’’اب دوگھنٹے بعدآئے گی بجلی ۔میں توجارہی ہوں۔‘‘
ہم اسے جاتا دیکھتے رہ گئے۔
*
اس وقفے کایہ فائدہ ہواکہ ہم نے کئی دنوں بعدکھانا خود بنایااوروقت پرکھالیا۔
ظہر کی نماز کے بعدنسرین کی کہانیوں کاپرنٹ برآمدہوا۔اس نے ساری ہی کہانیوں کے پرنٹ نکال دیے تھے۔
’’
بھئی ایک ایک کرکے دینا‘‘ہم نے اسے پلندہ اٹھاتے دیکھاتوگھبراکربولے۔
’’
اچھایہ لیں باجی،یہ میری شاہکارکہانی ہے۔ ‘‘وہ ایک رائٹرجیسے فخرکے ساتھ دس بارہ صفحات ہمیں تھماتے ہوئے بولی۔
’’
غار کاراز۔‘‘ہم کہانی کانام پڑھ کربڑبڑائے ،کیونکہ یہ جاسوسی سانام تھا۔

 

’’کیوں بھئی نسرین اگر جاسوسی کہانی ہے تونہیں چلے گی،خواتین کے موضوعات الگ ہوتے ہیں۔‘‘ہم مری مری آوازمیں بولے۔
’’
نہیں باجی اس میں جاسوسی تو تڑکے کے طورپر ہے ،اصل میں تویہ ایک مہماتی فلسفیانہ کہانی ہے۔‘‘وہ بڑے بااعتمادانداز میں بولی۔
’’
مہماتی فلسفیانہ !!کیامطلب ۔۔۔اچھادیکھتے ہیں پڑھ کر۔‘‘ہم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہااورٹھنڈے پانی کاگلاس منہ سے لگاکرکہانی پڑھنا شروع کی ۔آغازتھا۔
’’
نبیلہ کوکبھی یہ معلوم نہ ہوسکاکہ گھرکے اندرآخروہ تمام باتیں کیوں ہواکرتی ہیں جن سے ان کے ذہن کی سرکوبی کے تمام تراندازواطوارسے وہی باتیں عیاں وپنہاں ہوتی ہیں جن کے بارے میں وہ تو کجا عادل بھی اسی قدرانجان تھاجس قدرگزرے دنوں کی بیتی یادوں کی خزاؤں میں اڑتے زرد زردپتوں کی آہٹوں سے نکلتی سرسراہٹ میں چھپے پیغام کے مطالب ومعانی کا۔۔۔‘‘
’’
اچھّو!!‘‘ہم پہلاجملہ ہی پوراکرنہ پائے اورسانس ٹوٹ کرپھندا لگ گیا۔ پانی کاگلاس دورجاگرااورمنہ سے نکلے ہوئے پانی کاوافرحصہ اس کاغذپر جس پریہ نہ سمجھی جانے والی تحریر لکھی تھی۔
’’
ارے رے کیاہواباجی ‘‘نسرین کمپیوٹر والی سیٹ سے اٹھ کرہماری طرف آئی مگر پھرٹھٹک گئی کیونکہ ہم نے جوتی اٹھارکھی تھی ۔بس پھرنسرین آگے آگے تھی اورہم پیچھے پیچھے ۔
’’
ٹھہر ٹھہر،رائٹرکی بچی ،یہ کہانی ہے یا شیطان کی آنتوں سے بُناہواجال!نالائق ،کسی افلاطون کاباپ بھی سمجھ سکتاہے ایسے جملوں کو۔‘‘
ہم نے گھرکی نچلی منزل تک اس کے پیچھے دوڑلگائی مگروہ کسی ماہرچورکی طرح سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے مین گیٹ عبورکرچکی تھی۔ 
*
’’
شکرہے آپ آگئے؟وہ بھی ایک دن پہلے۔‘‘
شام کے وقت میں بسترپر پڑی تھی۔وہ اندرآتے ہی سیدھامیرے پاس چلے آئے تھے۔
’’
اوہو!لگتاہے تم نے رسالے کے کام کوکچھ زیادہ ہی سنجیدہ لے لیاہے۔ویسے شمارہ توتیار ہوگیاناں۔‘‘
’’
خدا کے لیے شرمندہ نہ کریں۔‘‘ میں روہانسی ہوگئی۔ ’’ہمارے لیے گھرکے کام ہی بھلے ۔سچ میں توآدھاشمارہ بھی تیارنہیں کرپائی۔مواد ہی منتخب نہیں ہوسکا۔پتا ہی نہیں چلا،ہفتہ گزرگیا۔اب آپ جلدی سے کچھ کریں ۔۔۔مگر۔۔۔اب اب کیاہوسکتاہے۔۔۔کام بہت باقی ہے۔۔۔اور شمارہ تو آ ج ہی دفتر بھیجنا ہوتا ہے۔۔۔‘‘میں بخارکی کیفیت میں بڑبڑارہی تھی۔
’’
میں توآج بھی چھٹی کروں گا۔۔۔‘‘وہ مسکرائے۔
’’
کک کیامطلب !کیاا س بارشمارہ شایع نہیں ہوگا۔‘‘
’’
ارے میں شمارہ پہلے ہی تیار کر چکا تھا۔ یہ دیکھو‘‘
انہوں نے میزکی دراز سے ایک سی ڈی نکال کردکھائی۔
’’
پوراشمارہ اس میں موجودہے۔ابھی دفتر بھجوادوں گا‘‘
’’
شکرہے ورنہ میری توجان ہی نکل گئی تھی۔‘‘میں نے ایک گہراسانس لیا۔
’’
اورکیا، میں ایساکم عقل تھوڑاہی ہوں جواتنا اہم کام تم جیسی ناقصاتِ عقل کے آسرے پرچھوڑکرجاتا۔‘‘
کوئی اورموقع ہوتاتومیں شایدتلملااٹھتی مگر معلوم نہیں کیوں آج مجھے’’ناقصات عقل‘‘ کالقب کیوں آج مجھے’’ناقصات عقل‘‘ کالقب بہت برمحل لگ رہا تھا۔

سچ! بیٹھے بٹھائے اتنا بڑا بکھیڑا سر لینا نقصِ عقل کی دلیل ہی تو تھی۔ اب مجھے ’’آبیل مجھے مار ‘‘کامطلب اچھی طرح سمجھ آگیاہے۔آپ کی سمجھ میں کچھ آیا کہ نہیں!!