ٹنکو میاں بھی۔۔۔۔ بس کیا بتائیں۔۔۔۔ ایک عجیب ہی تماشا تھے۔
ان کا نام تو ان کے دادا جان نے مرزا اظہر خان خاناں رکھا تھا مگر جتنا لمبا چوڑا اور بھاری بھرکم ان کا نما تھا خود اتنے ہی چنے منے سے تھے ، اسی لیے محلہ بھر میں ٹنکو میاں کے نام سے مشہور تھے۔
گول گول آنکھیں ہروقت شرارت سے ناچتی رہتی تھیں، چہرے پر ہر وقت معصومیت اور ایک مسکراہٹ سی طاری
رہتی، ان کو جاننے والے تو ان کی رگ رگ سے واقف تھے ، لیکن جو لوگ انہیں اچھی طرح جانتے نہیں تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ ٹنکو میاں بھی ویسے ہی سیدھے سادے اور بھولے بھالے ہیں جیسے دوسرے بچے ہوتے ہیں۔
اللہ جانے کس حیم نے ان کو یہ مشورہ دے دیا تھا:
اسکاؤٹ بن جاؤ، صحت کے لیے بہت مفید ہے۔
اس ننھی سی جان کو اسکول والے اسکاؤٹ تو بنا نہیں سکتے تھے۔ آفت مچانے اور ضدم ضدا کرنے پر ان کو کب بنا لیا گیا۔ کیوں کہ ان کی عمر گل 11 سال تھی اور 11 سال سے کم عمر کے بچے اسکاؤٹ نہیں بن سکے۔ وہ کب کہلاتے ہیں۔
کب بن جانے کے بعد ان کی صحت کو تو کیا فائدہ پہنچتا، اس قدر گولو مٹولو تھے کہ صحت کو مزید فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی تو کسی غبارے کی طرح دھماکے سے پھٹ جاتے ، البتہ خود ضعیفوں اور کمزوروں ہی کے لیے نہیں اچھے خاصے صحت مند افراد کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گئے تھے۔
کب ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اسکاؤٹ ہی کہتے تھے۔
آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ اسکاؤٹ بچے نیکی کے کام کرتے ہیں اور روزانہ کم از کم ایک نیک کام ضرور کرتے ہیں۔ انتہائی تیز طراز ہونے اور شرارتوں میں اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھنے کی وجہ سے اپنے دوسرے کب ساتھیوں کے خودبخود سردار بن گئے تھے۔ وہ بے چارے بھی ان کی سرداری کو تسلیم کرنے پر مجبور تھے اور تسلیم نہ کرتے تو کیا کرتے ، ان کو اپنے ہاتھ پیر تھوڑا ہی تڑوانے تھے۔
ایک روز اپنے ساتھیوں کو لے کر اسکاؤٹ ماسٹر صاحب کے پاس گئے اور ان سے پوچھا۔
سر! اسکاؤنٹ لوگ نیکی کے کام کیسے کرتے ہیں۔
ماسٹر صاحب انہیں دیکھ کر مسکرائے۔ پھر سمجھاتے ہوئے کہتے لگے۔
دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔۔۔۔ مثلاً اگر محلہ میں کسی کے گھر میں بڑے بچے نہیں ہیں تو اس کا سودا سلف لا دیا۔ کوئی بیمار ہے تو ڈاکٹر صاحب کو بلالائے اور ان کی دوائیں لا دیں۔۔۔۔ سڑک کے کنارے اگر کوئی بوڑھا شخص کھڑا ہے تو ہاتھ پکڑ کر اسے سڑک پار کرا دی۔ مطلب یہ کہ جو کام تم آسانی سے دوسروں کی مدد کے لیے کر سکو، وہ کر لو۔
یہ باتیں سن کر وہ سعادت مندی سے سر ہلاتے ہوئے جیسے سب کچھ سمجھ گئے ہوں، چلے آئے ، اگلے روز اسکاؤٹ ماسٹر کو ان کی ٹولی پھر نظر آئی۔ انہوں نے آواز دے کر بلایا۔ تاکہ ان سے پوچھیں کہ انہوں نے نیکی کا کوئی کام کیا بھی یا نہیں۔
نیکی کا کام تو انہوں نے کیا، لیکن جو نیکی فرمائی، اس سے آپ بھی واقف ہوں گے ، کیوں کہ اب تو یہ قصہ پورے پاکستان میں ایک لطیفے کی طرح مشہور ہو چکا ہے۔
جب یہ لوگ دوڑتے ہوئے ماسٹر صاحب کے پاس پہنچ گئے ، تو انہوں نے مسکرا کر ان سے پوچھا۔
آپ میں سے کسی نے نیکی کا کوئی کام کیا۔
جی ہاں، سر، ان سب نے ایک ساتھ جواب دیا۔
شاباش، ماسٹر صاحب خوش ہو گئے اور پوچھا، آپ لوگ باری باری بتائیں کہ کیا نیک کام کیا۔
سر، ہم چاروں نے ایک بڑھیا کو سڑک پار کرائی۔ انہوں نے ایک ساتھ پوچھا۔
چاروں، ماسٹر صاحب حیرت سے بولے۔ چاروں نے کس طرح سڑک پار کرائی۔
سر ہم نے بوڑھی اماں کو اٹھا کر سڑک پار کرائی تھی، چاروں نے ایک ساتھ جواب دیا۔
اوہ، اچھا، اچھا، تو کیا وہ بڑی بی چلنے پھرنے سے معذور تھیں۔ پھر تو تم لوگوں نے بہت اچھا کیا۔
ماسٹر صاحب شاباش دینے لگے تو ٹنکو میاں نے ہچکچاتے کچھ کچھ ہکلاتے ہوئے کہا کہ۔
سر!۔ اصل میں وہ بڑی بی سڑک پار کرنا ہی نہیں چاہتی تھیں، لیکن ہمیں تو نیکی کرنی تھی، ہم نے ان کی پرواہ کیے بغیر ان کو پکڑ کر اٹھایا اور سڑک پار کرا دی۔
ہائیں، ماسٹر صاحب اچانک غصہ میں لال پیلے ہو گئے۔
ماسٹر صاحب نے پہلے تو انہیں مرغا بنا لیا، پھر ایک ایک بید رسید کر کے انہیں اس نیکی کا انعام عطا فرمایا، جب ان کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو انہوں نے بچوں کو پھر سمجھایا کہ۔
کوئی چاہے یا نہ چاہے ، اسے پکڑ کر زبردستی پار کروا دینا، نیکی نہیں ہے ، سڑک پار کروانا اس وقت نیکی کہلائے گا، جب کوئی ضعیف یا معذور شخص خود سڑک پار کرنا چاہتا ہو۔ آئندہ اس طرح زبردستی کی نیکی مت کرنا۔
پہلی ہی نیکی ٹنکو میاں اینڈ کمپنی کے اس طرح گلے پڑ گئی تو وہ محتاط ہو گئے ، نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کسی بس اسٹاپ پر کوئی بڑی بی یا بڑے میاں خود بھی ان سے کہتے کہ:
اے بیٹا، ذرا مجھے سڑک پار کرا دو۔
تو یہ چار کے چاروں پہلے باقاعدہ ان کا انٹرویو لیتے۔
کیا آپ سچ مچ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں۔
ہاں بیٹے ، مجھے سڑک کے اس پار ڈاکٹر کے یہاں جانا ہے۔
جناب سچ سچ بتائیے ، آپ اپنی مرضی سے سڑک پار کرنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
اے تو کیا میں جھوٹ بولوں گا، لڑکے تمہارا دماغ تو صحیح ہے۔
تو ہم آپ کو سڑک پار کرا دیں، سچی!، مذاق تو نہیں کر رہے۔
اور اتنے میں بڑے میاں آپے سے باہر ہو کر اپنی لاٹھی کھینچ کر ان کو مارنے کو دوڑتے کہ۔
دیکھو، یہ ذرا ذرا سے چھوکرے میرا مذاق اڑا رہے ہیں، ان کے ماسٹروں نے یہی سکھایا ہے ، اماں ابا نے یہی تربیت کی ہے ، ٹھہرو تو سہی ابھی نکالتا ہوں تمہارا مذاق۔
اور یہ ون ٹو تھری کے بغیر وہاں سے ریس شروع کر دینے پر مجبور ہو جاتے۔ اگر اتفاق سے کوئی ہنس مکھ بزرگوار ان کے انٹرویو کو ان کا بھولپن اور معصومیت سمجھ کر ان باتوں پر مسکراتے ہوئے سڑک پار کرنے پر تیار بھی ہو جاتے تو یہ بیچ سڑک میں پہنچ کر وہیں رک جاتے اور ان سے ایک بار پھر کہتے کہ۔
اب بھی سوچ لیجئے ، آپ سچ مچ سڑک پار کرنا چاہتے ہیں یا ہم آپ کو واپس وہیں لے چلیں۔
اس پر تو ان بڑے میاں کو ایسا تاؤ آتا کہ وہ جھنجھلا کر ان مسخروں کو وہیں دھکا دیتے ہوئے تیز رفتار گاڑیوں اور اپنے انجام کی پرواہ کیے بغیر اکیلے سڑک کے دوسرے کنارے کی طرف دوڑ لگا دیتے۔
ان کو بھی آتی ہوئی گاڑیوں سے بچنے کے لیے مختلف سمتوں میں بھاگنا پڑتا۔
اب ٹنکو میاں نے سوچا کہ سڑک پار کروانا تو بڑی خطرناک قسم کی نیکی ہے۔
حالاں کہ ایسی بات نہیں، خطرناک حرکتیں تو وہ خود ہی کرتے تھے ، اگر سلیقہ سے کام لینے تو یوں اپنی نیکیاں برباد کرنے کے بجائے لوگوں کی دعائیں لیتے۔
ہاں تو اب انہوں نے سوچا کہ محلے والوں کے ساتھ نیکیاں کرنی چاہئیں۔
چھٹی کا دن تھا۔ صبح سویرے انہوں نے یونیفارم پہنا اور نکل کھڑے ہوئے ، سب سے پہلے خالہ خوش مزاج کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا، خالہ خوش مزاج کے یہاں کوئی بچہ نہیں تھا، لیکن محلے بھر کے بچوں سے وہ بڑی خوش مزاجی سے پیش آتی تھیں۔ اسی وجہ سے ان کا یہ نام پڑ گیا۔
خالہ نے دروازہ کھولا اور ٹنکو میاں کو دیکھتے ہی ٹھٹھک کر رہ گئیں۔
یا الہٰی، کہو ٹنکو میاں کیسے آئے ، امی نے بھیجا ہے۔
جی نہیں، خالہ جان میں آپ کی مدد کرنے کے لیے آیا ہوں۔
خالہ نے غور سے ان کو اور ان کے یونیفارم کو دیکھا، ٹنکو میاں کو بھلا خالہ نہ جانتیں، وہ تو ان سے اچھی طرح واقف تھیں۔ بہت سنجیدہ سا منہ بنا کر کہنے لگیں کہ:
بہت بہت شکریہ، ٹنکو میاں، میں اس وقت بہت مصروف ہوں اور میرے پاس تم سے اپنی مدد کروانے کی فرصت نہیں۔ خدا حافظ۔
یہ کہہ کر خالہ نے دروازہ بند کر لیا۔
ٹنکو میاں نے برا سا منہ بنایا اور ہنھ کہہ کر آگے بڑھ گئے۔
پروفیسر اوقیانوس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب جغرافیہ کے ماہر تھے ، ان کا اصل نام تو شائد ہی کسی کو یاد ہو، سب ان کو پروفیسر اوقیانوس کہتے تھے ، ان کے گھر میں بچہ تو کیا کوئی بھی نہیں رہتا تھا وہ اکیلے ہی تھے۔
کھلا ہوا دروازہ دیکھ کر ٹنکو میاں گھر میں داخل ہو گئے ، حالاں کہ یہ کوئی نیکی نہیں، بلکہ بہت بری بات ہے ، کسی کے گھر میں بغیر پوچھے داخل نہیں ہونا چاہیے۔
پروفیسر صاحب اپنے پڑھنے لکھنے کے کمرے میں ایک اسٹول پر چڑھے ہوئے تھے اور اپنی کتابوں کی الماری کے سب سے اوپر والے خانے سے پرانی پرانی کتابیں نکال کر ان کی گرد جھاڑ رہے تھے۔
ٹنکو میاں کے آنے کی انہیں خبر بھی نہ ہوئی اور وہ اسی طرح اپنے کام میں مصروف رہے۔ ٹنکو میاں پہلے تو چپ چاپ کھڑے ان کو دیکھتے رہے پھر اچانک اپنی سیٹی جیسی آواز میں بولے۔
پروفیسر صاحب، کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔
پروفیسر صاحب بے چارے اچانک ایک غیر متوقع آواز سن کر ڈگمگا سے گئے۔ گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ میں جو پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹنکو میاں کی شکل پر نظر پڑی بدحواسی میں اپنا توازن قائم نہ رکھ سکے اور اپنے اسٹول سمیت اڑا اڑا دھڑم ٹنکو میاں کے قریب ہی ڈھے گئے۔
ٹنکو میاں نے جو یہ منظر دیکھا تو پروفیسر صاحب کے جواب کا انتظار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور الٹے قدموں وہاں سے دوڑ لگا دی۔
اگلے ہی کونے پر نانی اے ہے کا گھر تھا۔ نانی اپنا ہر جملہ اے ہے سے شروع کرتی تھیں، اسی وجہ سے ہر کوئی ان کو نانی اے ہے کہتا تھا۔ ان کے گھر میں بھی ان کے علاوہ کوئی نہیں رہتا تھا۔ ٹنکو میاں نے نانی کے گھر کا دروازہ بند پا کر اس پر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور نانی سر پر دوپٹہ اچھی طرح لپیٹے ، ہاتھ میں جھاڑو لیے نظر آئیں۔ ٹنکو میاں پہلے تو انہیں دیکھ کر ڈر گئے کہ کہیں نانی اپنی مدد سے پہلے ہی ان جھاڑو سے مرمت نہ شروع کر دیں۔ لیکن جب نانی اس کو دیکھ کر مسکرائیں تو ان کی ہمت بڑھی اور انہوں نے کہا۔
نانی اماں، آپ کو کوئی کام تو نہیں، میں آپ کی مدد کرنے کے لیے آیا ہوں !۔ نانی اماں یہ سن کر خوش ہو گئیں۔ ٹنکو میاں کی بلائیں لیتے ہوئے بولیں۔
اے ہے ، کتنا اچھا بچہ ہے ، ٹنکو، جا میرے لال ذرا دوڑ کر دکان سے ایک درجن انڈے اور مکھن کی ایک ٹکیا لے آ۔ یہ لے پیسے۔
ٹنکو میاں مارے خوشی کے باچھیں کھل گئیں، چلو کوئی تو نیکی کا کام ملا، وہ دوڑتے ہوئے بیکری تک گئے اور دوڑتے ہوئے واپس آئے۔ ان کے ایک ہاتھ میں انڈوں کا تھیلا اور دوسرے ہاتھ میں مکھن کی ٹکیہ تھی۔ اسی طرح دوڑتے ہوئے وہ نانی اے ہے کے گھر میں بھی گس گئے۔ مگر انہوں نے یہ خیال نہیں کیا کہ نانی اپنے گھر کا فرش دھونے میں مصروف تھیں، ان کو جوتا گیلے اور چکنے فرش پر پھسلا اور انہوں نے سکس کے مسخروں کی طرح ایک شاندار قلابازی کھائی، سر نیچے ، پاؤں اوپر، انڈے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر پہلے تو اڑتے ہوئے چھت تک گئے پھر واپس نیچے آئے تو عین نانی اے ہے کے سر پر گرکپر پھوٹ بہے۔
نانی اے ہے نے سر پر ہاتھ پھیرا تو ان کا ہاتھ انڈوں کی زردی اور سفیدی میں لتھڑ گیا۔ وہ بے چاری بس۔
اے ہے۔۔۔۔۔ اے کر کے رہ گئیں۔ ٹنکو میاں نے زمین پر سے مکھن کی ٹکیا اٹھا کر کرسی پر رھی اور اپنی کمر سہلاتے ہوئے بولے کہ۔
خدا کا شکر ہے کہ مکھن نہیں ٹوٹا
مگر نانی اے ہے ، یہ بات سن کر ذرا بھی خوش نہیں ہوئیں، خفا ہو کر بولیں۔
اے ہے ، لڑکے کیسی بے وقوفی کی بات کر رہا ہے ، کہیں مکھن بھی ٹوٹتا ہے ، لیکن اگر مکھن بھی ٹوٹ سکتا تو تو اس کو بھی توڑ چکا ہوتا۔
اب ٹنکو میاں نے وہاں سے رفو چکر ہو جانے ہی میں عافیت سمجھی کہنے لگے۔
میں اب جا رہا ہوں۔
نانی اے ہے بولیں۔
اے ہے ، اب میں تیری مدد کرتی ہوں۔
یہ کہہ کر انہوں نے جھاڑو اٹھایا اور سٹ سٹ ٹنکو میاں کے پیچھے رسید کر دیا۔ ٹنکو میاں نے دروازے سے چھلانگ لگا دی۔ باہر گلی میں پروفیسر اوقیانوس لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے چلے جا رہے تھے ، ٹنکو میاں ان کے قدموں میں آگرے۔ پروفیسرایک بار پھر اس بلا کو اپنے قدموں میں دیکھ کر گھبرا گئے اور ٹنکو میاں کے اوپر سے کود گئے پھر غرا کر بولے۔
کیوں میاں لوگوں کے گھروں سے اس طرح نکلتے ہیں۔
اب ٹنکو میاں ان کو کیا بتاتے کہ وہ نکلے نہیں تھے ، نکالے گئے تھے ، وہ تو پروفسیر صاحب کے ہاتھ آنے سے بچنے کے لیے اٹھ کر سر پٹ اپنے گھر کی طرف دوڑ گئے۔
لیکن آپ کو یہ سن کر خوشی ہو گی کہ ٹنکو میاں کی نیکی کا جذبہ پھر بھی سرد نہیں ہوا، انہوں نے اور بھی کارنامے سر انجام دیے کیا کریں بے چارے تمیز اور سلیقہ سے کام ہی نہیں لے سکتے۔
{rsform 7}