پچھلے کچھ مہینوں میں مجھے کرسی پر نماز پڑھنے کی عادت سی ہوگئی۔ پہلے تو نمونیہ تھا اور گھٹنے کا درد جس کی وجہ سے کچھ ہفتے میں نے کرسی پر نماز پڑھی۔ لیکن پھر ایسی سستی غالب آئی کہ خدا پناہ! مسجد میں بھی جاتا تو پہلے کرسی اٹھا کر صف میں رکھتا پھر نماز شروع کرتا۔
اندر ہی اندر دل کہہ رہا ہوتا تھا کہ یار یہ ٹھیک نہیں کررہا میں۔ اب تو طاقت آ گئی ہے کھڑے ہو کر پڑھنے کے لیے۔ پھر بھی تو بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے۔ پھر دل خود ہی بہانے تراشنے لگتا کہ ہاں بس ابھی دوائی تو جاری ہے ناں۔ یہ نہ ہو کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھوں تو پھر درد نکل آئے۔
ضمیر کہتا۔ "کیوں کیوں؟ کیوں درد نکلے گا؟ جب آفس کی سیڑھیاں چڑھتے ہو تو درد نہیں نکلتا۔ جب اچھل اچھل کر بیڈمنٹن کھیلتے ہو تو کوئی درد ورد نہیں۔ بس یہ درد کی تلوار نماز ہی پر چلنی ہے کہ جیسے ہی نماز کا ٹائم آیا تو تم خود کو معذوروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔"
نفس پھر بہانے تراشتا۔ "ہاں تو ٹھیک ہے۔ کل سے کھڑے ہو کر پڑھوں گا نماز۔ہاں بس بہت ہو گیا۔"
لیکن یہ کل آ کر ہی نہیں دے رہی تھی۔ روز عزم کرتا کہ آج تو بس کھڑے ہو کر پڑھوں گا لیکن جب وضو کر کے مسجد پہنچتا تو پھر کرسی نظر آجاتی اور میں اندر سے ڈانواں ڈول ہوجاتا۔
اس دن میں عشاء پڑھ کر گھر آیا تو دل میں امام صاحب کی باتیں گونج رہی تھیں۔ آج انہوں نے نماز کے بعد والے چھوٹے سے خطاب میں تہجد کے فضائل بیان کیے تھے۔ خیر! میں اپنے کمرے میں آیا تو خوشگوار حیرت ہوئی۔
میری بیوی نے بیڈ کے ساتھ ہی خالی جگہ پر ایک چھوٹا سا قالین اور اس کے اوپر نئی جائے نماز بچھا رکھی تھی۔ ساتھ ہی میری نماز والی کرسی تھی۔ اللہ اسے خوش رکھے، کہنے لگی۔
" میں نے سوچا لاؤنج میں ٹھنڈ ہو گئی ہے تو نماز کی جگہ یہیں بنا دی ہے۔ پھر بچے کیسے کیسے جوتے لیے گھومتے ہیں۔ شک پڑا رہتا ہے ناں کہ پاک ہے یا ناپاک جگہ۔ بس میں بھی ادھر ہی نماز پڑھوں گی۔ آپ نے بھی گھر میں پڑھنی ہو یہاں پڑھ لیا کریں۔"
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا۔ چلو نئی نماز کا افتتاح کرتا ہوں اور تہجد کی نماز پڑھ لیتا ہوں۔ عادتاً کرسی رکھ کر نماز شروع کی تو اچانک دل میں آواز سی آئی۔
"کم بخت! دو رکعت ہی پڑھنی ہے ناں۔ یہ تو کھڑے ہو کر پڑھ لو۔" مجھے بڑی شرم آئی۔ میں نے کہا۔ اچھا ٹھیک ہے۔ تہجد کی نماز کھڑے ہو کر پڑھتا ہوں۔ شیطان کہتا رہا بیٹھ جا بیٹھ جا ۔ اف سجدہ کیسے کرے گا لیکن میں نے کھڑے ہو کر نیت باندھ لی۔
یقین کریں اتنا مزہ آیا اس نماز میں کہ میں بتا نہیں سکتا۔ یاد ہی نہیں رہا کہ میں تو گزشتہ کئی ماہ سے بیٹھ ہو کر نماز پڑھ رہا ہوں۔ بس عجیب سی مستی اور انرجی کی سی کیفیت میں میں نے نماز ختم کی۔ اور دعا مانگ کر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ پھر میں نے حیرت سے جائے نماز کو دیکھا۔
اچھا میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی ہے۔ آہا شاباش شاباش حامد تو تو شیطان سے جیت گیا۔ میں نے خود کو بڑی شاباش دی اس دن۔
بس بھائیو اور بہنو! اس دن سے میں نے کھڑے ہو کر تہجد پڑھنا شروع کی اور باقی نمازیں وہی کرسی پر۔ لیکن ایک ہفتے بعد کیا ہوا کہ دل میں عجیب سی طاقت آ گئی۔ دماغ پر جو ایک سستی کا جالا سا بنا ہوا تھا وہ ہٹ گیا۔ پھر بہت زیادہ جنگ نہیں کرنی پڑی اپنے آپ سے اور میں تہجد پڑھنے کے ایک ہفتے بعد خود بخود ہی کھڑے ہو نمازیں پڑھنے لگا۔
میں نے کرسی پر نماز اور کھڑےہو کر نماز پڑھنے میں بہت زیادہ فرق پایا۔ کرسی پر میں دوسری رکعت شروع کرتا تھا تو میری آنکھیں بند ہونے لگتی تھیں اور انجانی سی نیند اور سستی سے میرا دل بوجھل ہو جاتا تھا۔ پھر دماغ تک خون نہیں پہنچ پاتا جب آپ کرسی پر نماز پڑھتے ہیں۔ اور اگر آپ ایک دو مہینے لگاتار کرسی پر نماز پڑھیں تو آپ کی یاداشت اور نظر میں لازمی فرق آئے گا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے یہی بھول جاتا تھا کہ میں نے کل رات کیا کھایا تھا اور نماز کا حال تو نہ ہی پوچھیں۔ رکعتوں کی تعداد ہمیشہ میرے ذہن سے نکل جاتی تھی اور ہر نماز میں اینڈمیں سجدہ سہو کررہا ہوتا تھا۔ اچھا ہاں! ایک اور بات! پاؤں میں عجیب سی بے چینی شروع ہو جاتی تھی جیسے ان کا جو مقصد ہے وہ میں پورا نہیں کر رہا۔
اب سوچتا ہوں جو پیر آفس چلا جائے سیڑھیاں چڑھ کر، دکان سے سودا سلف پیدل لینے چلا جائے وہ نماز میں کیونکر برداشت کر سکتا ہے کہ اسے عضو معطل کی طرح بس ایک جگہ رکھ دیا جائے۔ جیسے ہی میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا شروع کرتا ساتھ ہی میں بے اختیار اپنے پاؤں بے چینی سے کبھی موڑتا کبھی سیدھا کرنے لگتا۔
میں نے دیکھا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے سےآپ کے اندر انرجی آتی ہے۔ ایسا لگتا ہے آپ نئے سرے سے زندہ ہو گئے ہوں اور رگ و پے میں سکون سا دوڑنے لگتا ہے۔ رکعتوں کی تعداد یاد رکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا خودبخود ذہن میں آرہا ہوتا ہے کہ اب میں نے دو پڑھ لی ہیں دو اور پڑھنی ہیں۔ کھڑے ہو نماز پڑھ کر لگتا ہے کہ ہاں اب میں نے واقعی نماز پڑھی ہے۔ بیٹھ کر مجھے لگتا تھا کہ میں نے نماز تو پڑھ لی ہے لیکن کوئی بہت زیادہ کمی سی چھوڑ دی ہے۔ خاص طور پر سجدہ۔۔ ہاں! سجدہ کرنے کا خاک مزہ نہیں آتا۔ اب میری کرسی مجھے دیکھتی رہتی ہے لیکن میں اس کو نہین دیکھتا۔ جی ہاں نظر اٹھا کر بھی نہیں۔ کیوں کہ مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں! الحمداللہ !
اللہ کا شکر ہےاللہ نے مجھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے اورپھر زمین پر ماتھا ٹیکنےکی توفیق دی۔ یقین کریں جتنا مزہ جتنا سکون جتنا اطمینان مجھے اب نماز پڑھنے میں آتا ہے پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس کی وجہ تہجد ہے۔ تہجد محبت کی نماز ہے۔ یہ آپ پر اللہ پاک نے فرض نہیں کی۔ یہ بس آپ کے اندر کی نماز ہے۔ آپ جب بھی تہجد پڑھیں گے اللہ کی محبت میں پڑھیں گے۔ اس کےلیے آپ کو مارے باندھے کھڑا نہیں ہونا پڑتا۔ تہجد پڑھنے کےلیے کسی کی ڈانٹ کسی کی مار نہیں چاہیے۔ اس کےلیے دل چاہیے۔ ایک محبت بھرا دل۔ ایک کریم رب کی محبت سے بھرا دل۔اگر آپ اپنا کوئی بھی بگڑا کام سنوارنا چاہتے ہیں چاہے وہ عبادت سے متعلق ہے یا دنیا کے معاملات سے متعلق۔۔ محبت کی نماز پڑھیں۔ دل کی نماز پڑھیں۔ تہجد پڑھیں ۔
میں آپ کو اپنے اندر آنے والی انرجی کی ایک اور وجہ بھی بتانا چاہتا ہوں۔ دیکھیں! یہ دنیا ہے اور ہمیں اس میں کچھ اسباب بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ میں نے گھٹنے کے درد کی وجہ سے چینی کھانا چھوڑ دی تھی کہ ایک جگہ پڑھا تھا کہ سفید چینی ہمارے جسم کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اب میں کئی مہینوں سے شکر لیتا ہوں وہ بھی گڑ کو پسوا کر۔ سفید شکر نہیں۔ پھر میں نے کسی کے کہنے پر زیتون کا تیل روز ایک چمچ پینا شروع کیا۔ یقین مانیں میرے جسم کا ہر جوڑ ایسا ہو گیا جیسے نئے سے سے بن گیا ہو اور اب میں اپنے اندر طاقت سی محسوس کرنے لگا ہوں جو اس عمر میں کم ہی نصیب ہوتی ہے۔ پھر ورزش شروع کی۔ ڈاکٹر نے گھٹنے کی ایکسرسائز بتائی تھیں۔ وہ کرتا تھا اور بس۔ لیکن پھر میں نے روز کی دوڑ لگانا شروع کی۔ شروع میں ایک آدھ کلو میٹر اور اب تو میں تیز قدموں سے کافی دور تک واک لگا کر آتا ہوں اور تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی۔ الحمدللہ
تو میرے پیارے بھائیو! بہنو! جسم کو فطری غذا اور فطری روٹین (ورزش اور جسمانی کام) پر واپس لے کر آئیں۔ اسی طرح روح کو میوزک اور ڈرامے دکھانے کی بجائے نماز قرآن کی تلاوت اور تہجد سے سکون پہنچائیں۔ یہی ہمارا دنیا میں آنے کا مقصد ہے اور جب ہم یہ مقصد پورا نہیں کرتے تو ہمارا جسم بھی بے چین رہتا ہے ہماری روح بھی۔
بدل کے بھیس پھر آتے ہیں ہر زمانے میں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہیں لات و منات
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات