فاتی تھیلی میں سے باجرہ لے کر چھت کی طرف دھیرے دھیرے جانے لگی تاکہ بلّو کو پتا نہ چلے  اوروہ سارے کبوتروں کو باجرہ اور پانی ڈال سکے۔اصل میں بلو کبوتروں کا بالکل خیال نہیں کرتا  تھا بلکہ ان کو بے حد تنگ کرتا تھا ۔ اس لیے  فاتی بھی بہت پریشان ہوجاتی ۔ اس نے کئی بار امی جان سے شکایت لگائی۔ بلّو کو بہت بار ڈانٹ پڑی لیکن پھر بھی کبوتروں کے ساتھ اپنی شرارتوں کے ساتھ باز نہ آیا۔

فاتی اپنے  جیب خرچ میں سے ہر ہفتے ابو کے ساتھ بازار سے باجرہ لاتی۔اسے پرندوں کا خیال رکھنا بہت اچھا لگتا۔ 

خاص طور پر کبوتر اس کے پسندیدہ پرندے تھے۔

 

فاتی ہر شام سارے کبوتروں کے سامنے باجرہ ڈال کر ان کے پاس خاموشی سے بیٹھ جاتی اور ان کو پیار بھری نظروں سے دیکھتی کہ اتنے  پیارے کبوتر ہیں۔ نرم ملائم پَر،  موٹی موٹی ،نیلی نیلی آنکھوں والے کبوتر ،کوئی سفید تو کوئی کالا کوئی نیلا تو کوئی سبزی مائل چمکیلے پروں والا۔ سارے کبوتر کبھی مل کر آسمان کی فضا میں اڑتے تو کبھی آکر باجرہ کھانے لگتے۔  فاتی کو یہ منظر بہت بھاتا۔ اسی لیے ہر شام، وہ ان کا خیال رکھنے کے لئے چھت پر چلی جاتی اورکبوتر بھی فاتی سے بہت زیادہ مانوس تھے۔ 

ایک دن فاتی نے بلو سے کہا۔’’بلو ! تم آج کبوتروں کو پانی اور باجرہ ڈال دینا اور ہاں انہیں تنگ مت کرنا پلیز۔ میرا کل اسکول میں ٹیسٹ ہے،میں اس کی تیاری کر رہی ہوں۔‘‘

  بلو نے اثبات میں سر توہلا دیا۔لیکن آج تو اسے موقع مل گیا کبوتروں کو تنگ کرنے کا۔

بس وہ  دوڑتا ہوا چھت پر چڑھا اور باجرے کو ہوا میں ادھر ادھر زور زور سے بکھیرنے لگا۔ کبوتروں نے باجرہ کھانے کی بہت کوشش کی لیکن نہیں کھا سکے۔پھر بلو نے تھوڑا سا پانی برتن میں ڈال کر ہاتھ سے کبوتروں پر چھینٹے اڑانے شروع کر دیے۔ایسا کر کے بلّو کو بہت مزا آ رہا تھا اوروہ خوش ہورہاتھا۔

جب پانی اور باجرہ ختم ہوگئے تو بلو نیچے اتر آیا ۔اس نے تو کبوتروں کے پنجرے کا دروازہ بھی  بند نہیں کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح اٹھ کر اسکول کی بس آنے میں کچھ  وقت باقی تھا تو فاتی سے رہا نہ گیا اور اپنے کبوتروں کو دیکھنے چھت پر چلی گئی۔لیکن وہ چھت کے دروازے میں ہی کھڑی رہ گئی۔  

’’یہ کیا ! اف کیا ہو گیا میرے کبوتروں کو! یہ سب تو  نڈھال ہو رہے ہیں اورسردی سے کانپ رہے ہیں۔‘‘ فاتی نے بے چین ہوکر روہانسی آواز میں کہا۔پھر اس نے جلدی جلدی کبوتروں کو پنجرے میں بند کرنا شروع کر دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بلّو تم نے کبوتروں کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ اگر انہیں بلی کھا جاتی یا وہ سردی سے مر جاتے تو؟‘‘شام کو فاتی بلو کی شکایت ابا جان تک پہنچا چکی تھی۔  ابا جان نے کہا توبلّو نے شرمندگی سے سر جھکالیا۔ اس کو آج احساس ہوگیا تھا کہ میری وجہ سے اتنے پیارے اورمعصوم کبوترسردی اور بھوک سے رات بھر تڑپتے رہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاتی نے نیلےکبوتر کو ہاتھ میں اٹھایا اور باجرہ کھلانے لگی۔ بلو بھی دوڑ کر باجرہ لیتا آیا  اور پانی بھر کر کبوتروں کے سامنے رکھ دیا۔فاتی نے مسکراتے ہوئے شکریہ کہا ۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب بلّو بھی اب میرے ساتھ مل کر کبوتروں کا خیال رکھے گا اور کتنا مزہ آئے گا۔

بلّو! تم سرخ والا کبوتر لے لو۔ یہ تمھارا ہے۔ ‘‘ فاتی نے سرخ رنگ کے پروں والے کبوتر کی طرف اشارہ کیا۔ یہ سن کر بلّو بہت خوش ہوا۔ اب وہ سب کبوتروں کا خیال رکھتا ہے اور جب فاتی امی کے ساتھ کچن کے کاموں میں مصروف ہوتی ہے تو کبوتروں کو باجرہ اور پانی بلّو ہی ڈالتا ہے۔ ان کے ساتھ کھیلتا ہے اور انہیں دھوپ میں پرواز بھی کرواتا ہے۔

بچو!  ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی سردیوں میں پرندوں کا خاص خیال رکھیں، خورک کا منظم انتظام ہو اور دھوپ کے وقت کھلی فضا میں ان کواڑنے کےلیے آزاد کریں۔

 

{rsform 7}