’’سنیں ! آج ڈاکٹر فردوس کے پاس جانا ہے۔ آپ کو یاد ہے ناں!‘‘ کوثر نے یاد کروایا۔

’’ہاں! یاد ہے جی! آپ کی کوئی بات میں کیسے بھول سکتا ہوں۔‘‘ حاشر نے مسکراتے ہوئے کہا۔

ان کی شادی کو چھ ماہ ہو چلے تھے۔ حاشر بے حد محبت کرنے والا اور بہت خیال رکھنے والا شوہر تھا۔ کوثر بھی اچھی بیوی کی ذمہ داریاں بہت اچھی طرح نبھا رہی تھی۔

شام کو ڈاکٹر فردوس سے واپسی پر حاشر کہنے لگا۔

’’بھئی یہ ڈاکٹر تو اچھی خاصی مہنگی ہے۔ صرف فلو کی دوائی وغیرہ کے لیے ہزار روپے لے لیے۔‘‘

 

’’او ہو! تو کیا ہوا۔ اتنے دنوں سے مجھے زکام لگاہوا تھا۔ ٹھیک ہی نہیں ہو رہا تھا۔ آنا تو ضروری تھا ناں! پھر ڈاکٹر فردوس ہماری فیملی ڈاکٹر ہے۔ بہت ماہر میڈیکل سپیلشٹ ہے۔ اتنی فیس تو بنتی ہے پھر۔ ‘‘ کوثرنے جواباً پوری تقریر ہی کر دی تو حاشر خاموش ہی رہا۔

پھر یہ تو آئے روز کا معمول بن گیا۔ کوثر ہر ایک چھوٹی سی بیماری کو بھی بہت محسوس کرتی تھی اورپھر اس کی ایک ہی خواہش ہوتی کہ  کسی اچھے ہسپتال اور بڑے ڈاکٹر سے چیک اپ کرایا جائے۔ حاشر نے پہلے پہل زیادہ محسوس نہیں کیا لیکن جب بجٹ کا ایک اچھا خاصا حصہ کوثر کی بیماریوں کے علاج پر خرچ ہونے لگا تو وہ بھی کچھ چڑ چڑا سا ہو جاتا۔

’’دیکھو  کوثر! تمھیں صرف کھانسی ہے۔ ہمدرد کی صدروی لے لو۔ شہد پر کالی مرچ یا پسی ہوئی دارچینی چھڑک کر لے لو۔ اس کےلیے ڈاکٹر احمد کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ حاشر اپنی اماں کے ٹوٹکے اسے بتاتا اور سمجھاتا۔

’’لو جی! آخر آپ تنگ آگئے ناں میرے سے۔ دیکھیں میری امی کہتی ہیں ذرا سی بیماری کو معمولی نہیں سمھنا چاہیے۔ پھر مجھے تو کھانسی ہے۔ کل کلاں ٹی بی ہو گئی تو آپ ذمہ دار ہوں گے۔ بس!‘‘ کوثر تیاری کرنے کے ساتھ ساتھ کہتی جاتی اور حاشر گاڑی کی چابی اٹھا کر نیچے چلاجاتا کہ  آخری حل کوثر کی بات ماننے میں ہی پوشیدہ تھا۔

’’دیکھو میں کیا لایا ہوں کوثر!‘‘ حاشر کی آواز آئی تو کوثر کچن سے نکل آئی۔ حاشر کے ہاتھ میں بڑے بڑے شاپر تھے۔ ’’یہ ہے ناظرین! آج  کا کھانا! بس تم جلدی سے آجاؤ۔ ‘‘ کوثر کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بہت دنوں بعد حاشر اپنے پہلے والے موڈ پر واپس آیا تھا۔

’’ٹھیک ہے ۔ میں آتی ہوں۔‘‘ اس نے کمرے میں جاکر الماری سے استری شدہ کپڑے نکالے ، تبدیل کیے اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی ہو گئی۔ لپ اسٹک اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو نظر دوائیوں کے ڈھیر پر پڑی جو ڈریسنگ ٹیبل پر یوں بکھرا ہوا تھا جیسے اس کمرے میں کوئی بہت ہی بیمار ضعیف بندہ رہتا ہو۔ ایک لمحے کے لیے کوثر کا دل کیا یہ ساری دوائیاں اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ اس کو معلوم ہو گیا تھا اصل اور دیرپا آرام حاشر کے بتائے ہوئے ٹوٹکوں سے ہی آتا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے مسئلوں کے گھریلو علاج سے کوئی سائیڈ افیکٹ بھی نہیں ہوتا تھا۔ اب وہ خراب گلے کے لیے بھاری بھرکم کیپوسل کھانے کی بجائے، چوری چپکے حاشر کی لائی ہوئی ہربل دوا استعمال کر لیتی تھی۔ لیکن حاشر کے سامنے یہ بات ماننے سے انا آڑے آتی تھی۔

’’یار! میں سوچ رہا ہوں آخری بار کوثر کو سمجھاؤں گا۔ میں اس کی آئے روز کی بیماریوں سے تنگ آچکا ہوں۔ ‘‘ وہ کمرے میں داخل ہوئی تو حاشر کھڑکی کے پاس کھڑا فون پر باتیں کر رہا تھا۔ کوثر کے قدم یکدم رک گئے۔

’’کیا مطلب آخری بار؟ ‘‘ حاشر کے دوست نے فکرمندی سے پوچھا۔

’’بس مطلب یہ  کہ میں کوثر کو اس کی امی کے گھر بھیج دوں گا۔ دیکھو یار! حد ہوتی ہے کسی بھی چیز کی۔ ہزاروں روپے صرف فلو اور کھانسی کے علاج میں اُڑ جاتے ہیں۔ پھر پٹرول اور آنے جانے کی کوفت الگ ۔ میں اتنی دوائیاں لا چکا ہوں کہ مجھے لگتا ہے میں خود بھی بیمار ہو جاؤں گا اب۔ کوثر ہے کہ سمجھتی ہی نہیں۔ اسے نہ بجٹ کی اونچ نیچ کا خیال ہے نہ میری صحت کا دھیان۔ اسے تو بس میڈیکل سپیلشت کے پاس جانا ہو تا ہے ہر آئے دن۔ ‘‘ حاشر دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔

کوثر کے تو جیسے کاٹو تو لہو نہیں۔پھر اس نے یکدم ایک فیصلہ کیا اور اس پر عمل بھی کر ڈالا۔

رات کو ایک خوشگوار کھانے کے بعد جب حاشر کمرے میں آیا ۔  وہ کوثر کو سمجھانے کے لیے لفظ ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل پر پڑی۔ وہاں جو روز رنگ برنگے کیپسول اور گولیوں کا ایک ڈھیر اس کا استقبال کرتا تھا اب اس کی جگہ رنگ برنگی لپ اسٹکس نے لے لی تھی۔

’’ارے واہ!‘‘ حاشر کے تنے ہوئے اعصاب یکدم ڈھیلے پڑنے لگے۔ یقیناً اس کے لیے  یہ ایک خوشگوار تبدیلی تھی۔

’’کوثر ! یہ۔۔ یہ دوائیاں کہاں گئیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’بس! میں نے الماری کے نچلے خانے میں رکھ دی ہیں۔ اب ضرورت نہیں۔ پہلے تو سوچا پھینک دوں لیکن پھر خیال آیا میرے پیارے میاں کی خون پسینے کی کمائی ہے۔ کیوں ضائع کروں۔ بس پھر ایمرجنسی کے لیے سنبھال کر رکھ دیں۔‘‘ کوثر نے شرماتے ہوئے کہا۔

’’یہ تم ہی ہوناں! میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔ ‘‘ حاشر نے خود کو چٹکی لی  تو کوثر ہنس پڑی۔

’’جی ہاں! میں ہی ہوں۔ اور مجھے کل ای این ٹی  ڈاکٹر ناصر کے پاس بھی   نہیں جانا۔ ‘‘

’’کیوں! تم نے آج ہی تو اپائینمنٹ لی ہے۔‘‘ حاشر آج بے ہوش ہونے کو تھا۔

’’بس! ایسے ہی۔ چھوڑیں اس بات کو۔ ‘‘ کوثر نے مسکراتے ہوئے کہا۔’’کل شام ہم گھومنے جا سکتے ہیں۔ میرا بہت دل کر رہا ہے۔‘‘

’’کیوں نہیں! خود میرا اتنے دنوں سے دل کر رہا تھا لیکن تم ۔۔۔۔ ‘‘ حاشر کہتے کہتے رک گیا۔

’’بیمارتھی۔۔ ہاں لیکن اب تو ٹھیک ہوں۔‘‘ کوثر نےجلدی سے کہا تو حاشر ہنس پڑا۔ وہ نہیں جانتا تھا کوثراب ہمیشہ کے لیے ٹھیک ہو گئی ہے  ..... اندر سے!