ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک چھوٹا سا لڑکا عبدو رہتا تھا۔ عبدو کا کوئی کام سیدھا نہیں تھا۔ جب وہ بوتل سے پانی گلاس میں ڈالنے لگتا ، تو پانی یہاں وہاں گر جاتا۔ وہ روٹی کا نوالہ بناتا تو انگلیاں آدھی آدھی شوربے میں ڈبو لیتا۔ جب وہ ہوم ورک کرنے بیٹھتا تو اس کا ربر گم جاتا اور کبھی پنسل بنی ہوئی نہ ہوتی۔ کبھی اس کی امی اسے نکڑ کی دکان پر بھیجتیں کہ کچھ ٹماٹر لے آؤ۔ عبدو جب تک دکان پر پہنچتا اسے بھول چکا ہوتا کہ اس نے کیا لانا تھا۔ کبھی وہ توریوں کی جگہ ٹینڈے لے آتا کبھی پودینے کی جگہ پالک۔
ایک بار عبدو کی امی نے سوجی کا حلوہ بنایا اور عبدو کو دیتے ہوئے کہا۔
’’یہ حلوہ خالہ جان کے گھر دے آؤ۔ دیکھو! سیدھے جانا اور سیدھے آنا۔‘‘
عبدو نے غور سے امی کی بات سنی اور سر ہلا دیا۔ پھر اس نے حلوہ کا ٹفن پکڑا اور گھر سے چل دیا۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلا جارہا تھا کہ اچانک اسے اپنا دوست ماجو مل گیا۔
’’عبدو ! کہاں چلے جا رہے ہو؟‘‘ ماجو نے دور سےچلا کر پوچھا۔
عبدو نے ماجو کو کوئی جواب دینے سے پہلے سوچا۔ اگر میں اس سے دو تین منٹ بات کر لوں تو کیا حرج ہے۔ ویسے بھی خالہ جان کا گھر قریب آگیا ہے۔
’’میں خالہ جان کے گھر جارہا ہوں۔ امی نے یہ حلوہ دیا ہے ان کو دینے کے لیے۔‘‘ عبدو نے جواب دیا اور ساتھ ہی ٹفن کی طرف اشارہ کیا۔
ماجو کو بھوک لگی تھی اور اس کی امی گھر سے باہر گئی ہوئی تھیں۔ اس نے جب ٹفن دیکھا جس میں سے حلوہ جھانک رہا تھا تو وہ نزدیک آگیا۔
’’مجھے بھی چکھاؤ۔ بس میں تھوڑا سا کھاؤں گا۔‘‘ ماجو نے لجاجت سے کہا تو عبدو نے ٹفن کھول دیا۔ حلوہ کی سوندھی سوندھی خوشبو ادھر ادھر پھیل گئی۔
ماجو نے تھوڑا سا حلوہ چکھا ۔ پھر اس نے عبدو کو چِڑانے کے لیے کہا۔
’’ہونہہ! یہ تو مزے کا نہیں۔ میری امی زیادہ اچھا بناتی ہیں۔‘‘
’’نہیں! میری امی زیادہ اچھا بناتی ہیں۔ ‘‘ عبدو نے تیز لہجے میں کہا اور ٹفن ماجو سے چھین لیا۔
’’اچھا! یہ بات ہے تو پھر میں سارا حلوہ کھا کر بتاؤں گا کہ یہ کیسا بنا ہے۔ ایک نوالے سے سمجھ نہیں آرہا۔‘‘ یہ کہ کر ماجو نے عبدو کے ہاتھ سے ٹفن لے لیااور جلدی جلدی سارا حلوہ کھا لیا۔
’’ہاہ! مزہ آگیا۔ شکریہ عبدو! ویسے حلوہ تو میری امی زیادہ اچھا بناتی ہیں۔‘‘
یہ کہ کر ماجو جلدی سے بھاگ گیا اور عبدو خالی ٹفن دیکھ کر رونے لگا۔ اب تو امی جان سے ضرور ڈانٹ پڑے گی۔
وہ تو کرنا یہ ہوا کہ وہاں سے حلوائی انکل گزر رہے تھے۔ وہ بہت مزیدار مٹھائی بناتے تھے۔ انہوں نے عبدو کو روتے دیکھا تو اپنے بکس میں سے کچھ مٹھائیاں عبدو کے ٹفن میں ڈال دیں۔ یہ دیکھ کر عبدو خوش ہو گیا اور حلوائی انکل کا شکریہ ادا کیا۔ پھر وہ جلدی جلدی تیز قدموں سے گیا اور خالہ جان کے گھر مٹھائی سے بھرا ٹفن دے آیا۔
واپسی پر امی جان کے پوچھنے پر عبدو نے کہ دیا۔
’’جی امی ! میں بالکل سیدھا سیدھا گیا اور حلوہ خالہ جان کو دے آیا ہوں۔ راستے میں کسی سے بات نہیں کی۔‘‘
امی جان نے یہ سنا تو فوراً عبدو کو شاباش دی اور ایک مزیدار چاکلیٹ انعام میں دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اتوار تھا۔ نانی جان رہنے آئی ہوئی تھیں۔ عبدو حسب معمول اپنی بے وقوفیوں کی وجہ سے امی جان سے ڈانٹ کھا رہا تھا۔
’’اب یہ کیا کیا تم نے؟ دودھ والی دیگچی گرا دی۔دودھ والا تو اب پرسوں آئے گا۔ آج اور کل ہم کیا کریں گے؟‘‘
عبدو سر جھکائے ڈانٹ سن رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ نانی جان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے اپنی بیٹی کو اچھی خاصی سنا دیں۔ پھر انہوں نے عبدوکو اپنے پاس بلا کر پیار کیا اور سمجھایا۔
’’میرے بیٹے عبدو! میں آپ کو ایک گُر سکھاتی ہوں۔ اگر آپ نے وہ سیکھ لیا تو پھر آپ کا کوئی کام خراب نہیں ہو گا۔ ‘‘
’’ہیں! نانی جان! ابھی سکھائیں۔ ابھی سکھائیں!‘‘ یہ کہتے کہتے عبدو اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ وہ بہت پرجوش تھا کہ اب وہ سارے کام ٹھیک ٹھیک کر سکے گا اور امی جان سے ڈانٹ بھی نہیں پڑےگی۔
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ خالہ جان آ گئیں۔ ان کے ہاتھ میں وہی ٹفن تھا ۔ وہ اس ٹفن میں بریانی ڈال کر لائی تھیں جو عبدو کو بہت پسند تھی۔
’’خالہ جان!‘‘ عبدو نے نعرہ مارا اور خالہ جان کا حال پوچھنے کے بعد ٹفن ان کے ہاتھ سے لے لیا۔
باتوں باتوں میں خالہ جان نے امی کو بتایا۔
’’ثریا! آپا! وہ مٹھائی تو بہت مزیدار تھی۔ خاص طورپر چم چم تازہ اور بے حد رسیلے تھے۔‘‘
’’ہائیں! کون سی مٹھائی!‘‘ سبزی کاٹتے کاٹتے امی جان کے ہاتھ رک گئے۔ ادھر عبدو بھی بریانی کا نوالہ منہ تک لے جانا بھول گیا۔ اس کو پکا یقین تھا اب اس کا جھوٹ کھل جائے گا۔
(جاری ہے)