عمارہ جلدی کرو! ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔ ہال دس بجے بند ہو جاتے ہیں آج کل اور تمھارا میک اپ ختم نہیں ہو رہا۔‘‘ زاہد صاحب جھنجھلاتے ہوئے بولے۔

’’جی بس ! ابھی آئی! ‘‘ عمارہ نے کوئی تیسری بار کہا۔ وہ اس وقت ڈریسنگ روم میں میک اپ کو فائنل ٹچ دے رہی تھی۔

’’ٹوں ٹوں! ‘‘ اتنے میں عمارہ کا موبائل بج اٹھا۔

’’عمارہ تمھارا موبائل۔۔‘‘ زاہد صاحب نے سائیڈ ٹیبل پر پڑ ا موبائل اٹھایا اور ڈریسنگ روم میں جانے لگے۔

’’آپ پڑھ لیں ناں۔ امی کا ہوگامیسج۔‘‘ عمارہ دوپٹے کوپنوں سے سیٹ کرتی ہوئی بولی تو زاہد صاحب میسج کھول کر پڑھنے لگے۔

’’Love You  Ammarah! I miss You so much. Nabeel.‘‘

’’عمارہ!‘‘ زاہد صاحب کے لہجے میں نہ جانے کیا کیا تھا کہ عمارہ کے ہاتھ جہاں تھے وہیں رک گئے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نبیل عمارہ کا تایا زاد کزن تھا اورشادی کے بعد ان دنوں نیا نیا دبئی آیا تھا۔ اتفاق سے اس کی بیوی کی نام بھی عمارہ تھا۔ دبئی سے ریگولر نمبر پر کال اور میسج بہت مہنگے پڑتے تھے سو کسی دوست کے کہنے پر نبیل نے  انٹرنیٹ میسج سروس کا سہارا لے لیا۔

اس دن اس نے میسجنگ ویب سائٹ میں پہلے عمارہ کا نمبر لکھا اور پھر میسج لکھ کر سینڈ پر کلک کر دیا۔ بعد میں نمبر دوبارہ چیک کیا تو پتہ لگا وہ اپنی بیوی عمارہ کی بجائے اپنی شادی شدہ کزن عمارہ کو سینڈ کر چکا ہے۔ 

دونوں نام ایک جیسے تھے سو نمبرز آگے پیچھے ہی save تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"زاہد بھائی!  آپ مجھے غلط مت سمجھیں۔ میں اپنی بیوی کو میسج کر رہا تھا۔ غلطی سے عمارہ بہن کو چلا گیا۔ آپ کو جو ذہنی تکلیف پہنچی میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔" 

نبیل بارہا کال کر کے معذرت کر چکا تھا لیکن زاہد صاحب کے دل میں جو شک اور غلط فہمی کا بیج بویا جا چکا تھا وہ نہ نکل سکا۔ پھر انہیں یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ پہلے عمارہ کا رشتہ نبیل سے ہی ہونے جا رہا تھا لیکن اس وقت نبیل کی بے روزگاری کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ یہ سب باتیں سوچ سوچ کر زاہد صاحب نے دل میں شک کے بیج کو تناور درخت بنا لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اچھا بیٹے  ۔ میں فون بند کرتا ہوں۔ آپ نے ضرور آنا ہے عید کے پہلے دن۔ ‘‘ یہ زاہد صاحب کے سسر تھے اورعید کی دعوت دے رہے تھے۔

’’جی انکل! ضرور۔ اللہ حافظ!‘‘

’’ہونہہ! بتا دو اپنے ابا جان  کو ۔ ہم نہیں آئیں گے۔ عین ٹائم پر بہانہ کر دینا کوئی نہ کوئی۔‘‘ زاہد صاحب نے عمارہ کو  کہا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔

’’لیکن کیوں ! میرے سب بہن بھائی اکھٹے ہوں گے  عید کا دن ہو گا اور آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔‘‘

’’تو وہ تمھارا کزن نبیل بھی تو آیا ہوا ہے۔ ہونہہ! دبئی ہی رہتا تو اچھا تھا۔ "

نبیل آج کل عید کی چھٹیوں  میں پاکستان  آیا ہوا تھا سو زاہد صاحب کا غصہ اور شک عروج پر تھا۔

"دیکھو بھئی! میں نے کہہ دیا ہے۔ ہم نہیں جائیں گے۔ تم جانو تمھارے اماں ابا جانیں۔مجھے سونے دو اب۔‘‘ زاہد صاحب نے حتمی لہجے میں بات ختم کر دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یہ کس کا نمبر ہے عمارہ!‘‘

جب سے میسج والی بات ہوئی تھی ، زاہد صاحب گھر آتے ہی عمارہ کاموبائل چیک کرتے اور پھر گاہے بگاہے چیک کرتے ہی رہتے۔

’’یہ میری سہیلی ہے نبیلہ۔ کل ہی پارک میں اس سے  ملاقات ہوئی  ہے۔ یہیں ساتھ والی گلی میں رہتی ہے۔‘‘

عمارہ اپنی دھن میں بتارہی تھی جب زاہد صاحب نے اس کی بات کاٹ دی۔

’’اچھا! تو اب نبیل صاحب کا نمبر نبیلہ کے نام سے سیو کر لیا ہے۔ میں ابھی اس نمبر پر کال  کرتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر زاہد صاحب نے نمبر ڈائل کر دیا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک زنانہ آواز ابھری۔

’’ہیلو! عمارہ! کیسی ہو۔‘‘

زاہد صاحب نے فون بند کر دیا اور اٹھ کرکمرے میں چلے گئے۔

عمارہ کی بے بسی کی انتہا نہ رہی۔ و ہ بھی پیچھے پیچھے چلی آئی اور کہنے لگی۔ 

’’زاہد! میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں نبیل میرے بھائیوں جیسا ہے۔ میری خالہ زاد بہن کا شوہر ہے وہ۔ پھر وہ کتنی بار بتا چکا ہے کہ غلطی سے میسج کر بیٹھا تھا۔‘‘

’’ عمارہ بیگم ! بس اب میرا منہ مت کھلواؤ۔ ہونہہ! اسی سے شادی کر لیتی۔ میری زندگی برباد کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘زاہد صاحب تیز لہجے میں کہتے چلے گئے۔

’’میرے اللہ! کتنا گھٹیا الزام لگاتے ہیں مجھ پر۔ ذرا بھی خیال نہیں آتا۔میں نے آج تک دل میں کسی غیر محرم کی محبت نہیں ڈالی۔کیسے یقین دلاؤں ان کو اپنی پاکدامنی کا۔  یا اللہ! میری  یہ آزمائش کب ختم ہو گی۔‘‘  عمارہ باتھ روم کی ٹھنڈی دیوار سے سر ٹکائے سوچتی رہی  اور آنسوؤں سے اس کا دوپٹہ تر ہو گیا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرتا رہا۔ تین پھول جیسے بچے بھی گھر کی رونق بن گئے۔ لیکن گزرتے ماہ و سال  بھی زاہد صاحب کے دل سے شک کے داغ نہ مٹا سکے۔ کوئی فنکشن ہوتا یا فوتگی۔ جہاں بھی نبیل کی آمد کی خبر ملتی یا ہلکی سی توقع بھی ہوتی تو زاہد صاحب نہ خود جاتے نہ عمارہ کو جانے دیتے۔ یہ تو شکر تھا کہ نبیل زیادہ تر جاب کے سلسلے میں دبئی ہوتا تھا۔ اس لیے کام چل جاتا تھا لیکن زاہد صاحب کی اس شکی طبیعت کی وجہ سے عمارہ کے اندر کی کیا حالت تھی۔ یہ وہی جانتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ کاش میں پھر سے چھوٹی سی بچی ہو جاؤں۔ نہ کوئی غم نہ دکھ!‘‘ عمارہ نے اپنے تینوں بچوں کو پارک میں کھیلتے دیکھا اور سوچنے لگی۔زاہد صاحب کے شک کی وجہ سے وہ اندر سے بے انتہا دکھی رہتی تھی۔

’’پتہ نہیں کب ان کا شک دور ہو گا۔ نبیل بھائی اتنی بار معذرت کر چکے ہیں۔ لیکن ان کا شک۔۔۔! شک ہی رہے گا۔آہ! کوئی یقین کر سکتا ہے کہ عمارہ پر ۔۔ تین بچوں کی ماں پر اس کا شوہر شک کرتا ہے۔ آہ! کب یقین آئے گا زاہد کو میری پاکدامنی کا۔ شکر ہے امی ابو کو نہیں معلوم ورنہ وہ جیتے جی مر جاتے۔ لیکن کیا میں زندہ ہوں؟ پتہ نہیں۔ آہ! اللہ ہی میر ا ساتھی و  نگہبان ہے۔‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’میں ترجمہ کے ساتھ قرآن اور تفسیر پڑھاتی ہوں۔ آپ بھی کسی دن ضرور آئیں۔‘‘ سامنے والے گھر میں نئے کرایہ دار آئے تھے۔ آج وہی خاتون عمارہ سے ملنے آئیں تو جاتے جاتے کہہ گئیں۔

’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لو۔بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ اس دن قرآن والی باجی سے ترجمہ پڑھتے پڑھتے جب یہ آیت نظر سے گزری تو عمارہ ٹھٹھک گئی۔ اسے  لگا یہ اسی کو کہا گیا ہے۔فرض نماز تو وہ پابندی سے پڑھتی تھی لیکن اپنے دکھ اور غم کا علاج نماز میں اسے پہلی بار نظر آیا تھا۔

گھرآ کر  عمارہ نے سارے کاموں سے فارغ ہو کر جائے نماز بچھائی اور نیت باندھ لی۔ تب  نہ جانے کتنے عرصے کی گھٹن آنسوؤں میں نکلنے لگی۔ نماز پڑھ کر ہٹی تو عمارہ کو کافی سکون ملا۔ آج محسوس ہو رہا تھاجیسے وہ اپنے غم میں اکیلی نہیں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے سارے دکھ شئیر کر لیے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’اے وہ لوگو جو ایمان لائے! بہت سے گمان سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔ ‘‘ (سورۃالحجرات)

’’جس نے کسی کے بارے میں ایسی بات کہی (تہمت لگائی) جو اس میں حقیقت میں تھی ہی نہیں ، تو اللہ اسے (تہمت لگانے والے کو) دوزخ کی پیپ میں ڈالے گا یہاں تک کہ اگر وہ اپنی اِس حرکت سے باز آ جائے (توبہ کر لے)۔‘‘ مسند احمد، 204/7))