کانٹوں کے بیج

(چوتھی قسط)
عائشہ کی امی رہنے کو ایک ہفتے کے لیے آئی تھیں لیکن بمشکل تین دن ہی رہ سکیں۔ زرینہ بیگم کا اکھڑا ہوا لہجہ ان کے لیے پریشان کن تھا۔ 
’’یہ تمھارے ساتھ کیسی ہیں؟ بلکہ یہ بتاؤ کہ اظہر کیسا ہے تمھارے ساتھ؟ مجھے تو فکر ہونے لگی ہے۔‘‘ آخر ایک دن عائشہ سے انہوں نے پوچھ ہی لیا۔ 
عائشہ نے پہلے تو پھرتی سے دروازہ بند کیا کیونکہ ساتھ ہی کچن تھا اور زرینہ بیگم کے کان بہت تیز تھے۔ کبھی تو وہ پاس بیٹھے محمود صاحب

کی آوا ز نہ پاتیں اور کبھی عائشہ اور اظہر کی سرگوشیاں بھی بخوبی سن لیتی تھیں۔ 

’’امی وہ آجکل آنٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی بس اس لیے چڑچڑی ہو رہی ہیں۔

اور اظہر تو بہت اچھے ہیں امی! آپ کو کیا بتاؤں۔‘‘ اظہر کے ذکر پر عائشہ نے شرماتے ہوئے کہا۔ 
الفت خاتون نے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھا۔ وہ دیکھ اور سمجھ چکی تھیں کہ زرینہ خالہ کا یہ رویہ وقتی نہیں تھا اور عائشہ اس کی عادی ہو گئی ہے لیکن پھر بھی اس نے کس طرح بڑے دل کے ساتھ ان کی طرف داری کی۔ پھر سارا دن ان کی نازوں پلی بیٹی کاموں میں لگی رہتی ۔ زرینہ خالہ کے ماتھے کے بل پھر بھی کم نہ ہوتے تھے۔ الفت خاتون کے آنکھوں میں آنسو آنے لگے ۔ 
’’میں سوچ رہی تھی عائشہ کو کچھ دنوں کے لیے اپنے ساتھ لے جاؤں۔‘‘ کھانے کی میز پر الفت خاتون نے کہا تو زرینہ خالہ تنک کر بولیں۔
’’کیوں؟ یہاں کیا ہے۔ یہ اس کا گھر ہے ۔ پھر آپ نے مل تو لیا اپنی بیٹی سے۔‘‘ 
اظہر اور محمود صاحب شرمندہ سے ہو گئے۔ 
’’بہن! آپ کی بات ٹھیک ہے۔ لیکن میں دیکھ رہی ہوں عائشہ کمزور ہو رہی ہے ۔۔‘‘ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ زرینہ بیگم گلاس پٹخ کر اٹھ کھڑی ہوئیں۔ 
’’تو آپ کہنا چاہتی ہیں کہ ہم آپ کی بیٹی سے کام کرواتے ہیں۔ اور کھانے پینے کو کچھ نہیں دیتے۔ اتنا ہی خیال تھا تو آپ لے آتیں ناں پنجیری ملائی گھی۔ توبہ بھئی! ہم نے تو ایسی بہوؤیں نہیں دیکھیں تو ماں کو ساس کے خلاف دو دنوں ہی میں بھڑکا دیں۔ ‘‘ یہ کہتے کہتے وہ کمرے میں چلی گئیں اور ٹھاہ کی آواز کے ساتھ دروازہ بند کر لیا۔ 
محمود صاحب اتنے شرمندہ تھے جس کی حد نہیں۔ پتہ نہیں کیسے انہوں نے الفت خاتون سے معذرت کی اور لاؤنج میں جاکر بیٹھ گئے۔ وہ دیکھ رہے تھے جب سے الفت خاتون آئی تھیں زرینہ بیگم بے حد بد اخلاق ہوتی جارہی تھیں۔ لیکن وہ کیا کر سکتے تھے؟ یہ سوچ کر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ شاید وہ بہت کچھ کر سکتے لیکن تب جب وہ دل سے سوچتے اور دل سے عائشہ کو بہو نہیں بیٹی سمجھتے۔ 
اظہر بھی چپ چپ تھا۔ رات گئے جب زرینہ بیگم نے کمرے کا دروازہ کھولا تو عائشہ نے جا کر بہت دیر تک ان سے اپنی ناکردہ غلطیوں معافی مانگی۔تب جا کر ا ن کے چہرے پر فاتحانہ سی مسکراہٹ ابھری لیکن بظاہر وہ کڑوا سا منہ بنا کر عائشہ کے پاس سے گزر گئیں۔ 
ابھی عائشہ کو الفت خاتون کے سامنے بھی وضاحتیں پیش کرنی تھیں کہ چونکہ اس کی ساس کا بی پی ہائی ہو گیا تھا اس لیے وہ کچھ بدمزاجی کا مظاہرہ کر گئیں۔ لیکن الفت خاتون جہاندیدہ عورت تھیں ۔ سمجھ گئیں کہ بیٹی کن لوگوں کو دے چکی ہیں یعنی بہت بڑی غلطی کر چکی ہیں۔ اب ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ 
صبح صبح ٹیکسی آ گئی۔ آٹھ بجے کی گاڑی تھی۔ جب الفت خاتون سب سے ہاتھ ملا کر زرینہ خالہ کی طرف مڑیں تو زرینہ خالہ کی آنکھوں کی مکارانہ چمک ان کی نظروں سے اوجھل نہ رہ سکی۔ لیکن وہ کیا کر سکتی تھیں۔ جب انہوں نے پاس کھڑی عائشہ کو گلے سے لگایا تو ان کا دل بھر آیا۔ وہ تو نہ جانے کتنی دیر تک بیٹی کو گلے سے لگائے کھڑی رہتیں جب اظہر نے کہا کہ دیر ہو رہی ہے۔ گاڑی نہ چھوٹ جائے۔ 
عائشہ نے دیکھا الفت خاتون ٹیکسی میں بیٹھ چکی تھیں ۔ اس کا دل چاپا وہ بھی جلدی سے جا کر امی کےساتھ بیٹھ جائے اور اس گھر میں چلی جائے جہاں نہ بدگمانیاں و تلخیاں تھیں نہ جھوٹ اور مکر و فریب۔اور جہاں نہ گئے ہوئے اسے سال ہونے کو تھا۔ 
وہ بوجھل قدموں سے اپنے کمرے میں آگئی۔ سر نہ جانے کیوں بہت چکرا رہا تھا۔ رات بھی لیٹ سوئی تھی شاید اس لیے۔ اس نے بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائی۔
’’عائشہ ! عبداللہ مسلسل رو رہا ہے۔ کیا کر رہی ہو؟‘‘ اظہر کہتا کہتا اندر داخل ہوا تو یکدم اس کا دل دہل گیا۔ عائشہ کا سر ایک جانبڈھلکا ہوا تھا۔

(جاری ہے)