آئے رو ز کے شور شرابے سے میں تنگ آ گیا ہوں بیگم! شیخ راشد نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ تمہارے وعدوں نے مجھے مار دیا ہے۔ کب سے کہہ رہی ہو کہ کوئی نوکر رکھ کر مجھ سے اب گھر کا کام کاج نہیں ہوتا۔ بیگم نے تحکمانہ انداز میں جواب دیا۔ بس بس! سن لیا کون سا وعدہ؟ شیخ راشد بولے۔
وہ نوکر رکھنے کا وعدہ اور کیا؟ بیگم نے تنک کر کہا۔
اگلے روز شیخ راشد گھر میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ کوئی اجنبی لڑکا تھا۔ ان کی بیگم نے اس لڑکے کی طرف حیران ہو کر دیکھا اور کہا کہ یہ آپ کسے لے آئے ہیں ؟ خود ہی تو بیس پچیس دن سے کہہ رہی تھیں کہ گھر کے کام کاج کے لیے کوئی ملازم ہونا چاہیے۔ سو لے آیا ہوں۔ اب گھر کا سارا سامان اس سے منگوا لیا کریں۔
شیخ راشد نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔
لیکن یہ آپ کو ملا کہاں سے ؟ آج کل بھلا اس طرح کسی کو ملازم رکھا جا سکتا ہے؟ کل کلاں اگر یہ کوئی قیمتی چیز اڑا لے تو؟ بیگم نے برا سا منہ بنا تے ہوئے کہا۔
ایسا نہیں ہو گا بیگم! یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔ شیخ راشد مسکرا دیے۔ کون سے بازو؟ بیگم صاحبہ نے چونک کر پوچھا۔ میرا مطلب ہے میرا جبہ ہے میں کھرے کھوٹے میں فرق کر سکتا ہوں شیخ راشد نے نہایت تسلی سے جواب دیا۔
تو آپ تمیز کر چکے ہیں۔ بیگم کے لہجے میں حیرت تھی ہاں بالکل یہ شریف لڑکا ہے بازار میں خربوزے بیچ رہا تھا۔
میں نے سوچا ہمیں ضرورت تو ہے ہی یہ بھی خربوزے بیچنے کی مصیبت سے بچ جائے گا۔ اس سے بات کی تو یہ مان گیا سواسے گھر لے آیا۔
لیکن یہ خربوزے کیوں بیچ رہا تھا؟ بیگم نے پوچھا۔
حد ہو گئی! یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ حالات انسان سے کیا کچھ نہیں کراتے۔ شیخ اکرم نے کہا آخر تم کیا چاہتی ہو بیگم یہ اور کیا بیچتا۔ میں اطمینان چاہتی ہوں یا پھر میرا اطمینان کرا دیں۔ بیگم نے جواب دیا۔
آپ مجھے اطمینان کرا دیں گے کہ اگر یہ میرے زیورات لے اڑا تو ذمہ دار آ پ ہوں گے اور وہ چیز نئی خرید کر دیں گے۔
ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ یہ کہہ کر وہ اس کی جانب مڑے دیکھو زاہد تم یہ بات چیت سن ہی چکے ہو۔ اب یار مجھے بیگم کی نظروں میں شرمندہ نہ کرانا۔
جی اچھا… آپ فکر نہ کریں ۔ زاہد نے فورا ً کہا۔ فکر تو اب میں کروں گی بیگم صاحبہ نے منہ بنایا۔
میرا خیال ہے صاحب! میں ان حالات میں نہیں رہ سکتا۔ میرے لیے خربوزے ہی ٹھیک رہیں گے۔ زاہد نے قدرے پریشان ہو کر کہا غلط سمجھے شیخ راشد بولے۔ بیگم صاحبہ بس ظاہر میں سخت مزاج ہیں لیکن دل کی بہت اچھی ہیں۔ شیخ راشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
نہیں شیخ صاحب! بیگم صاحبہ مجھ پر اعتبار نہیں کر رہی ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر ایک کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا اچھا نہیں ہوتا۔ انسان میں عزت اور غیرت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ زاہد رکے بغیر بولے جا رہا تھا۔
تم تو برا مان گئے۔ شیخ راشد نے مسکراتے ہوئے مشفقانہ لہجے میں کہا میں نے آپ کو بتایا کہ بیگم صاحبہ دل کی بری نہیں ہیں۔ بس تھوڑی سی سخت گیر ضرور ہیں۔ شیخ راشد نے زاہد کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔
یہاں میرے ہوتے ہوئے تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی! شیخ راشد نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا۔
آخر زاہد مان گیا اوراس نے گھر کا کام کاج سنبھال لیا۔ اب اسے شیخ راشد کے گھر رہتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا۔ اس نے اس دوران اپنا اعتماد اچھی طرح جما لیا تھا۔ اب وہ لوگ اس پر اندھا اعتماد کرنے لگے تھے۔ کبھی کسی تقریب میں جانا ہوتا تو سارا گھر اس پر چھوڑ جاتے تھے۔
اور پھر ایسے میں ان کے گھر چوری کی واردات ہو گئی۔ ساتھ ہی زاہد بھی غائب تھا۔ اب تو شیخ راشد کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔
بیگم صاحبہ طنزیہ انداز میں بولیں۔ اب آپ کیا کہتے ہیں ؟ ک ک … کچھ نہیں۔ اب میں کیا کہوں گا۔ اس نے ٹھیک کہا تھا۔ میرے لیے خربوزے ہ ٹھیک رہیں گے۔ لیکن اب کیا ہو گا۔
شیخ راشد بولے۔
ہو گاکیا…پولیس کو تو بلانا ہی ہو گا۔ تمام زیورات غائب ہیں اور قیمتی چیزیں بھی جا چکی ہیں۔
آخر پولیس کو فون کیا گیا ایک گھنٹے کے بعد پولیس پارٹی وہاں پہنچ گئی۔ پولیس آفیسر نے بہت سے سوالات کے۔ شیخ راشد نے زاہد کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ خربوزے کے ذکر پر وہ چونکا آپ کا مطلب ہے وہ پہلے خربوزے بیچا کرتا تھا۔ ہاں جناب! شیخ راشد نے جواب دیا۔
اچھی بات ہے آپ فکر نہ کریں ہمیں چوروں کو پکڑنا آتا ہے۔ پولیس پارٹی چلی گئی۔ تین دن بعد پولیس آفیسر زاہد کو لیے ہوئے ان کے گھر آ پہنچا وہ زاہد کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ وہ بری طرح زخمی تھا۔ سارے جسم پر زخم ہی زخم تھے۔ گومڑ ہی گومڑ جسم پر کئی جگہ نظر آ رہے تھے۔ اوراس کے علاوہ بڑے بڑے نیل واضح تھے۔
یہ آپ نے اس کی کیا حالت بنا دی ہے اوراس قدر مار نے کی کیا ضرورت تھی۔ شیخ راشد نے پولیس انسپکٹر سے کہا۔
آپ کا خیال غلط ہے۔ یہ ہمیں اسی حالت میں شہر سے باہر سڑک کے کنارے پڑا ہوا ملا تھا۔ اس بے چارے نے چوری نہیں کی۔ بلکہ چوروں کا تعاقب کیا تھا۔ چور پیدل تھے۔ جب یہ ان کے پیچھے بھاگا تو وہ بھی بھاگنے لگے۔
آپ کی کوٹھی ہے بھی شہر کے کنارے پر۔ آس پاس کوئی پولیس چیک پوسٹ نہیں ہے۔ جہاں پولیس رات کے وقت نگرانی کرتی ہے لہٰذا یہ بھاگتے بھاگتے شہر سے باہر نکل گئے۔ بس وہاں رک کر چوروں نے زاہد کو خوب مارا اور چلتے بنے۔ ایک آدمی اسے بے ہوشی کے عالم میں اٹھا کر ہسپتال لے گیا۔ تین دن تک یہ بے ہوش رہا۔ ہوش آنے پر زاہد نے آپ کے بارے میں بتایا۔ پولیس کے ایک سپاہی نے مجھے اطلاع دی۔ اس طرح میں نے آپ کے پاس لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے وضاحت ک۔
اور چور… وہ کہاں گئے؟ شیخ راشد نے پوچھا۔ زاہد نے چوروں کے حلیے بتا دیے تھے۔ ہم ان حلیوں کے جرائم پیشہ لوگوں کو پہلے ہی سے جانتے تھے۔ بس پکڑے گئے سب کے سب اور میں آپ کا مال بھی لے آیا ہوں پولیس آفیسر نے کہا۔
ارے ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ پھر ان کے سر شرم کے مارے جھک گئے شیخ راشد نے کہا زاہد ہمیں معاف کر دو ہم نے تم پر شک کیا۔ زاہد نے کہا شیخ صاحب! منہ سے نکلی ہوئی بات کمان سے نکلا ہو ا تیر اور گزار وقت کبھی واپس نہیں آ سکتے۔ آپ نے مجھے غلط سمجھا۔ بیگم صاحبہ کی نظروں میں تو میں پہلے ہی مشکوک تھا۔ اب میرے اور آپ کے راستے جدا جدا ہیں۔ آپ کو تو اپنی دولت واپس مل گئی ہے لیکن میرے اعتماد کی دولت تو لٹ چکی ہے۔ اب میں آپ کے پاس کیس رہ سکتا ہوں ؟
شیخ راشد اور ان کی بیگم صاحبہ نے زاہد کی بہت منت سماجت کی لیکن وہ نہ مانا اور واپس جا کر خربوزے بیچنے لگا۔