شمارہ نمبر 26

خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضى اللہ عنہ کا تعلق قریش کے معزز قبیلے سے تھا۔ والد عفان کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ سلسلہ نسب عبد المناف پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے ۔ سیدناعثمان ذوالنورین رضى اللہ عنہ کی نانی نبی پاک کی پھوپھی تھیں۔

آپ رضى اللہ عنہ کا نام عثمان اور لقب ” ذوالنورین “ ہے۔اسلام قبول کرنے والوں میں آپ رضى اللہ عنہ ” السابقون الاولون “ کی فہرست میں شامل تھے، آپ رضى اللہ عنہ نے خلیفہ اول سیدنا سیدناابوبکر صدیق رضى اللہ عنہ کی دعوت پر اسلام قبول کیا تھا۔ طبقات ابن سعد کے مطابق آپ رضى اللہ عنہ نے چوتھے نمبر پر اسلام قبول کیا ۔ رسولِ اکرم صلى اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور کلمہ حق پڑھنے کے جرم میں سیدناعثمان غنی رضى اللہ عنہ کو ان کے چچا حکم بن ابی العاص نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ کر دھوپ میں ڈال دیا، کئی روز تک علیحدہ مکان میں بند رکھا گیا، چچا نے آپ رضى اللہ عنہ سے کہا کہ جب تک تم نئے مذہب (اسلام ) کو نہیں چھوڑو گے آزاد نہیں کروں گا۔ یہ سن کر آپ رضى اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ چچا ! اللہ کی قسم میں مذہب اسلام کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا اور اس ایمان کی دولت سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گا۔

 

سیدناعثمان غنی رضى اللہ عنہ اعلی سیرت و کردار کے ساتھ ثروت و سخاوت میں بھی مشہور تھے ۔

رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت میں ہرنبی کا ساتھی و رفیق ہوتاہے میرا ساتھی ”عثمان “ رضى اللہ عنہ ہوگا۔

سیدناعثمان رضى اللہ عنہ کے دائرہ اسلام میں آنے کے بعد نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے کچھ عرصہ بعد اپنی صاحب زادی سیدہ رقیہ رضى اللہ عنہا کا نکاح آپ سے کردیا۔ جب کفار مکہ کی اذیتوں سے تنگ آکر مسلمانوں نے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی اجازت اور حکم الہی کے مطابق ہجرت حبشہ کی تو سیدناعثمان رضى اللہ عنہ بھی مع اپنی اہلیہ سیدہ رقیہ رضى اللہ عنہا حبشہ ہجرت فرماگئے، مگر جب یہ غلط افواہ پھیلی کہ کفار قریش مسلمان ہوگئے ہیں اور حالات سازگار ہوگئے ہیں تو دوسرے مسلمانوں کی طرح سیدناعثمان غنی رضى اللہ عنہ بھی واپس آگئے ۔

جب ہجرت مدینہ کا حکم ہوا تو سیدناعثمان رضى اللہ عنہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے گئے،و ہاں بھی آپ رضى اللہ عنہ نے تجارت کی اور کامیاب تاجر ثابت ہوے۔ ان دنوں مدینہ منورہ میں پانی کی قلت تھی جس پر سیدناعثمان رضى اللہ عنہ نے نبی پاک ا کی اجازت سے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے ليے وقف فرمایا۔ غزوئہ بدر میں سیدنارقیہ رضى اللہ عنہا کی علالت کے سبب نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے نہ جاسکے ۔ غزوئہ احد اور خندق میں شریک ہوے ۔ جب سیدہ رقیہ رضى اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو پیارے آقا صلى اللہ علیہ وسلم نے دوسری صاحبزادی سیدہ ام کلثوم رضى اللہ عنہا کوآپ کی زوجیت میں دے دی۔ اس طرح آپ رضى اللہ عنہ کا لقب ” ذوالنورین“ یعنی دو نور والے معروف ہوا۔

جب رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے زیارت خانہ کعبہ کا ارادہ فرمایا تو حدیبیہ کے مقام پر یہ علم ہواکہ قریش مکہ آمادہ جنگ ہیں ۔ اس پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے سیدناعثمان غنی رضى اللہ عنہ کو سفیر بنا کر مکہ بھیجا۔ قریش مکہ نے سیدناعثمان رضى اللہ عنہ کو روکے رکھا تو افواہ پھیل گئی کہ سیدناعثمان غنی رضى اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا ہے ۔ اس موقع پر چودہ سو صحابہ رضى اللہ عنہم سے نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے بیعت لی کہ سیدناعثمان رضى اللہ عنہ کا قصاص لیا جائے گا ۔ یہ بیعت تاریخ اسلام میں ” بیعت رضوان “ کے نام سے معروف ہے ۔ قریش مکہ کو جب صحیح صورت حال کا علم ہوا تو آمادئہ صلح ہوگئے اور سیدناعثمان رضى اللہ عنہ واپس آگئے۔
رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم کے ” خطبہ حجہ الوداع “ کے موقع پر سیدناعثمان رضى اللہ عنہ آپکے ہمراہ تھے۔
آپ رضی اللہ عنہ خلیفہ اول سیدناابوبکر صدیق رضى اللہ عنہ کی مجلس مشاورت کے اہم رکن تھے ۔ سیدناعمر رضى اللہ عنہ کی خلافت کا وصیت نامہ آپ رضى اللہ عنہ نے ہی تحریر فرمایا۔

دینی معاملات پر آپ رضى اللہ عنہ کی رہنمائی کو پوری اہمیت دی جاتی ۔ سیدناعثمان رضى اللہ عنہ صرف کاتب وحی ہی نہیں تھے بلکہ قرآن مجید آپ کے سینے میں محفوظ تھا۔ آیات قرآنی کے شان نزول سے خوب واقف تھے ۔ بطور تاجر دیانت و امانت آپ کا طرئہ امتیاز تھا۔ نرم خو تھے اور فکر آخرت ہر دم پیش نظر رکھتے تھے۔

نبی پاک صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے عثمان رضى اللہ عنہ کی حیا سے فرشتے بھی شرماتے ہیں ، تبلیغ و اشاعت اسلام کے ليے فراخ دلی سے دولت صرف فرماتے۔
عام طور پر دن کو روزہ رکھتے، رات ریاضت و عبادت میں گزارتے ۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے ۔ یتیموں، بیواﺅں اور مسکینوں کی مسلسل خبر گیری فرماتے ۔

ابن عساکر نے زید بن ثابت رضى اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنسیدناصلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”میرے پاس سے جب عثمان رضى اللہ عنہ گزرے تو میرے پاس فرشتہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس فرشتہ نے کہا کہ یہ شہید ہیں ان کو قوم شہید کر دے گی مجھے ان سے شرم آتی ہے“ ۔ ام المومنین سیدناعائشہ رضى اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب سیدناعثمان رضى اللہ عنہ ہمارے پاس آتے تو اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم اپنے لباس کو درست فرمالیتے اور فرماتے تھے کہ اس سے کس طرح شرم نہ کروں جس سے فرشتے بھی شرم کرتے ہیں ۔

آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عثمان رضى اللہ عنہ اللہ تعالی تجھے خلافت کی قمیص پہنائیں گے ، جب منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں تو اسے مت اتارنا یہاں تک کہ تم مجھے آملو۔ چنانچہ جس روز آپ رضى اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ رضى اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے حضور صلى اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا تھا ( کہ منافق خلافت کی قمیص اتارنے کی کوشش کریں گے تم نہ اتارنا ) اس ليے میں اس پر قائم ہوں اور صبر کر رہا ہوں ۔

35ھ میں ذی قعدہ کے عشرہ میں باغیوں نے سیدناعثمان ذوالنورین کے گھر کا محاصرہ کیا اور آپ رضى اللہ عنہ نے صبر اوراستقامت کا دامن نہیں چھوڑا ،صحیح بخاری میں آپکی شہادت کا واقعہ تفصیل کے ساتھ موجود ہے، محاصرہ کے دوران آپ رضى اللہ عنہ کا کھانا اور پانی بند کردیاگیا تقریبا چالیس روز بھوکے پیاسے82سالہ مظلوم مدینہ سیدناعثمان ذوالنورین کو جمعة المبارک 18ذو الحجہ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ روزہ کی حالت میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوے ظالموں نے شہید کردیا گیا ، اسلامی تاریخ میں آپ کی شہادت کو انتہائی معصوم و مظلوم شہادت کے نام سے جانا جاتا ہے ، شہادت سے کچھ پہلے آپ رضی اللہ عنہ کو خواب میں رسول ِ اکرم کی زیارت بھی ہوئی۔

اﷲ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے ، اور امت ِ مسلمہ کو آپکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔