کسی بادشاہ کے دربار میں بہت سے خدمت گاروں میں دو گہرے دوست بھی تھے ۔ باقر دریا سے پانی بھر کر لاتا تھااور عاقل سوداسلف لانے اور کھانے پکانے پر مامور تھا۔ عاقل نہایت لاپروا اور فضول خرچ تھا ، مگر اس کے ساتھ نہایت ذہین بھی تھا۔ سلطنت کے بعض ایسے کام جن کو حل کرنے میں بادشاہ اور اس کے وزیر کو وقت پیش آتی ، اور وہ مسئلہ جب عاقل کے علم میں آتا تو وہ اسے نہایت آسانی سے حل کردیتا ۔ اپنی اسی خوبی کی وجہ سے عاقل بادشاہ کی نظر میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ بادشاہ اکثر اسے بہت سے انعامات سے نوازتا رہتا ۔
باقر عام سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص ، مگر وہ کسی بھی قسم کی فضول خرچی واسراف کو سخت ناپسند کرتا تھا۔ عاقل باورچی کانے میں کام کے دوران کھانے پینے کا بہت سا سامان اپنی لاپروائی سے ضائع کردیتا ، بلکہ پانی بھی بے تحاشا ضائع کرتا ۔ باقر عاقل کو ہمیشہ ٹوکٹا رہتا ۔ جواب میں عاقل کہتا : تم مجھے پانی کے استعمال پر اس لیے ٹوکتے ہو کہ تمھیں زیادہ پانی نہ لانا پڑے اور تم مشقت سے بچ جاؤ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم نہایت کنجوس بھی ہو ۔
باقر کہتا : نہیں ، تمہارا خیال غلط ہے ۔ ایسا میں صرف اس لیے کرتا ہوں کہ اللہ میاں کو کسی بھی طرح کی فضول خرچی پسند نہیں ۔ خواہ وہ اپنی کااستعمال ہی کیوں نہ ہو ۔
عال جواباََ کہتا : کچھ بھی کہو ، مگر یہ تو طوطے ہے کہ میں ایک سخی مزاج جب کہ تم کنجوس انسان ہو ۔
باقر نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا : شاید زندگی میں کبھی کوئی ایسا موڑ آجائے ، جہاں پر ثابت ہوجائے کہ سخی کون ہے ؟ اگر ہماری زندگیوں میں کوئی ایسا موقع آیا تو میں ثابت کروں گا کہ میں کنجوس یالالچی ہرگز نہیں ، بلکہ تم سے زیادہ سخی ہوں ۔
عاقل چوں کہ اپنی ذہانت کی وجہ سے بادشاہ کی نظروں میں ایک اہم مقام رکھتا تھا ، جو وزیراعظم کو سخت ناگوار گزرتا ۔ وہ ہمیشہ معمولی معمولی بات پر عاقل کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتا رہتا ۔ رفتہ رفتہ بادشاہ عاقل سے خفارہنے لگا ۔ جب عاقل کو بادشاہ کے بدلتے رویے کا اندازہ ہوا تو اس نے سوچا ، اس سے پہلے کہ کسی روز بادشاہ بھرے دربار میں ذلیل ورسوا کرکے دربار سے نکل جانے کا حکم دے ، مجھے خود ہی کہیں چلے جانا چاہیے ۔
عاقل کے چپکے سے چلے جانے پر وزیر نے بادشاہ کو یہ کہہ کر بھڑ کادیا کہ عاقل شاہی خزانے سے زور جواہرات چوری کرکے کہیں چھپ گیا ہے ۔
بادشاہ نے وزیر کی بات پر یقین کرتے ہوئے عاقل کی گرفتاری کا اعلان کیا اور باقر کو بطور خاص حکم دے کر اس کی تلاش میں روانہ کردیا، کیوں کہ وہ اس کے زیادہ قریب تھا ۔
اُدھر عاقل بھی اپنی گرفتاری کے اعلان سے آگاہ ہوچکا تھا۔ اس نے ایک حمام میں جا کر اپنا حلیہ اس حد تک تبدیل کر لیا کہ بادشاہ کا کوئی بھی آدمی اسے عاقل کی حیثیت سے شناخت نہیں کرسکتا تھا ، پھر وہ اطمینان سے اونٹ پرسوار کرایک دور دراز بستی کی طرف چل پڑا ۔
اچانک راستے میں ایک نقاب پوش شخص نے تیزی سے آگے بڑھ کر عاقل اونٹ کی نکیل پکڑی اور اسے زمین پر بٹھا دیا۔ ساتھ ہی عاقل کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا ۔ اس نے نقاب پوش سے پوچھا : تم کون ہواور کیا چاہتے ہو ؟
عاقل سمجھا کہ کوئی ڈاکو اس سے اس کا مال لوٹنا چاہتا ہے ۔ نقاب پوش نے کوئی جواب دینے کے بجائے اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا۔ عاقل نے فوراََ باقر کو پہنچان لیا ۔
باقر بولا : میں تمھارا پرانادوست باقر ہوں ۔ تم کیسا ہی بھیس بدل لومیں تمھیں پہنچاننے میں غلطی نہیں کر سکتا ، کیوں کہ جتنا تم خود کو جانتے ہو میں دعوے سے کہ سکتا ہوں اتنا ہی میں تمھیں جانتا ہوں۔
چلو میں اقرار کرتا ہوں کہ میں عاقل ہوں ، مگر تم میرے تعاقب میں کیوں ہو؟
عاقل نے اعتراف کرتے ہوئے پوچھا ۔
تمھیں نہیں معلوم ، بادشاہ کو تمھاری تلاش ہے ۔
کیوں میرا جرم کیا ہے ؟ یہی ناکہ بادزاہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے میں چپ چاپ دربار چھوڑدیا ۔ عاقل نے آزردگی سے کہا ۔
نہیں میرے دوست ! تمھارے اچانک بغیر بتائے دربار چھوڑدینے کی وجہ سے وزیر نے تم پر شاہی خزانے سے زور جواہر چوری کرکے فرار ہونے کا الزام لگایا ہے ۔میرے علاوہ بھی بادشاہ کے کئی کارندے تمھیں تلاش کررہے ہیں ۔ مجھے تو خاص طور پر بادشاہ سلامت نے حکم دیا ہے ، جب کہ میں تمھاری تلاش میں آنا نہیں چاہتا تھا ، کیوں کہ میں تمھیں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم سدا کے فضول خرچ ہومگر چور ہرگز نہیں ہو۔ وزیر تم پر چوری کا الزام لگا کر تمھیں بادشاہ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار کر ہمیشہ کے لیے تم سے نجات چاہتا ہے ۔ باقر نے اس کے تعاقب میں آنے کی اپنی مجبوری بیان کی ۔
عاقل نے جب یہ دیکھا کہ بادشاہ کے حکم کی وجہ سے باقر کسی صورت میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا تو اس نے باقر کو ایک قیمتی ہار دیتے ہوئے کہا : دیکھو ، یہ بادشاہ کی طرف سے ملنے والے انعام سے کہیں زیادہ قیمتی ہے ۔ یہ لے لواور مفت میں میرا خون اپنے سر نہ لو ۔
باقر نے ہار واپس کرتے ہوئے کہا : عاقل تم میرے ایک سوال کا جواب دو۔ میں نے ہمیشہ تمھیں فضول خرچیوں سے روکا،جب کہ تم نے ہمیشہ مجھے کنجوس ، تنگ دل اور لالچی سمجھا ۔ یہ بتاؤ تم مجھے اس ہار کی صورت کیا اپنی تمام جمع پونجی بخش رہے ہو ؟
نہیں ، ایک ہار اور بھی میرے پاس ہے ۔ عاقل یہ بتاتے ہوئے سوچ رہاتھا کہ اب باقر دوسرے ہار کا بھی مطالبہ کرے گا۔
باقر نے کہا : تم جانتے ہو کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ہرماہ بیس درہم اُجرت ملتی ہے اور اس ہار کی قیمت لاکھوں میں ہے ۔ اب تم اپنے مقابلے میں میری سخاوت دیکھو ۔ میں یہ ہار اور تمھاری جان تمھیں بخش کر واپس جارہاہوں ۔ میری دعا ہے ، جہاں رہو ، خوش رہو۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ زیادہ سخی کون ہے ؟ اور کیا میں کنجوس ، بخیل اور لالچی ہوں ۔
اتنا کہہ کر باقر نے گھوڑے کا رخ موڑا اور جدھر سے آیا تھا ، اسی طرف چلا گیا ۔