انجانے نمبر سے آنے والی مسلسل کال سے وہ عاجز آگئی اور جھنجھلاتے ہوئے موبائل کان سے لگایا اور غصے سے بولی صائمہ یاسمین شوکت راولپنڈی
’’کون ہے؟‘‘
’’ اف مسلسل پندرہ منٹ سے ٹرائی کررہا ہوں۔ آخر بندہ فون آن کرکے معلوم تو کرسکتا ہے کہ دوسری طرف شاید کوئی مشکل میں ہو، کسی کو مدد کی ضرورت ہو، کوئی تُک ہے آخر! اتنا کٹھور پن بھی اچھا نہیں ہوتا۔‘‘ دوسری جانب کوئی بے تکان بولے چلے جارہا تھا۔
عریشہ کو تو گویا پتنگے لگ گئے۔’’ کیا۔۔۔کون بدتمیز ہو تم۔۔۔؟‘‘
’’ آپ کا دوست!‘‘ نہایت اطمینان سے جواب آیا۔
’’ بدتمیز بے حیا۔۔۔‘‘ عریشہ نے موبائل آف کردیا اور اپنی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔ کل اس کا کیمسٹری کا گرینڈ ٹیسٹ تھا۔ اور ابھی بہ مشکل اس نے ایک ہی سوال یاد کیا تھا کہ موبائل فون نے اسے تنگ کردیا۔ اسے مزید چار اسباق یاد کرنے تھے۔ لہٰذا تمام سوچوں کو جھٹک کر وہ اپنی پڑھائی میں مگن ہوگئی مگر موبائل کی میسج ٹون بج اٹھی۔ اس نے سبق یاد کرتے کرتے ہاتھ بڑھاکے موبائل اٹھایا....
اور میسج پڑھنے لگی۔’’ آپ کی آواز بہت سریلی اور خواب ناک ہے، یقیناًآپ بھی بے حد خوب صورت ہوں گی۔ آپ کا دوست‘‘
شرم اور غصے سے عریشہ لال پیلی ہوگئی اور دانت پیس کے رہ گئی۔’’اگر تم سامنے ہوتے تو میں تمہیں سمجھاتی کہ میں کس قدر خوب صورت ہوں۔ گھٹیا!‘‘
اس نے بڑابڑاتے ہوئے فون آف ہی کردیا۔ اور پھر سے پڑھائی میں محو ہوگئی۔ وہ ایسے لفنگوں سے اچھی طرح نبٹنا جانتی تھی ۔
مگر پھر یہ معمول بنتاگیا۔ جتنا وہ اس سے پیچھا چھڑاتی وہ اتنا ہی اس کے اعصاب پر سوار رہنے لگا۔ ہر پندرہ منٹ بعد اس کی کال آتی۔ پہلے پہل توو عریشہ نے اس کی کال کو ریسو نہیں کیا۔ دوسرے مرحلے میں فون آن کرکے اس کا بیلنس ضایع کرنا شروع کردیا۔ مگر اُدھر بھی کوئی ڈھیٹ سا ڈھیٹ تھا۔وہ باز نہ آیا۔ آخر کاراس ڈھیٹ نے آخری داؤ کھیلا۔ اس نے ایک دن ایک نہایت غمگین رومانوی میسیج اسے بھیجا اور آخر میں لکھا کہ میں کوئی فلرٹ بندہ نہیں ہوں، اگر تمہیں مجھ سے ایسی ہی نفرت ہے تو میں دل پر پتھر رکھ لوں گا اور دوبارہ تمہیں کال نہیں کروں گا۔
لڑکے کا داؤ چل گیا اور پہلی بار میسیج پڑھ کر عریشہ اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ لڑکے کی کال واقعی آنا بند ہو گئی تو عریشہ کو احساس ہوا کہ وہہ اب لاشعوری طور پر اس کی کال کا انتظار کرنے لگی ہے۔ لڑکے نے ایک ہفتہ صبر کیا اور اپنی کامیابی کا اندازہ کرنے کے لیے ایک ہفتہ بعد دوبارہ میسیج کیا کہ میں تم سے بات کیے بنا نہیں رہ سکتا۔ اس لیے دوبارہ کال کروں گا اگر تم ریسیو کرکے دو باتیں کر لیا کرو تو تمہاری ذرہ نوازی۔۔۔
پھر کیا تھا ،عریشہ شیشے میں اتر گئی اور اسے خبر بھی نہ ہوئی ۔ اس بار کال آئی تو اس نے جھٹ فون ریسیو کر لیا اور پھر اس نے بھی اعتراف کرلیاا کہ وہ بھی اس کے فون کا انتظار کرتی رہی ہے۔
رفتہ رفتہ ابلیس نے اپنا گھیرا تنگ کیا ۔ یہ موبائل پر ہونے والی دو باتیں بے حجابانہ گفتگو میں بدل گئی اور یوں پورا دن وقفے وقفے سے وہ اسے کالل کرتی یا وہ کال کرتا ۔ رات گئے تک موبائل کے پیکج سے فائدہ اٹھا کے خوب باتیں ہوتیں اور رنگین سپنے بُنے جاتے۔
جب عریشہ نے اپنی کالج کی سہیلی کو یہ داستانِ محبت سنائی تو وہ سرپیٹ کے رہ گئی۔
’’ عریشہ! تم پاگل تو نہیں ہوگئی۔ ان موبائل دوستیوں کے انجام کی خبر ہے تمہیں۔ کیوں خود کو برباد کرنے پر تلی ہو تمہاری منگنی تمہارے چچا زادد سے طے ہے۔ سال بعد تمہاری شادی ہے اور تم پھر بھی اس موبائل لفنگے کے ساتھ فلرٹ کررہی ہو۔ کیا ہوگیا ہے تمہیں ؟ان جھوٹے رشتوں پراعتماد مت کرو۔اپنی دنیامیں لوٹ آؤ۔ یہاں جو گیا بدنامی اور رسوائی اس کامقدر ٹھہری۔۔۔‘‘
عریشہ یوں بے خبر سنتی رہی گویا اس کی سہیلی نے فقط ہوا سے باتیں کی ہیں۔ بولی بھی تو یہ کہ ’’فاطمہ تم جانتی ہو میں نے اپنی زندگی میں کبھیی شکست نہیں دیکھی۔ اور لفظ نہ میری ڈکشنری میں تو گویا ہے ہی نہیں اور میرے چچا زاد فیصل کی پرسنالٹی کا تمہیں خوب علم ہے ۔۔۔خوا مخواہ ڈیسنٹ بننے کی ناکام کوشش چپ چپ رہنے والا بورنگ پرسن۔۔۔ میری عادت کا تمہیں علم ہے ،میں بولتی مینا اس خوف ناک جن کی قید میں مرجاؤں گی۔ میں تمہیں سعید سے ملواؤں گی۔ تم خود فیصلہ کرنا کہ وہ کیسا بندہ ہے، ٹھیک ہے؟‘‘ عریشہ نے گویا تمام معاملہ نمٹاتے ہوئے کہا۔
’’یہ سعید کون ہے؟‘‘ فاطمہ نے سوال کیا۔
’’ ارے بدھو! وہی میراموبائل فرینڈ۔‘‘عریشہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’ اچھا اچھا ہوگا کوئی اور مجھے اس سے ملنے کی کیا پڑی؟ تم پڑی ملتی رہو اور پھر بھگتو نتائج کو۔‘‘ فاطمہ نے آخری کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا بی اماں! اب چھوڑو اس موضوع کو ،میں خود ہی بھگت لوں گی۔ مجھے زوروں کی بھوک لگی ہے اب اٹھو ،کینٹین چلتے ہیں۔‘‘ عریشہ نےے باقاعدہ ہاتھ جوڑے۔
عریشہ احمد صغیر احمد کی چہیتی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ صغیر احمد کی سپر مارکیٹ میں الیکٹرونک کی چلتی ہوئی دکان تھی اور اس آمدنی سے ان کی گزر بسرر خاصی اچھی تھی۔ دولت کی ریل پیل تھی اور نوکر چاکر سب موجود تھے۔ صغیر صاحب کی کل کائنات دو بیٹیاں تھیں۔ بڑی بیٹی کی شادی ہوئے دو سال ہوچکے تھے۔ اس کی شادی کے بعد صغیر صاحب کی اہلیہ چل بسیں اور یوں اب ان کی تمام توجہ کا مرکز عریشہ تھی۔ جس سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ عریشہ سیکنڈ ائیر میں تھی۔ وہ بہت حسین اور تیز طرارتھی۔ آج تک اس نے کسی میدان میں کسی سے شکست نہ کھائی تھی۔ پڑھائی ہو یا کھیلوں کے مقابلے ہوں یا ڈرامے اور تقاریرہوں، ہمیشہ عریشہ نے پہلا انعام ہی جیتا تھا۔ ان تمام باتوں نے اس کے اندر انا اور غرورپیداکردیا تھا۔ سعید سے فرینڈ شپ کے بعد تو وہ اور نڈر اور بولڈہوگئی تھی۔ اس دن کے بعد سے فاطمہ نے بھی اسے سمجھانا چھوڑ دیاتھا۔ کیوں کہ بعض لوگ صرف وقت کے ہاتھوں نہ بھولنے والا سبق سیکھتے ہیں اور یہی کچھ عریشہ کے بھی مقدر میں تھا۔
آج کالج میں وہ بہت خوش خوش آئی تھی۔ اس سے اپنی خوشی سنبھالے نہ سنبھل رہی تھی۔ اس کی بیتاب نظریں فاطمہ کو ڈھونڈ رہی تھیںں مگراس دن فاطمہ نہ آئی۔ البتہ اس کی کال اور میسج آیا کہ آج اس کے گھر کچھ خاص مہمان آرہے ہیں۔ وہ کل آئے گی اور خوش خبری بھی سنائے گی۔ عریشہ مسکرائی۔
’’ تمہاری خوشی کی خبر سے زیادہ خوشی کی میرے پاس بھی ایک خبر تھی لیکن چلو کل ہی سنائیں گے۔ ‘‘
آج سعید اس سے ملنے آرہا تھا۔ اور اس کے بعد وہ اپنے والدین کو بھیجتالیکن تقدیر کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔
ابھی عریشہ نے تیسرا پیریڈ ہی دیا تھا کہ اس کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی ۔نمبر دیکھا تو گھر کا نمبر تھا۔ وہ حیران ہوئی اور باہر گراؤنڈ میں آگئی۔۔ موبائل آن کیا اور کہا :
’’جی پاپا؟‘‘
’’ عریشہ فوراً گھر آؤ۔‘‘ وہ حیران سی ہوئی۔
’’ہیں یہ پاپا کو کیا ہوا ؟بالکل اجنبی اور سنجیدہ لہجہ !خیر گھر چل کے پوچھوں گی وجہ۔‘‘ اس نے فوراً کالج سے باہر آکے رکشہ لیا اور گھر کا پتا بتا کرر سوچوں میں ڈوب گئی۔ رات سے سعید کا فون نہیں آیا تھا۔ ورنہ اب تک وہ میسج کر کرکے اسے تنگ کردیتا تھا۔ اس نے سعید کا نمبر ملایا تو خلاف توقع نمبر بند تھا۔ وہ مزید حیران ہوئی۔ ایسا آج پہلی مرتبہ ہوا تھا۔ ایک عجیب طرح کی پریشانی نے ایسے گھیرے میں لے لیا۔
اسے خبر نہیں تھی کہ کالی آندھیوں نے اس کا گھر دیکھ لیا ہے جوہر چیز کو بڑی تیزی سے اپنی لپیٹ میں لینے والی ہیں۔ آخر رکشہ اس کے گھر کےے سامنے رکا۔ وہ ادائیگی کرکے مین گیٹ کھول کے اندر کی جانب بڑھی۔ مگر دائیں طرف لان میں پاپا کے ساتھ کچھ پولیس آفیسرز کو دیکھ کر متعجب ہوئی۔پہلی بار اس کا دل عجب انداز میں دھڑکا۔ ضرور کوئی خاص بات تھی!
چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ ان کی جانب بڑھی۔ پاپا نے اسے قہر بھری نظروں سے دیکھا اور پولیس انسپکٹر سے گویا ہوئے۔
’’ یہ ہیں عریشہ احمد۔‘‘ پولیس انسپکٹرکی کھوجتی نظروں کی تاب نہ لا کر وہ سرجھکا کے رہ گئی۔
’’بیٹھو بی بی۔۔۔‘‘ اس نے پاپا کو دیکھا ۔
’’بیٹی پہ تم سے کچھ پوچھنے آئے ہیں صاف صاف بتانا۔ ‘‘صغیر صاحب کی آواز اسے کہیں دور سے آتی معلوم ہورہی تھی۔
’’ بی بی یہ انور سے آپ کی فرینڈ شپ کب سے چل رہی ہے؟‘‘ انسپکٹر نے جرح کی۔
’’ کون انور میں سمجھی نہیں؟‘‘ عریشہ کی حیرت عروج پر تھی۔
’’بھئی وہی جو پچھلے چند ماہ سے مسلسل آپ سے انگیج ہے۔‘‘
’’ لیکن میں تو انور نامی کسی ذات شریف کو نہیں جانتی۔‘‘
’’دیکھو بی بی! سچ سچ بتاؤ ورنہ ہمیں سچ اگلوانے کے اور بھی طریقے آتے ہیں۔ ‘‘انسپکٹر نے سخت لہجے میں کہا ۔
’’لیکن میں کسی انور کو جانتی ہی نہیں اور اگر جانتی بھی تو آپ سے مطلب کیا؟ موبائل فرینڈ شپ کے لیے آپ کی اجازت ضروی ہے کیا؟‘‘‘ عریشہ کو بھی غصہ آگیا تھا ۔
’’ دیکھو بی بی وہ انور کسی اور نام سے آپ کو کال کرتا رہا ہوگا۔ اوئے حوالدار ذرا نمبر ان کو دینا۔‘‘ اور ایک چٹ پہ لکھا نمبر اس کی طرف بڑھایا۔۔ عریشہ کی نظر گویا کاغذ کے پرزے سے چپک کے رہ گئی ۔’’یہ تو سعید کا۔۔۔ ‘‘عریشہ بولتے بولتے رکی۔
’’ہاں ہاں بی بی بولو۔ کیا نام بتایا اس نے تمہیں؟‘‘ انسپکٹر نے پوچھا۔
’’ س، س، سعید؟ ‘‘عریشہ گویا کسی اور سے مخاطب تھی۔
’’لکھ اوئے نام سعید ہے۔‘‘ انسپکٹر نے اپنے محرر کو حکم کیا۔
دیکھو بی بی یہ فراڈ یا پچھلے چار ماہ سے مفرور ہے اور ایک بڑی بینک ڈکیتی میں مطلوب ہے۔ کل اس کے اڈے پہ چھاپا پڑا ہے یہ تو مفرور ہوگیاا مگر اس کا موبائل اور کچھ ذاتی چیزیں ہمیں ہاتھ لگی ہیں۔ اور موبائل سم سے ہمیں یہ نمبرز ملے ہیں جن سے اس کا پچھلے چند ماہ سے مسلسل رابطہ ہے۔ اس رابطے میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ اب آپ بتائیے کیا ہم غلط جگہ پہ آئے ہیں۔ اس لیے اب آپ کو تھانے چلنا ہوگا اور اپنا بیان لکھوانا ہوگا۔ اور صغیر صاحب آپ بھی بغیر اطلاع دیے ملک یا شہر سے باہر نہیں جاسکتے جب تک وہ مفرور پکڑا نہیں جاتا۔ چلیے عریشہ بی بی!‘‘
عریشہ کی ٹانگوں نے اس کا بوجھ سہارنے سے انکار کردیا۔ وہ بے سدھ ہوکے کرسی پہ گرگئی مگر ابھی یہ ذلت تو کچھ نہ تھی۔ آگے اخبار والوں نےے جو افسانے تراشے وہ الگ دلدوز داستان تھی۔ تیسرے دن ان کے گھر کی گھنٹی بجی۔ ملازم نے گیٹ کھولا تو صغیر احمد کی بڑی بیٹی نجمہ اپنے بڑے سے سوٹ کیس سمیت ان کی دہلیز پار کررہی تھی۔ صغیر احمد ہکابکااسے دیکھ رہے تھے کہ وہ چیختی ہوئی گویا ہوئی۔
’’ پاپا میں لٹ گئی برباد ہوگئی، مدثر نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے۔۔۔ کہتاہے اس حرافہ کی بہن کو میں اپنے گھر نہیں رکھ سکتا ۔۔۔ عریشہ عریشہ توو مر کیوں نہ گئی، کاش تو پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی اور یہ دن ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ کاش کاش۔۔۔‘‘ نجمہ بین کرتے کرتے وہیں قالین پر ڈھیر ہوگئی۔
اب عریشہ تھی اور تھانے کے روزانہ چکر تھے۔ گندے سوالات تھے اور پاپا کی جھکی نظریں تھیں کہ انہوں نے جوان اولاد کو خصوصاً بیٹی ذات کوو خطرے میں دھکیلااور پلٹ کے خبر بھی نہ لی کہ بچی ہے ،کوئی بھی غلط قدم اٹھاسکتی ہے۔ ان کے لہو کی بوندبوند چیخ رہی تھی کہ یہ کیسی آزادی ہے جس نے ان کی عزت کاروبار اور ساکھ کو سوکھی لکڑیوں کی طرح آگ لگادی۔مگر انہیں یہ زہر عریشہ کے ساتھ اب خود بھی اس طرح پینا تھا کہ مرنا بھی نہیں تھا۔