس نہیں ہوا۔اس وہاں سب کچھ پرایا پرایا لگتا تھا یہاں تک کہ نانی سے بھی اپنایت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔

اس کی ایک بڑی وجہ نانی کا سعد سے انتہائی سرد رویہ تھا۔جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر سعد کو بری طرح سےنہ صرف ڈانٹتی تھیں بلکہ زیادہ تنگ ہونے پراس کو پورے دن کے لیے  کمرےمیں بندبھی کر دیتی تھیں۔

میرا  مستقبل

          Print

"جی سر !  میں بڑا  ہو کر پائلٹ بنوں گا ، کیوں کہ  میرے بابا پائلٹ ہیں  وہ دنیا بھر میں گھومتے ہیں  ہر جگہ کا وزٹ کرتے ہیں میں  بھی  پوری دنیا  گھومنا  چاہتا ہوں ۔" ابراہیم نے کھڑے  ہو کربڑے جوش  سے  کہا

یہ سر شاہد کا پیریڈ تھا   وہ اپنی عادت  کے مطابق ہمیشہ   تعلیمی سال کے آخر  میں سب کلاس والوں سے پوچھتے  تھے کہ ہر طالب علم  اپنااپنا شوق بتائے  کہ بڑے ہو کر وہ کیا  بنے گا  تاکہ  اس سلسلے میں طلباء کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔

گلاب اور خوشبو

          Print

پیارے بچوں! ایک بہت خوبصورت اور ہرا بهرا سا باغ تھا۔ باغ میں رنگ برنگے پهول کهلے تهے۔ ایک تتلی اڑتی ہوئی آئی اور ان پھولوں پر منڈلانے لگی۔ کبهی اس پهول پر بیٹهتی کبهی اس پهول پر۔ وہ پهول کا رس پینے میں مست تهی۔ اتنے میں اس نے پیچهے دیکها۔ گلاب اور خوشبو میں کسی بات پر جھگڑا ہورہا تها۔

وہ اڑتی ہوئی ان کے قریب آئی اور گلاب پر بیٹھ گئی۔ تتلی نے گلاب سے پوچھا کیوں جھگڑا کرتے ہو