’’امی کچھ کھانے کو ہے؟‘‘

فاتی  اور بلّونے کوئی پانچویں بار امی جان سے پوچھا۔

امی نے اپنا ہینڈ بیگ کھولا  اور بسکٹ کا  آخری   پیکٹ کھول کر فاتی کو تھما دیا۔ فاتی نے دو بسکٹ خود رکھے اور دو بلّو کو دیے جو بھوک سے نڈھال اب سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

خشک بسکٹ حلق سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ رہ رہ کر بلّو کو صبح کا پراٹھا انڈہ یاد آرہا تھا جو وہ صبح بیڈ کے پیچھے چھپا آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

آج سوموار تھا ۔ امی جان فاتی اور بلّو کو سکول بھیج کر کچن میں آئیں تو انہیں دھچکا لگا۔ بلّو کا ناشتہ جوں کا توں شیلف پر پڑا ہوا تھا۔ دودھ کا گلاس بھی اس نے بمشکل آدھا پیا تھا۔ فاتی نے آدھے سے زیادہ پراٹھا خالی ہی کھالیا تھا کیونکہ انڈہ یوں پڑا تھا جیسے اسے کسی نے چھوا بھی نہ ہو۔

’’میں کیا کروں ان بچوں کا! ‘‘امی جان بڑبڑائیں اور برتن سمیٹنے لگیں۔  ایسا اکثر ہی ہوتا تھا۔ جب امی جان زیادہ ڈانٹ ڈپٹ کرتیں تو فاتی اور بلّو  پراٹھا کبھی سٹور  میں اور کبھی پڑھنے والی میز کے پیچھے چھپا جاتے۔ بعد میں صفائی کے دوران امی جان کو رول گول ہوئی روٹی ملتی اورکبھی ڈبل روٹی کے ٹکڑے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کھانا  ضائع کرنے کی عادت فاتی اور بلّو کو کافی عرصے سے تھی۔ کھانے کے وقت  آدھی روٹی کھاتے  آدھی چھوڑ دیتے۔ ناشہ کرتے  تو کبھی ڈبل روٹی کے بہت سارے ٹکڑوں پر جیم لگا لیتے  جو یونہی بچ جاتے۔ کبھی پراٹھے کے ساتھ ڈھیر سارا اچار ڈال لیتے جو ضائع ہو جاتا۔چاولوں کی پلیٹ بھی ضرورت سے زیادہ بھر لیتے اوپر سے دہی بھی ڈال لیتے۔ امی جان کہتی رہتیں کہ جتنا کھانا ہے اتنا ڈالو۔ پھر تھوڑا سا ہی کھا کر ان کا پیٹ بھر جاتا اور آدھی سے زیادہ پلیٹ بچ جاتی۔

ابو  جان نے مشورہ دیا کہ  شاید بچوں  کی بھوک کم ہو گئی ہے۔ وہ اگلے دن  ہمدرد کا سیرپ خوباں لے آئے اور  امی جان نے باقاعدگی سے  فاتی اور بلو کو پلانا شروع کیا۔  اس سے ان کی بھوک تو بڑھ گئی لیکن کھانا ضائع کرنے کی عادت جوں کی توں برقرار رہی۔

اس دن بھی فاتی نے ضد کر کے آلو کے چپس بنوائے اور لنچ میں ڈال کر سکول لے گئی۔ جب بریک ہوئی تو اس کی سہیلی ند ا کینٹین سے بند سموسہ لے کر کھانے لگی۔ فاتی کے منہ میں بھی پانی آ گیا۔ اس نے لنچ باکس کیاری میں الٹ دیا تاکہ امی کی ڈانٹ سے بچا جا سکے اور کینٹین سے  بند سموسہ خرید لیا۔

ایک دن   بلوّ کو امی جان نے ناشتے میں جو کا دلیہ بنایا جو اسے بہت پسند تھا۔پہلے تو  اس نے سکول کی  تیاری کی اور پھرکہانی کی نئی کتاب اٹھا کر پڑھنا شروع کر دی۔  پھر امی کی آواز پر دلیہ کھانا شروع کیا۔ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا کہ وین آ گئی۔

 بلّو نے بوکھلا کر پلیٹ بیڈ کے نیچے  سرکا دی اور بیگ لے کر وین میں بیٹھ گیا۔ بعد میں امی جان جب بلّو کے کمرے سے جھاڑو دینے لگیں تو جھاڑو  یکدم پلیٹ سے ٹکرایا اور دلیہ چھلک کر فرش پر آرہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید کے موقع پر وہ سب  ناصر ماموں کے گھر نور پور بیس  رہنے آئے ہوئے تھے۔ آج صبح انہوں نے ناشتے کے بعد واپس اسلام آبادجانے کا ارادہ کیا۔ نور پور بیس سے اسلام آباد کا سفر قریبا ً ۳ گھنٹوں پر مشتمل تھا۔ابھی سفر شروع کیے ایک گھنٹہ ہوا تھا ۔ ابو جان نے سوچا کیوں نہ پیٹرول ڈلوا لیا جائے۔یہ سوچ کر انہوں نے گاڑی ذیلی سڑک پر واقع پیٹرول پمپ کی طرف موڑ دی۔  یہ عید کا دوسرا دن تھا سو اکا دکا ملازم ہی موجود تھے۔ پیٹرو ل ڈلوانے کے بعد ابو جان نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ ایک ہچکی لے کر خاموش ہو گئی۔

’’اب کیا کریں؟‘‘ ابو جان پریشانی سے نیچے اتر ے اور پیٹرول پمپ پر کسی مکینک کو بلانے چلے گئے۔

’’ ویسے تو دو تین مکینک ہوتے ہیں  یہاں لیکن صاحب !  عید کے دن ہیں  ۔ سب ہی چھٹی پر ہیں۔ ‘‘ ایک ملازم نے بتایا تو ابو جان کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب دو گھنٹے سے زیادہ گزر چکے تھے اور بھو ک کے مارے فاتی اور بلّو کا برا حال تھا۔ وہ صبح ناشتہ کر کے نکلے تھے اور اب دوپہر کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔ یہ غیر آباد علاقہ تھا اور دور دور تک کسی سواری کے ملنے کا امکان نہ تھا۔

یہ غنیمت تھا کہ امی جان چلتے وقت ہینڈ بیگ میں کچھ بسکٹ کے پیکٹ  اور پانی کی بوتل رکھ لیتی تھیں جو اب کام آ رہی تھی۔

آخر دور سے ایک بس آتی دکھائی دی۔ ابو جان سڑک کے کنارے جا کھڑے ہوئے اور ہاتھ ہلانے لگے۔بس رک تو گئی لیکن اس میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ آخر ان کی پریشانی دیکھتے ہوئے مسافروں نے جیسے تیسے کر کے جگہ بنائی اوریوں ان کا سفر دوبارہ شروع ہوا۔ ابو جان نے گاڑی پیٹرول پمپ پر ہی کھڑی کر دی تھی  کہ بعد میں ٹیکسی کے ذریعے لے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر پہنچنے پر سب سے پہلے امی جان نے کھانا لگایا جو وہ راستے سے لیتے آئے تھے۔ سب نے کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ فاتی اور بلّو کو رزق کی قدر آج معلوم ہوئی تھی جب ان کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں تھا اور وہ بھوک سے نڈھال ہو گئے تھے۔ انہیں بہت دنوں تک یہ سفر یا درہا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دن کے بعد سے فاتی اور بلّو میں ایک حیرت انگیز تبدیلی آگئی ہے۔پہلے بلّو آدھی روٹی کھا کر سوچتا تھا۔ 

’’ یہ روٹی کہاں چھپاؤں؟‘‘

اب فاتی اور بلّو کوشش کرتے ہیں کہ کھانا ضائع نہ کریں۔ انہیں اللہ کے رزق کی قدر معلوم ہو گئی ہے۔

 اب وہ آدھی  روٹی  چھپانے کی تگ و دو میں نہیں رہتے ۔ چاولوں کی پلیٹ بھی اتنی بھرتے  ہیں جتنی کھاسکتے ہیں ۔ جیم اور اچار  کی بوتل  اب جلدی جلدی ختم نہیں ہوتی اور امی جان کا جھاڑو بھی  کافی دنوں سے کسی پلیٹ سے نہیں ٹکرایا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پیارےبچو!ہر طرح کا کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔ کھانے کو ضائع نہ کریں۔ جہاں کوئی روٹی کا ٹکڑا پڑا دیکھیں فوراً اٹھا کر محفوظ جگہ پر رکھیں۔ چاول کھاتے وقت ایک ایک دانہ دھیان سے کھائیں اور دسترخوان پر نہ گرنے دیں۔ اگر کوئی لقمہ دسترخوان پر گر جائے تو اٹھا کر کھالیں۔ پلیٹ میں اتناسالن ڈالیں جتنا آپ کھا سکتے ہیں۔ کھانا ختم کرتے وقت پلیٹ کو روٹی کے لقمے سے صاف کریں پھر اس لقمے کو کھا لیں۔ چائے میں چینی ڈالتے وقت ایک ذرہ بھی نیچے نہ گرنے دیں۔ دودھ پیتے وقت کپ پورا خالی کریں۔ اگر کچھ کھانے کو دل نہیں چاہ رہا تو یہ سوچیں کہ امی جان نے یہ کھانا کتنی محنت سے بنایا ہے۔ اگر ہم نہیں کھائیں گے تو وہ اداس ہو جائیں گی ۔ پھر کھانا ہمارے لیے ضروری ہے۔ اگر ہم وقت پر کھانا نہیں کھائیں گے تو کمزور ہو جائیں گے۔