بلّو اور فاتی بوجھل دل ،آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو اور دبے قدموں کے ساتھ سکول سے گھرواپس آرہے تھے۔ان کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہم کیا کرسکتے ہیں ؟کیسے مدد کرسکتے ہیں ؟ آخر فاتی نے کہا۔
’’ہم مل کر ہانی اور شانو کی مدد کریں گے تو وہ دونوں بہت خوش ہو جائیں گے۔‘‘
’’ہاں ٹھیک ہے! لیکن کیسے؟‘‘ بلّو بولا۔
’’ہمیں تو سردی کا احساس بھی نہیں ہوتا اور ذرا دیکھو ان کو سردی سے کتنی پریشانی ہورہی ہے ۔‘‘
بلو نےاداسی سے کہا۔
’’ہمارے پاس بہت ساراسردی کا سامان ہے۔ ان میں سے سویٹر ،موزے ،دستانے، ٹوپی چادر اور موٹے کپڑے اگر ہم ان کو بھی دے دیں تو ان کا کام ہوجائے گا ۔‘‘
’’صحیح کہا تم نے! باباجان اس سردی میں بھی ہمارے لئے نیا نیا سا مان لائے ہیں ۔ابھی تو پچھلے سال کے کپڑے ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں۔ میں بھی اپنا سرخ سویٹر اورنیلی اون والی چادر ہانی کو دے دوں گی ۔اور تم بھی شانو کو کچھ کپڑے دے دینا۔‘‘
یہ ہمدرد منصوبہ بنا کر دونوں نے گھر کا دروازہ کھولا اوراپنے کمروں کی طرف دوڑ لگائی تاکہ جلدی سے اپنے دوستوں کے لیےگرم سامان جمع کر کے کل ان کو دے سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل میں آج صبح ٹیچر نے شانو اور ہانی اور ڈانٹ پلائی تھی کیونکہ وہ دو دن سے سکول نہیں آ رہے تھے۔
’’شانو اور ہانی تم دونوں دو دن سے سکول نہیں آرہے ہو۔ تمھیں پڑھائی کی فکر نہیں، بس چھٹیاں ہی کرتے جارہے ہو۔‘‘
جب کلاس ختم ہونے پر بلو اور فاتی تیزی سے شانو اور کہانی کے پاس آئے ۔ شانو اور کہانی کے چہرے سردی سے سرخ ہو چکے تھے ۔ وہ دونوں ہاتھوں کو رگڑ رگڑ کے گرم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’ کیوں نہیں آرہے تھے؟ تم دونوں نے دو دن چھٹی کیوں کی؟ ایسا کیا ہوا کہ سکول نہ آسکے ؟‘‘
فاتی بلّونے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر دیئے۔ دونوں سر جھکائے کھڑے تھے ۔
’’ارے میرے پیارے دوستو! ہمیں بتاؤناں۔ ہم سب دوست ہیں ۔ ہم سے کچھ ہوگا تو ضرور تمہاری مدد کریں گے۔‘‘
بلو نے ان کو ہمت دلائی۔ شانو تو خاموشی سے زمین کو تکتا رہا ۔لیکن ہانی سے اور صبر نہ ہوسکا۔ وہ روہانسی آواز میں بتانے لگی۔
’’ میرے بابا جان بیمار ہو گئے ہیں اور کام پر نہیں جا رہے ہیں۔اس مہینے سے ان کو تنخواہ بھی نہیں ملی اور ہمارے لئے سردی کے گرم گرم کپڑے بھی نہ خرید سکے۔ صبح بہت سردی ہوتی ہے ۔امی ہمارے لئے آگ جلاتی ہیں تو ہم اس کے پاس بیٹھ کر خود کو سردی سے بچاتے ہیں۔‘‘
اتنے میں شانو نے کہا۔ ’’زیادہ سردی اور ٹھنڈی ہواؤں کی وجہ سے امی سکول جانے سے روکتی ہیں کہ بیمار ہوجاؤ گے تو علاج کیسے کرواؤں گی ؟لیکن آج ہم نے بہت سی ضد کی تو امی نے اجازت دے دی ۔‘‘
یہ سننا تھا کہ بلو اور فاتی ساکت ہی کھڑے رہ گئے ۔ ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ پھر باقی کا سارا دن بھی وہ شانو اور ہانی کے لیے اداس رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن اتوار تھا۔ ہمدرد منصوبے کے مطابق فاتی اور بلّو نے گرم کپڑوں کے پیکٹ تیار کیے ساتھ میں کچھ چاکلیٹ اور مونگ پھلی بھی رکھی پھر شانو اور ہانی کے گھر دے آئے۔
پیارے بچو! ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے کہ المسلم اخو المسلم یعنی مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ اوربھائی بھائی کے کام آتا ہے ۔اس کی مدد کرتا ہے۔ لہٰذا ہم سب کو چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔چاہے سردی ہو یا گرمی ہماری تھوڑی سی مدد دوسروں کے چہروں پرمسکراہٹ لا سکتی ہے۔دوسروں کے کام آنے سے دل کا سکون ملتا ہے اور اللہ پاک بہت خوش ہوتے ہیں۔آج آپ بھی ارادہ کرلیں کہ اس سردی میں اپنا کم از کم ایک گرم سوٹ کسی ضرورت مند کو ضرور دیں گے۔انشاء اللہ!
{rsform 7}