بنگلہ دیشی رضاکار کی ڈائری - قسط (1)

’’ہو سکتا ہے اس میں کھانے پینے کا سامان ہو !‘‘

’’یا پھر کچھ اور۔۔‘‘

میں سوچتا جا رہا تھا ۔ وہ برمی مہاجر اب نزدیک آچکا تھا۔ اس کے کاندھے پر ایک لمبے ڈنڈے کے ساتھ بندھی بڑی سی ٹوکری تھی۔ یہ ٹوکری بانس کے ٹکڑوں سے بنی ہوئی تھی ۔ مہاجربڑی احتیاط سے  ٹوکری کو سنبھالے اونچے نیچے راستے پر چلتا آرہا تھا۔

’’آخر کیا ہے اس میں؟‘‘ میں نے الجھن سے سوچا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

’’آج مزید چار بچے فوت ہو گئے۔ ‘‘ ڈاکٹر مریم خیمے کا دروازہ اٹھاتے ہوئے اندر آئیں اور بولیں۔

’’اوہ!! انا للہ و اناالیہ راجعون۔ٹرک کب آئے گا سامان لے کر۔آج زیادہ دیر نہیں ہو گئی؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’نہیں! راستے میں بنگلہ دیشی پولیس نے روک لیا ہے۔ پتہ نہیں کب چھوڑتے ہیں اب۔‘‘

’’ہوں!‘‘ میرے منہ سے نکلا ۔

’’اچھا! میں آتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر میں خیمے سے نکل آیا۔

یہ بنگلہ دیشی سرحد کا مضافاتی علاقہ تھا۔ ہزاروں برمی مہاجرین روز یہاں پہنچ رہے تھے۔ ۔ ان سب کی آنکھوں میں خوف اور اپنوں کو کھو دینے کا دکھ مشترک تھا۔ سوکھے حلق اور پھٹی پھٹی آنکھوں والے چہروں کو آپ زیادہ دیر کیسے دیکھ سکتے ہیں؟    میں نظریں چراتا آگے بڑھتا رہا۔ کھلے آسمان کے نیچے بارشوں کا مقابلہ کرتے بوڑھے بچے عورتیں یہاں وہاں ڈیرہ جمائے پڑے تھے اور پتے کھانے پر مجبور تھے۔

بچپن میں میں نے ایک ٹھیلے پر کتاب دیکھی تھی۔ ’’چہرے بولتے ہیں۔‘‘ آج بولتے چہرے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ  لیے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے۔ کہاں ہیں ہمارے مسلمان بھائی اور بہنیں۔ کہاں ہے وہ مسلم حکمران جو ہماری حالت زار دیکھ کر بھی اپنے مسائل میں الجھے پڑے ہیں۔

ان میں اکثریت بیمار لوگوں کی تھی۔ مجھے ان کا علاج کرنا تھا۔ میں ان کے  صرف جسمانی زخموں پر مرہم لگانے کے قابل تھا۔ ان کی روحیں اندر سے گھائل تھیں۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ آئے تھے۔ نہ صرف اپنا گھر ،  کھیت کھلیان ، دکانیں کاروبار، اپنے لوگ اور ان کی جلتی لاشیں اور شاید اپنا آپ بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں تیز قدموں سے اپنی میز کی جانب بڑھ  رہاتھا  جب میں نے قطار میں  اسی برمی مہاجر کو دیکھا۔ اس کے کاندھے پر ابھی تک وہی ٹوکری تھی۔

’’لگتا ہے اس میں کوئی خزانہ ہے اس کا۔‘‘ میں نے دل میں سوچا۔

اگلے مریض کی باری آئی تو میں نے دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ ماتھے پر بھی چوٹ کا نشان تھا۔

’’یہ کیا ہوا؟‘‘

’’ہاتھ باندھے ہوئے کیوں ہیں؟‘‘

میں نے باربار پوچھالیکن وہ چپ چاپ مجھے گھورتا رہا۔ پھر اس کے ساتھی نے بتایا۔

’’اس کے  سامنے اس کی چاروں بہنوں کی اجتماعی عصمت دری کی گئی ہے۔ اس وقت سے یہ چپ ہے۔ جب بھی اس کے ہاتھ کھولو یہ پتھر پر اپنے ہاتھ زور زور سے مارتا ہے اور پھر اپنا سر ٹکرانے لگتا ہے۔ خدا کے لیے اس کو کوئی دوائی دو ڈاکٹر صاحب۔‘‘

ایک لمحے کے لیے میں ساکت رہ گیا۔پھر نسخہ لکھنے لگا اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ میرے ہاتھ کانپے ہوں۔اس کیمپ میں چپے چپے پر ایسی داستانیں بکھری پڑی تھیں۔

تھوڑی دیر بعد اس ٹوکری والے برمی مہاجر کی باری بھی آ گئی۔ اس کا نام عبدالمجید تھا۔ اس نے بڑی احتیاط سے ٹوکری اپنے کاندھے سے اتاری اور میرے میز پر رکھ دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’دودھ کب آئے ڈاکٹر صاحب! بچوں کا رو رو کربرا حال ہے۔جب سے پیدا ہوئے ہیں بھوکے ہیں صاحب! ماں زندہ رہ پاتی تو۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر عبدالمجید کی آواز رندھ گئی۔

’’دیکھو! ہم کوشش کر رہے ہیں۔پولیس نے ٹرک روک لیا ہے۔ جو سٹاک تھا سب تقسیم ہو گیا۔ تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ ‘‘

یہ سن کر اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی اور وہ ٹوکری اٹھا کر چلا گیا۔ بچوں کے رونے کی آواز اب مدھم ہو چکی تھی۔ شاید وہ رو رو کر تھک چکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کوئی تین بجے ٹرک پہنچا۔ میں نے جلدی جلدی دودھ کے ڈبے اٹھائے اور اس کے کیمپ کی طرف بھاگا۔

’’دودھ آگیا ہے!‘‘ میں نے کہااور جلدی سے جھانک کر اس بڑی سی ٹوکری میں دیکھا جو اب خالی  پڑی تھی۔  

’’بچے کہاں ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے  انگوٹھا چوستے دو نوزائیدہ بچےآ گئے ۔ دوپہر کو میں نےانہیں  اسی ٹوکری میں لیٹے دیکھا تھا۔

’’سو رہے ہیں صاحب۔ ‘‘وہ عجیب سے لہجے میں بولا۔

’’کہاں؟‘‘

اس نے ایک طرف اشارہ کیاجہاں چاند کی روشنی دو چھوٹی چھوٹی قبروں پر پڑ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واپس جاتے ہوئے  میں نے اسے غور سے دیکھا۔ ٹوکری اب اوندھے منہ پڑی تھی ۔ دودھ کے ڈبے اور کھانے پینے کا سامان اٹھانے کے باوجود عبدالمجید کے ہاتھ خالی خالی  لگ رہے تھے۔ پھر اس نے ایک جھٹکے سے سامان  دورپھینک دیا  اوردھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

میں وہ کس طرح سے کروں بیان
جو کیے گئے ہیں ستم یہاں
سُنے کون میری یہ داستان
کوئی ہم نشین ہے نہ راز دان

میں بتاؤں کیا مُجھے کیا ملے
مُجھے صبر ہی کا صِلہ ملے
کِسی یاد ہی کی رِدا ملے
کِسی درد ہی کا صِلہ ملے
کِسی غم کی دِل میں جگہ ملے
جو میرا ہے وہ مُجھے آ ملے
رہے شاد یُونہی میرا جہاں
کہ یقین میں بدلے میرا گُمان

میری ذات ذرّہ بے نشاں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تک کی رپورٹس کے مطابق تین لاکھ مسلمان مہاجرین بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں۔ ان میں ہزاروں بچے بھی ہیں جوبھوک سے بلبلا رہے ہیں۔ ان میں بیمار اور بوڑھے لوگ ہیں۔ زخمی خواتین جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کاش ہم اپنے آپ کو ایک  برمی مہاجر کی جگہ رکھ کر سوچ سکیں جس کا گھر بار جس کے سب اپنے چلے گئے  ہوں۔ جو ظلم و بربریت کا ایسا طوفان جھیل کر آیا ہو جس کا حال سننا اور دیکھنا حساس دل کے لیے مشکل ترین کام ہے۔ وہ ایک غیر جگہ پر خوف اور بے بسی کے عالم میں رہنے پر مجبو ر ہواوراس کے پاس بارش سے بچنے کے لیے نہ چھت ہو نہ سونے کے لیے بستر۔ کھانے کے لے پتے ہوں اور پینے کے لیے گدلا پانی۔ کیا اب بھی ہم اپنی زندگیوں میں مگن رہیں گے اور اپنے مسلمان بھائی بہنوں کی مدد نہیں کریں گے۔ آئیے! ان کا دکھ اور درد محسوس کریں اور ان کی امداد میں دن رات ایک کریں تاکہ  روز قیامت ہم سے سوال ہو تو کہہ سکیں کہ یا اللہ! ہم نے آپ کے نبی پاک کی امت کے مظلوموں کو یاد رکھا تھا۔ ہم نے  اپنی زندگیوں میں مگن رہ کر ان کوبھلایا تو نہیں تھابلکہ ہر ممکن مدد کر کے ان کے دکھ درد میں ان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا۔’’اے مخاطب! تو مومنوں کو آپس میں ایک دوسرے سے رحم کا معاملہ کرنے ایک دوسرے سے محبت و تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی و معاونت کا سلوک کرنے میں ایسا پائے گا جیسا کہ بدن کا حال ہے کہ جب بدن کا کوئی عضو دکھتا ہے تو بدن کے باقی اعضاء اس ایک عضو کی وجہ سے ایک دوسرے کو پکارتے ہیں اور بیداری و بخار کی تھکاوٹ و درد میں سارا جسم شریک رہتا ہے۔‘‘  (بخاری مسلم)