’’مما آج تو ہم باغ جائیں گے ناں ۔۔۔ ‘‘ چھ سالہ نینی نے ماکے پا س آکر لاڈ بھرے انداز میں کہا۔
’’ بالکل نینی! آج چونکہ موسم بھی اچھا ہو رہا ہے تو آج ہم ضرور چلیں گے باغ ۔۔۔۔‘‘ مسز وقار نے اسے مسکرا کر دیکھتے ہوئے کہا
’’مگر ۔۔۔‘‘ مسز وقار کہہ کر رکیں اور نینی منہ اٹھا کرسوالیہ انداز میں ماں کو دیکھنے لگی۔
’’ جانے سے پہلے آپ کو اپنا گھر کاکام مکمل کرنا ہو گا ‘‘ انہوں نے بات مکمل کی ۔
’’جی مما! میں اپنا کام ضرور پورا کر کے جاؤں گی ۔۔کیونکہ واپسی پر بہت تھکن ہو جائے گی پھر کام کرنے کو دل نہیں چاہے گا ناں ‘‘۔ نینی بڑوں کی طرح اپنی بات مکمل کی ۔
’’شاباش ! میری بیٹی تو بہت سمجھدار ہے ۔۔‘‘ مسز وقار نے محبت سے نینی کے ماتھے پر پیار اور کہا۔
نینی کا نام تو نائمہ تھا مگرسب پیار سے اسے نینی کہتے تھے عام بچوں کی طرح نینی کو چڑیا گھر جانے کی بجائے باغ میں جانا اچھا لگتا تھا ۔اور اس کی وجہ یہ تھی کہ نینی کو تتلیاں بہت اچھی لگتی تھیں جو کہ باغ میں وافر مقدار میں ہوتی تھیں۔مسز وقار کے چائے وغیرہ تیار کرنے تک نینی اپنا کام مکمل کر چکی تھی اور وقار ہاشمی بھی دفتر سے گھر آ چکے تھے ۔ چائے وغیرہ پینے کے بعد مسز وقار نے جلدی جلدی نینی اور راحم کو تیار کیا ۔راحم نینی کا چھوٹا بھائی تھا جو ابھی سکول نہیں جاتا تھا۔
باغ میں آتے ہی نینی تتلیوں کے پیچھے دوڑتی بھاگتی پھر رہی تھی۔ سرخ رنگ کے فراک میں وہ خود بھی کوئی تتلی ہی لگ رہی تھی۔نینی تتلیوں کے پیچھے اور ننھا راحم نینی کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا تھا۔نینی جس تتلی کو پکڑنے کی کوشش کرتی وہ جھٹ سے اڑ جاتی ۔مسز وقار اسے بار بار منع کر رہی تھیں کی تتلیاں پکڑنے کی کوشش نہ کرے وہ بہت نازک ہوتی ہیں ۔
’’ نینی تم تتلی نہیں پکڑو گی بیٹا ۔۔۔نہیں تو وہ کبھی اڑ نہیں سکے گی ۔۔۔‘‘ ۔
’’ مگر مما میں اسے بہت نرمی سے پکڑوں گی اور اس کے پر بھی نہیں توڑوں گی اور بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گی آپ فکر نہ کریں ۔۔‘‘
مما کی بات سن کر نینی نے کہا اور اگلی بات سنے بغیر ایک رنگ برنگی تتلی کے پیچھے دوڑ لگا دی ۔باغ میں اور بھی بہت سے بچے اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے رنگ برنگے پھول اپنے جوبن پہ تھے۔ سبزہ اور رنگ مل کر طبیعت پہ بہت اچھا اثر ڈال رہے تھے۔
وہ تتلی بہت ہی خوبصورت تھی ۔نینی نے آج سے پہلے اتنی پیار ی اوراتنے رنگوں والی تتلی نہیں دیکھی تھی۔ تتلی اڑتے اڑتے ایک پھولوں کے جھند پر بیٹھی۔ نینی بھی رک کر تتلی کو دیکھنے لگی۔تتلی پھولوں کا رس چوس کر اڑنے لگی تواچانک وہاں موجود ایک مکڑی کے جالے میں اس کے پر پھنس گئے ۔تتلی بری طرح سے پھڑپھڑائی مگر جالے میں سے نہ نکل سکی ۔نینی نے سوچا کہ تتلی کو جال سے آذاد کروائے مگر پھر اس نے سوچا یہ سنہرا موقع ہے تتلی کو پکڑنے کا اور آگے بڑھ کر تتلی کو نرمی کے ساتھ پروں سے پکڑ لیا وہ اسے تکلیف پہنچانا نہیں چاہتی تھی ۔ یونہی پکڑے پکڑ ے وہ اسے اپنی مما کے پاس لے آئی ۔
’’مما ۔۔۔۔راحم ۔۔۔دیکھیں ۔۔۔میں نے تتلی پکڑی ۔۔۔‘‘وہ جوش سے چلائی ۔
’’اوہ ہو۔۔۔۔نینی میں نے آپ کو منع کیا تھا بیٹاکہ تتلی کو نہیں پکڑنا ۔۔۔‘‘ مما نے خفگی سے نینی کو گھورا ۔
’’ مما دیکھیں ! میں نے اس کو بہت نرمی سے پکڑا ہے ۔۔۔میں نے اس کو مکڑی کے جال سے نکالا ہے۔بس آپ کو دکھانے کے لیے ادھر لے آئی ورنہ ادھر ہی چھوڑ دیتی۔۔۔‘‘ نینی سہمی سہمی آواز میں بولی اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ ہوا میں پھیلا کرتتلی کو چھوڑ دیا ۔مگر یہ کیا ؟ تتلی تو اڑنے کی بجائے زمین پر آگری تھی۔نینی نے حیرت سے ماں اور باپ کی طرف دیکھا ۔
’’میں نے اسے کچھ نہیں کہا مما بہت آرام سے پکڑا تھا ۔۔‘‘ وہ سہمی سہمی آواز میں بولی ۔
نینی کو خوفزدہ انداز میں زمین پراڑنے کی کوشش میں تڑپتی تتلی کودیکھتے دیکھ کر وقارہاشمی نے اس کا ہاتھ پکڑا اورسب باغ میں ایک سائیڈ پر پڑے بینچ پر آبیٹھے ۔
’’ بیٹا ! مجھے معلوم ہے آپ نے تتلی کو نہیں مارا مگر بیٹا تتلی بہت نازک ہوتی ہے ۔اس کے پروں پر جو رنگ ہوتے ہیں وہ اتنے گھنے ہوتے ہیں کہ ہوا ان میں سے نہیں گزر سکتی تو جب تتلی اپنے پروں کو ہوا میں پھڑپھڑاتی ہے تو اوپر اٹھی چلی جاتی ہے ۔ جب کوئی تتلی کو پکڑتا ہے تو اس کے وہ رنگ پکڑنے والے کے ہاتھوں کو لگ جاتے اور ہوا پروں کے درمیان سے گزرنے لگ جاتی ہے سو تتلی اڑ نہیں پاتی ۔اس کے پروں میں طاقت ان ہی رنگوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے سمجھایا۔
’’ یعنی بابا! ہم جو تتلی کے رنگوں کو بس اس کی خوبصورتی سمجھتے ہیں اصل میں اس کی طاقت بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘ نینی نے پر سوچ انداز میں کہا
’’ ہاں جی بیٹا ! اور مما بابا جو کہتے ہیں بس اس کام سے باز آجاتے ہیں ۔‘‘ مسز وقا ر نے کہا۔
’’جی مما وہ تو میں اب سمجھ گئی ہوں اور آپ سے سوری کرتی ہوں ۔‘‘ نینی شرمندہ لہجے میں بولی۔ننھا راحم بڑے غور سے سب کے چہرے دیکھ رہا تھا ۔نینی کے سوری کرنے پر مما نے اسے پیشانی پہ پیار کیا اور بابا نے آئسکریم والے کو آواز لگائی ۔