زرینہ بیگم کچھ دن تو غصے میں رہیں لیکن جب عائشہ کے نہ ہونے سے گھر کے سارے کے سارے کام ان کے ذمہ آپڑے تو وہ مزید چڑچڑی ہو گئیں۔
’’نازیہ نیچے آجایا کرو کبھی۔ ہانڈی میں نے چڑھا دی ہے۔ روٹی تم نے پکانی ہے اب۔ ‘‘ انہوں نے نازیہ کو غصے سے آواز دی۔ وہ بھول گئی تھیں کہ یہ وہی نازیہ تھی جس کو انہوں نے خود کمرے میں بیٹھے رہنے اور سستی کی عادت ڈالی تھی ۔ آخر بہو جو تھی سب کاموں کے لیے اور وہ نہیں چاہتی تھیں ان کی نازوں پلی کچن کی گرمی برداشت کرے۔
لیکن اب معاملہ کچھ اور تھا۔
’’امی! میں بزی ہوں۔ بتایا تو تھا آپ کو ۔ کل سے میرے مڈٹرم شروع ہو رہے ہیں۔ پھر جمیرے سے گرمی میں توے کے آگے نہیں کھڑا جاتا۔ روٹیاں منگوا لیں ناں۔‘‘ نازیہ نے نیچے آنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی اور اوپر کھڑکی سے ہی صاف انکار کے ساتھ مفت مشورہ بھی دے ڈالا۔
جب سے عائشہ گئی تھی دو ہفتے سے روٹیاں باہر سے ہی آرہی تھیں۔ کل رات محمود صاحب نے صاف کہ دیا تھا۔ ’’بھئی میں ربڑ جیسے نان میں کب تک کھاؤں گا؟ بیگم! کل سے گھر میں ہی روٹی بنانا شروع کرو۔‘‘ اظہر نے بھی ہاں میں ہاں ملا دی۔ زرینہ بیگم سوچتی رہ گئیں۔
اظہر جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا گیلا تولیہ پاؤں سے ٹکرا گیا۔ اس نے جھک کر تولیہ اٹھایا تو بیڈ کے نیچے پڑی ہوئی جرابوں کی بدبو سے ناک جھنجھنا کر رہ گئی۔ اس نےتولیہ اٹھا کرساتھ رکھی کرسی پر پٹخ دیا اور گرنے کےسے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گیا۔ابھی تک تو وہ زرینہ بیگم کی دی ہوئی ہدایات پر عمل کر رہا تھا۔ عائشہ کی ایک بھی کال اس نے ریسیو نہ کی تھی اور نہ ہی کسی میسج کا جواب دیا تھا۔صبح آفس کے لیے کپڑے نازیہ کو دینے گیا تو اس نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی میری پیپر ہو رہے ہیں۔ چلیں آج تو کر دیتی ہوں۔ کل سے پلیز آپ خود ہی کر لیجیے گا۔‘‘
یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا میں نے غلط کیا ہے؟ آج وہ بے حد الجھا ہوا تھا۔ موبائل میں میسج کی رنگ ٹون ہوئی ۔ عائشہ کا میسج تھا۔ اس نے پڑھے بغیر ہی موبائل واپس رکھ دیا۔بیڈ پر عبداللہ کے کھلونے بکھرے ہوئے تھے۔ اظہر دیر تک ان کھلونوں پر ہاتھ پھیرتا رہا۔
زرینہ بیگم کی ہدایات کے پیش نظر اس نے کبھی عبداللہ کو کھل کر پیار نہیں کیا تھا۔ زرینہ بیگم کا کہنا تھا بچوں کو سر پر نہیں چڑھانا چاہیے۔ لیکن آج اظہر پہلی بار اپنے دماغ سے سوچ رہا تھا۔
بڑی عید سر پر تھی۔ زرینہ بیگم کا مارے ٹینشن کے برا حال تھا۔ تفصیلی صفائیاں تو دور کی بات، روزمرہ کے کام ہی مشکلوں سے کیے جارہے تھے۔ گوشت کون سنبھالے گا۔ کوفتے کباب کون بنائے گا۔ پھر دعوت اور پکوان۔ بارہا انہوں نے سوچا کہ عائشہ کو واپس بلا لیاجائے۔ لیکن جب اس کے شرعی پردے والی بات یاد آتی تو وہ انکاری ہو جاتیں۔
’’نہیں بھئی! میں رشتہ داروں کی باتیں نہیں سن سکتی۔‘‘ (جاری ہے)