جب شجاع سے میری شادی ہوئی تو میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس میں بھی میں دوسروں کو قصور وار سمجھتی تھی۔ میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے گلے شکوے کرتی، بدگمان رہتی۔ میں نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ شجاع کے روپ میں کتنا اچھا شوہر دیا ہےاللہ نے ۔ یہ شجاع ہی تھا جس نے مجھے گھر دیا اور اپنی محبت دی ۔ مگر میں ان تمام نعمتوں پر غور کرنے کی بجائے گھر کے کام کاج کا بوجھ اور زندگی کی دیگر سہولیات کے نہ ہونے کا رونا روتی رہی۔ شجاع کئی بار مجھے پیار سے سمجھاتا، کبھی غصے میں آکر لڑائی شروع کردیتا۔ 

 

یونہی چار سال کا عرصہ گزر گیا۔ میں نے شجاع کو زندگی کا کوئی سکھ نہ دیا۔ہمیشہ اسے پریشان ہی رکھا۔ آخروہ  کب تک میری نا اہلیاں برداشت کرتا ۔ ایک دن وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ گھر کا چھ ماہ کا کرایہ اور اخراجات کے لئے کچھ رقم وہ مجھے دے گیا تھا۔  کہہ رہا تھا میں کچھ عرصے بعد واپس آجاؤں گا۔ لیکن مجھے اس کے انداز سے لگ نہیں رہا تھا کہ وہ کبھی واپس آئے گا ۔ میں چاہتی تو اسے روک لیتی۔ معافی مانگ لیتی جھکنا مجھے کب آتا تھا؟ حالات کی چکی میں پس کر بھی میری اکڑ نہ گئی تھی ۔

شجاع چلا گیا اور میں ایک بیزار اور بے مقصد سی زندگی گزارنے لگی۔کبھی کبھی میری چھوٹی بہن عائزہ مجھ سے ملنے آجاتی تھی ۔ 

ایسے ہی ایک دن جب میں بہت اکتائی ہوئی اور پریشان بیٹھی تھی کہ  عائزہ آگئی۔ میں اسے دیکھتے ہی رونے لگی، اپنے سارے دکھڑے اسے سنا ڈالے۔وہ مجھے چپ کراتی رہی تسلی دیتی رہی اور جب میں اس کے گلے سے لگ کر خوب جی بھر کے رو چکی تو مجھے کچھ قرار سا آگیا۔

ذہن بہت ہلکا پھلکا سا ہوگیا۔ پھر وہ خود ہی باورچی خانے میں جاکر اچھی سی چائے بنا کر لائی اور میرے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی۔ عائزہ مسکرا رہی تھی اسکے چہرے پر کتنی شگفتگی تھی، کتنی نرمی تھی ۔ اسکی آنکھوں سے اسکی باتوں سے، ہر ہر انداز سے میرے لئے محبت جھلک رہی تھی ۔ 

اور میں دل ہی دل میں شرمندہ ہورہی تھی۔ شادی سے پہلے میں اسے کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی، سیدھے منہ بات بھی نہ کرتی تھی۔ اسے امی  کی چمچی اور بوڑھی روح کہا کرتی تھی اور آج وہی بہن تھی جو بیٹھ کر میرے آنسو پونچھ رہی تھی ۔ 

مجھے زندگی کے نشیب و فراز سمجھا رہی تھی ۔ مجھے میری کمیوں کوتاہیوں کا احساس دلا رہی تھی ۔ دوپہر کو اس نے کھانا بھی خود ہی بنایا اور بڑی محبت سے اصرار کر کر کے مجھے کھلاتی رہی۔ کھانے کے بعد وہ ظہر کی نماز پڑھنے لگی۔ مجھے بھی کہا تو میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ کبھی بچپن میں نماز پڑھی تھی اس کے بعد تو کبھی خیال بھی نہ آیا تھا ۔  

عائزہ نماز ادا کر کے میرے قریب آئی اور بڑے دکھ سے بولی۔’’  فریحہ کیا ابھی بھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم اللہ کے سامنے جھک جاؤ۔ابھی اور کیا دیکھنا باقی ہے؟ ابھی بھی تمہیں عقل نہ آئی میری بہن۔‘‘اس نے اداسی سے کہا اور کمرے سے چلی گئی۔

میں سوچوں کے سمندر میں غرق ہو گئی ۔ میری نظر اپنی معصوم بچی پر پڑی، میری ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ اپنے باپ کی شفقت سے بھی محروم ہو گئی تھی۔

اور میں ایک بار پھر اپنی کم نصیبی پر رونے بیٹھ گئی،،،،،،  نہ جانے کیوں مجھے شجاع کی یاد آنے لگی۔ وہ تھا تو زندگی میں رنگ تھے خوبصورتی تھی، میں ہی ان چیزوں کو محسوس نہیں کرتی تھی۔شجاع جب تک میرے ساتھ تھا میں نے اس کی قدر نہیں کی اور آج جب وہ نہیں تھا تو مجھے اس کی بےحد یاد آرہی تھی، ابھی تھوڑی دیر پہلے میں اپنی بد نصیبی پر ماتم کناں تھی، اور اب میں شجاع کی یاد میں تڑپ رہی تھی۔ 

چاروں طرف فضا میں اداسی بکھر گئی 

تم کیا گئے کہ رونقِ شام و سحر گئی

آخر کیوں جانے دیا میں نے اسے، میں اسے واپس بلالونگی۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے سیل فون سے شجاع کا نمبر ملایا، مگر وہ نمبر اب رابطے میں نہ تھا۔ میرے دل کو ایک شدید دھچکا لگا۔ 

پانچ ماہ ہو چکے تھے شجاع کو گئے ہوئے اور مجھے آج اس کی یاد آئی تھی۔ کیا خبر اس نے میرے فون کا کتنا انتظار کیا ہو۔کہ میں اس سے معافی مانگ لونگی اسے واپس بلالونگی۔ 

مگر شاید وہ اب مجھ سے مایوس ہوچکا تھا، ہو سکتا ہے غصے میں آکر اس نے اپنا نمبر ہی بدل دیا ہو۔ 

اپنے گاؤں والے گھر کا پتہ تو اس نے مجھے کبھی دیا ہی نہ تھا ۔اور میں نے بھی کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی تھی، نہ ہی کبھی اس کے ساتھ جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ 

اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا سوائے انتظار کرنے کے۔ 

میں امی کے گھر چلی آئی۔ یہاں آکر دل تھوڑا سا بہلا لیکن میرے ساتھ جو ایک مسقتل اداسی اور پچھتاوا تھا وہ کم نہ ہو سکا۔مجھے شجاع کی بہت یاد آتی، دن میں کئی کئی بار اس کا نمبر ملاتی، مگر ہر بار مایوسی ہوتی۔

مجھے رہ رہ کر اپنی نادانیوں پر افسوس ہوتا مگر اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

کاش میں نے شجاع کی قدر کی ہوتی۔گھر کے کام کاج کو بوجھ نہ سمجھا ہوتا۔ بس انہیں سوچوں کے اردگرد میں گھومتی رہتی۔

ایک رات نیند نہیں آرہی تھی میں ٹی وی کھول کر بیٹھ گئی۔ کسی مشہور و معروف عالم دین کا بیان چل رہا تھا۔میں نہ چاہتے ہوئے بھی سننے لگی۔ تھوڑا سا سنا تو میری دلچسپی بڑھ گئی۔  بہت خوبصورت انداز بیاں تھا ا ن کا۔

’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انتظار کرتے ہیں اپنے بندوں کی توبہ کا، انکے لوٹ آنے کا۔‘‘ پھر انہوں نے بڑے ہی دل نشین انداز میں ایک حدیث سنائی جس میں ایک ایسے شخص کا ذکر تھا جو سفر میں ہو اور وہ ایک جنگل بیابان میں پہنچے اور تھوڑی دیر کو سستانے کے لئے آنکھ بند کرے تو اس کی سواری کا اونٹ کہیں کھو جائے جس پر سب سامان سفر لدا ہوا تھا، وہ شخص چاروں طرف اپنے اونٹ کو تلاش کرے اور جب نہ ملے تو تھک ہار کر مایوس ہوکر لیٹ جائے جس کے پاس نہ کھانے کو نہ پینے کو۔ایسے میں اس شخص کا اونٹ مع سامان کے اسکے سامنے آکھڑا ہو اور اس وقت جیسی ناقابل بیان خوشی اس شخص کو ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے اس سے  بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں ۔  عالم دین نے اور بھی بہت خوبصورت باتیں کیں اور میں بے اختیار تڑپ اٹھی۔ خوب سسک سسک کر روئی ۔ میرے رحیم میرے کریم اللہ۔ میں نے آپ کو پہچانا ہی نہیں، آپ اتنی محبت کرتے ہیں اپنے بندوں سے اور میں ہمیشہ یہی سمجھتی رہی کہ بس میرے گناہ مجھے جہنم رسید کرکے ہی چھوڑینگے۔  کبھی توبہ کا خیال بھی نہ آیا۔ 

میں روتے بے حال ہوگئی۔ بے اختیار سجدے میں گر پڑی، تڑپ تڑپ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہی۔رب کریم کو پکارتی رہی۔ 

اور پھر مجھے یوں لگا جیسے میں ایک بھاری بوجھ سے نجات پا گئی ہوں۔ میرا وجود ہلکا پھلکا ہوگیا۔ میرے رب نے مجھے اپنی آغوش رحمت میں لے لیا تھا ۔ مجھے اپنے اور اس کے درمیان ایک مضبوط تعلق کا احساس ہوا۔ 

اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے شجاع کھڑے تھے۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ کیا رب کسی کو اتنی جلدی بھی نواز سکتا ہے۔ کیا غلطیاں اتنی جلدی بھی معاف ہو سکتی ہیں۔

جب انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوجائے تو یہ اسکی زندگی کا ایک قیمتی لمحہ ہوتا ہے اور جب اسے بندے اور رب کے تعلق کی گہرائی کا احساس ہوجائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہے۔ مجھے لگا میرا رب مجھ سے کہہ رہا ہے میری بندی تو ہی مجھ سے منہ پھیرے پھرتی رہی، میں تو کب سے تیرے لوٹ آنے کے انتظار میں تھا۔