’’بریکنگ نیوز! نوجوان پاکستانی سائنسدان نے نیوٹن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ‘‘
کمال نے ٹی وی آن کیا تو سکرین پر بریکنگ نیوز دکھائی جارہی تھی۔ اتنے میں عمران اند ر داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔ اس کی نظر سکرین پر پڑی تو یکدم اس کے منہ سے نکلا۔
’’اوئے یہ تو جیدا ہے ! ہے ناں کمالے۔ دیکھ تو سہی۔‘‘ عمران کے لہجے میں جو ش ، حیرانی اور حسد سب کچھ تھا۔
کمال جو اب تک میٹریس پر ایک اور میلی سی چادر کھانے کے لیے بچھا چکا تھا، نے مڑ کر دیکھا۔
’’ہیں! اپنا جیدا! یہ کیسے؟؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’لو یارو! مٹھائی کھاؤ۔ میرا تو بندوبست ہوگیا دبئی جانے کا۔‘‘ عمران نے یہ کہہ کر مٹھائی کا ڈبا کھولا اور کمال اور جاوید کی جانب بڑھا دیا۔
’’کیوں بھئی! یہاں کیا مسئلہ ہے تمھیں۔ بارہ بجے تو تم سو کر اٹھتے ہو۔ وہاں کیا خواب دیکھنے کی نوکری ملی ہے؟‘‘
کمال نے پورا گلاب جامن منہ میں بھر لیا اور مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔
’’عمی! تمھیں یہاں بھی اچھی نوکری مل سکتی تھی۔اور نہیں تو اپنا کوئی کاروبار۔۔۔‘‘ جاوید سنجیدگی سے کہ رہا تھا لیکن عمران نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’ناں بھائی! تو ہی کر یہ چاٹ چھولے کا بزنس۔یار! تو نے ایم اے یہ چاٹ چھولے بیچنے کے لیے کیا تھا؟توبہ! میں تو کبھی یہ ریڑھی لے کر کھڑا نہ ہوں۔کیا سوچیں گے سب محلے والے۔‘‘ عمران نے منہ بناتے ہوئے جاوید کی چھوٹی سی ریڑھی کی طرف اشارہ کیا۔
’’یار! میں اپنا کماتا ہوں ۔ کسی پر بوجھ تو نہیں ہوں۔ پھر شام کو ٹیوشن پڑھاتا ہوں۔ اچھی گزر رہی ہے ۔تم بھی کوئی کام کر لو۔ لیکن تمھیں دبئی جانے کی کیا سوجھی۔ ‘‘ جاوید نے ہمیشہ کی طرح بالکل برا نہ منایا اور ہنستے ہوئے پوچھنے لگا۔
’’بس ! میرے ایک رشتہ کے ماموں وہاں ہوتے ہیں۔ انہی سے اماں نے بات کی تھی۔ ‘‘ عمران نے فخر سے بتایا۔
’’کمالے! تو بھی چل میرے ساتھ۔ دونوں بھائی عیش کریں گے۔ ‘‘
’’ہاں! یار! میرا بھی کوئی بندوبست ہو جائے تو کیا ہی بات ہے۔ میرا توخواب ہے دبئی! آہ! اتنی اتنی بڑی بلڈنگز ہیں وہاں! یہ بڑے بڑے پارک اور کھلی کھلی سڑکیں! اور یہاں کیا رکھا ہے۔ وہی بے روزگاری وہی گھروالوں اورمحلے والوں کے طعنے۔ سفارش کے بغیر تو نوکری کیا بات نہیں سنتا کوئی۔ ہونہہ! ‘‘ کمال نے جواب میں پوری تقریر جھاڑ دی۔
’’بس پھر ٹھیک ہے۔ میں کل ہی ماموں سے تیری بات کرتا ہوں۔ ‘‘ عمران کے لہجے میں جوش تھا۔
’’اچھا میں تو چلا لائبریری۔ تم لوگ اپنی پلاننگ کرو۔‘‘ جاوید نے ریڑھی کے نچلے خانے سے کتابیں اٹھائیں اور چل دیا۔
’’اف! ایک تو یہ جیدا اور اس کی کتابیں۔یار میں تجھے دو دہی بھلے کھلاؤں گا جس دن میں نے جیدے کے پاس کوئی کتاب نہ دیکھی۔‘‘ کمال نے کہا اور دونوں ہاتھ پر ہاتھ مارکر ہنس پڑے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’یار! ابھی بھی وقت ہے۔ سوچ لو۔ جو اپنے وطن کی بات ہے۔ وہ کہیں اور نہیں۔‘‘ جاوید نے ایک بار پھر سمجھایا۔
’’ارے یار! چھوڑ و بھی یہ باتیں۔ وطن نے ہمیں دیا ہی کیا ہے جو ہم اس کی قدر کریں۔ آخرکیا کریں یہاں رہ کر۔ آئے روز لوڈ شیڈنگ ، مہنگائی، بم دھماکے۔ اس سے تو بہتر ہے بندہ باہر ہی چلا جائے۔ کم از کم ان مصیبتوں سے تو جان چھوٹ جائے گی۔ ‘‘ کما ل جلے ہوئے لہجے میں کہتا جا رہا تھا۔ اس وقت وہ تینوں ایک ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔ٹی وی پر ایک اور بم دھماکے کی خبر نشر ہو رہی تھی۔
’’اف! کیا بنے گا پاکستان کا۔ دہشت گردی اس کو دیمک کی طرح کھا رہی ہے۔ ‘‘ جاوید تاسف سے کہنے لگا۔
’’یار! تو اپنی ادبی باتیں اپنے پاس رکھ۔ مجھے نہیں چاہیے وطن سے محبت پر لیکچر۔ مجھے نوکری چاہیے جو یہاں نہیں ہے۔ مجھے پیسہ کمانا ہے بہت سارا۔ یہاں کیا رکھا ہے۔ بندہ گھر میں گرمی سے مرتا ہے اور باہر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے۔بجلی گیس کے بل جب بھی آتے ہیں ابا میری بے روزگاری کا رونا لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ موبائل میرا دو بار چھن ہو چکا ہے اپنے ہی گھر کے سامنے سے۔ بس رہنے دے تو! ‘‘
عمران بے حد کڑوے لہجے میں کہتا ہوا اٹھا اور تیز قدموں سے ہوٹل سے باہر نکل گیا۔آج وہ کچھ زیادہ ہی مایوس تھا۔ کمال کے چہرے سے بھی بے زاری عیاں تھی۔ جاوید سوچ رہا تھا ۔ جن سے محبت ہوتی ہے ا ن کے مسئلے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے نہ کہ اسے چھوڑ کر کہیں دور جایا جاتا ہے۔ کیا ہوا جو پاکستان میں مشکلیں ہیں ۔ ہے تو اپنا گھر اور اپنے گھر کو کون برا کہتاہے چاہے کتنی بھی مشکلیں کیوں نہ آئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ ہی عرصے کمال اور عمران دبئی آ چکے تھے۔کفیل نے پہلے ہی دن انہیں نوکری پر بھیج دیا۔ نوکری کیا تھی، کنسٹرکشن کا کا نہ ختم ہونے والا کام تھا جو انہیں صبح سے شام ڈھلے تک کرنا تھا۔ مجال ہے جو ٹھیکیدار ایک منٹ کے لیے بھی بیٹھنے دے۔ پہلے ہی دن جوڑ جوڑ دکھنے لگا۔ پھرکئی روز اسی طرح گزرے۔
ایک دن کمال کہنے لگا۔’’عمی یار! تو نے تو کہا تھا ہوٹل میں مینجر کی نوکری ملے گی۔ یہ تو آگ اگلتی دھوپ میں ڈھورڈنگر کی طرح بس کام کام اور کام کرتے جاؤ۔ اوپر سے یہاں کی گرمی۔ اف! انڈہ بھی سڑک پر رکھو تو تل جائے گا۔ قسم سے میری تو ہمت جواب دے گئی ہے۔‘‘ وہ دکھتی کمر پر ہاتھ رکھے کہہ رہا تھا۔
’’ہاں وہ ماموں نے تو یہی بتایا تھا لیکن اصل میں ہمارے پاس بی اے کی ڈگر ی نہیں ہے۔ نہ ہی ہمیں کمپیوٹر آتا ہے۔ مینجر کے لیے تو کمالے! فر فر انگریزی بولنی پڑتی ہے۔ ‘‘
’’ہائے! یہ تو نے کدھر پھنسا دیا۔ ‘‘ کمال اب اپنی ٹانگیں دبا رہا تھا۔ اس نے عمران کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمال نے کپڑے آٹومیٹک مشین سے نکال کر بالٹی میں ڈالے اور گیلری میں آگیا۔ جھٹک جھٹک کر کپڑے پھیلاتے ہوئے اسے یکدم اماں یاد آگئیں۔ پتہ نہیں کیا کر رہی ہوں گی۔ ابھی فون کرتا ہوں۔ لیکن! پیکج ختم ہوا پڑا ہے۔ چلو! اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کمرے میں آگیا۔کمرہ کیا تھا پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں تھی۔ ایک دوسرے کے اوپر سے گزرنا پڑتا تھا ۔ پھر جس کو ٹھوکر لگ جاتی اس کی گالیاں بھی پڑتی تھیں۔ مویشیوں کی طرح رہنا پڑتا تھا ۔ جب مہینے کے آخر میں درہم ملتے تو کچھ دن کے لیے دل خوش ہو جاتا ۔ پھر وہی اداسی اور تھکن۔
’’بریکنگ نیوز! پاکستانی کم عمرسائنسدان نے نیوٹن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ ‘‘
عمران ٹی وی کے سامنے سکتے میں کھڑا تھا۔ کمال نے بھی دیکھا۔ جاوید کو سٹیج کی طرف بلایا جا رہا تھا جہاں اس نے ملک کے مشہور اور مایہ ناز پروفیسر اور سائنسدان سے میڈل موصول کیا۔
’’آپ اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے۔‘‘ اب میڈیا کے نمائندوں نے جاوید کو گھیر رکھا تھا۔
’’جی میں نے ایم اے کیا ہے اوراپنے محلے میں چاٹ چھولوں کی ریڑھی لگاتا ہوں۔ مجھے شروع سے فزکس میں دلچسپی تھی۔ پہلے محلے کی لائبریری سے کتابیں لے کر پڑھتا رہا پھر ایک بڑی لائبریری کی ممبر شپ مل گئی۔ پھر میں نے گھر میں ہی تجربے کرنا شروع کیے۔ ابھی جو میں نے پراجیکٹ بنایا ہے وہ۔۔ ‘‘ اب جاوید اپنی تحقیق تفصیل سے بتا رہا تھا۔
’’آپ پاکستان کے نوجوانوں کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟‘‘
’’جی میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اپنی صلاحیتیں پاکستان کے لیے استعمال کرنا چاہیئں۔ محنت اور مسقتل مزاجی کو اپنا دستور بنا نا چاہیے۔ اس وطن نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ اس سے محبت کرنا اور اس کو آگے لے کر جانا ہمارا فرض ہے۔
اگر ہم ہی اس کو چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جائیں گے تو کون اس کی ترقی میں ہاتھ بٹائے گا۔ ‘‘
یکدم عمران نے آگے بڑھ کر ٹی وی بند کر دیا۔ پھر وہ ڈھیلے ڈھالے انداز میں بستر پر بیٹھ گیا۔
’’عمی! یہ جیدا کہاں پہنچ گیا۔‘‘ تھوڑی دیر بعد کمال کی آواز آئی۔
’’ہوں!‘‘ عمران کسی گہری سوچ میں تھا۔
’’کمالے! واپس چلیں!‘‘ بڑی دیر بعدعمران نے سر اٹھایا اور کہا۔
’’کیوں؟‘‘ کمال حیران ہوا۔
’’یار! میں غلطی پر تھا۔ جیدا ٹھیک کہتا تھا۔ اپنا وطن اپنا ہی ہوتا ہے۔ یہاں تو ہر کوئی یوں دیکھتا ہے جیسے ابھی کھا جائے گا۔ قسم سے اپنی کوئی عزت ہی نہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے۔ میں نے ایڈوانس مانگ لیا تو اتنی گالیاں پڑیں کہ بس۔ یار بندہ بیماری بھی میں کام کرتا رہے اور یہ ایسا سلو ک کریں ۔ اس سے بہتر ہے بندہ روکھی سوکھی کھالے پر اپنوں میں تو رہے۔ سوچ رہا ہوں اپنا کوئی کام کر لیتے ہیں۔ دیکھ ! مجھے بہت اچھی سبزی بنانی آ گئی ہے اور تجھے۔۔۔‘‘
کمال نے اس کی بات کاٹ دی۔ ’’مجھے بہت اچھے برتن دھونے آگئے ہیں۔اب تقریر بند کر اور واپسی کا ٹکٹ کروا!! اپنا تو جسم جھلس گیا دھوپ میں کھڑے ہو ہو کر ‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی گیلی قمیص کو جھٹکا دیا تو چھینٹے اڑ کر عمران کے چہرے پر جا پڑے۔
’’ٹھہر تجھے بتاتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر وہ کمال کے پیچھے بھاگا۔ کمرے میں دونوں کی ہنسی گونج رہی تھی۔ اس ہنسی میں پچھتاوا بھی تھا اور واپسی کی خوشی بھی۔ ویسے بھی صبح کا بھولا شام کو گھر آجائے تو اسے بھولا نہیں کہتے!