دیکھو ذرا!

اس دن زرینہ خالہ کے جیٹھ، اظہر کے تایا جان  ان سے ملنے آئے ۔ چوھری داور صاحب بڑی دبنگ اور رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ اظہر سے تو ان سے بات بھی نہیں کی جاتی تھی۔بس ہوں ہاں میں گزارا کرتا تھا۔ ابھی بھی وہ بڑے احترام سے ان کے سامنے والے صوفے پر بیٹھا تھا۔  خودزرینہ بیگم بھی دبی دبی سی بیٹھی  ان کی گفتگو سن رہی تھیں۔

 عائشہ کچن میں تھی۔ اس کو آوازیں آرہی تھیں اور اسے معلوم تھا اس کو کیا کرنا تھا۔ لیکن پھر بھی اندر ہی اندر اس کا دل کانپ رہا تھا۔

’’عائشہ چائے لے آؤ اور مہمانوں سے مل بھی لو۔ ‘‘ زرینہ خالہ نے آواز لگائی۔

عائشہ نے ٹرے سیٹ کی۔ بڑی سی چادرٹھیک طرح سے اورڑھ کر گھونگھٹ نکالااور کمرے میں چلی آئی...

 

زرینہ خالہ نہ جانے کیا کہ رہی تھیں لیکن عائشہ کو دیکھ کر ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔اظہر کی ہوں ہاں بھی وہیں کی وہیں رک گئی۔

’’بھئی بہو! کیا بات ہے۔ چہر ہ تو دکھاؤ اپنا۔ ‘‘ عائشہ کے گھونگھٹ کو دیکھ کر داور صاحب کو جھٹکا سا لگا لیکن پھر بھی وہ مسکراتے ہوئے بولے۔

جب عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا تو انہوں نے زرینہ بیگم اور اظہر کی جانب دیکھا۔ وہ دونوں یوں سر جھکائے بیٹھےتھے جیسے عائشہ نے شرعی پردہ نہ کیا ہو، نعوذ باللہ اور خدانخواستہ کوئی گناہ کر لیا ہو۔

یہ دیکھ کرداور صاحب غصے میں بھرے ہوئے اٹھے اور عائشہ کے چہرے سے چادر ہٹانے لگے۔

’’یہ کل کی چھوکریاں ہم سے پردہ کریں گی؟ ہمیں کیا سمجھ لیا ہے تم نے بی بی؟ بد کردار نیچ ہیں ہم جو ہم سے پردہ کیا جا رہا ہے؟ ارے واہ! ایسی بہو تو دیکھی نہ سنی! شرم نہیں آتی میں تمھارے باپ سے بھی بڑا ہوں۔ میرے سے پردہ کرتی ہے ۔ ہٹا اس کو آگے سے۔‘‘ داور صاحب کا غصہ پورے خاندان میں مشہور تھا ۔اس وقت بھی  داور صاحب اپنے آپ میں نہیں تھے۔  

 عائشہ  کو لگا وہ اپنے چہرے کی تپش سے خود جل جائے گی۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے چادر کو مضبوطی سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن مضبوط ہاتھوں کے آگے اس کی ایک نہ چلی ۔ داور صاحب نے ایک جھٹکے سے اس کے چہرے پر سے چادر ہٹا دی۔

چھن کی  زوردارآواز آئی اور عائشہ کے ہاتھ سے چائے کی چینک گر کر ٹوٹ گئی۔فرش پر دور تک چائے ہی چائے بکھر گئی۔

اس سارے قضیے میں زرینہ بیگم اور خود اظہر میاں یوں چپ سادھے سر جھکائے بیٹھے تھے جیسے یہ سارا سین  اصل میں نہیں بلکہ ٹی وی میں ہو رہا ہو۔ ان دونوں نے عائشہ کی مدد کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ رات ہی تو کھانے کے دوران عائشہ کے شرعی پردے  پر ایک زوردار بحث ہوئی تھی۔  محمود صاحب نے دبے دبے لہجے میں عائشہ کا ساتھ دینے کی کوشش کی تو زرینہ بیگم نے طوفان کھڑا کر دیا۔

’’ارے یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پہلے اس نے زینب کے میاں سے پردہ کیا۔  وہ تو شکر ہے اس کے سسرال والے بھلے لوگ ہیں ۔ برا نہیں مانے۔ لیکن اب کل داور بھائی پہلی باراظہر کی شادی کے بعد کھانے پر آرہے ہیں۔ میں انہیں کیا جواب دوں گی۔ ‘‘ اتنا کہ کر انہوں نے عائشہ کی جانب دیکھا جو سر جھکائے پلیٹ میں چاول ادھر سے ادھر کرنے میں مصروف تھی۔

’’لڑکی! تم ہو ہی فساد کی جڑ۔ میں کہے دیتی ہوں۔ داور صاحب کے سامنے جانا ہو گا۔ وہ کسی شرعی پردے کو نہیں مانتے۔بس!‘‘ اتنا کہ کر وہ کھانے سے اٹھ گئیں۔

رات کو اس نے  سونے سے پہلے اظہر سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی تو اس کا ایک ہی جواب تھا۔

’’بھئی یہ تمھارا مسئلہ ہے۔ تم جانو۔ میری امی تم سے ناراض ہیں۔ انہیں راضی کرنا تمھارا کام ہے۔ ویسے میرا نہیں خیال کہ اسلام میں اتنی سختی ہے۔  ‘‘ یہ کہ کر وہ کروٹ لے کر سو گیا۔عائشہ اس کو تکتی رہ گئی۔ اتنا کٹھور  تو وہ پہلے کبھی نہ تھا۔

’’اسلام میں سختی کتنی ہے اور کتنی نہیں۔ یہ وہ لوگ نہیں جان سکتے جو اتنے پیارے اور نرم  دین کو سخت سمجھتے ہیں۔ اگر پردہ کرنا سختی ہے تو پھر نماز پڑھنا بھی سختی ٹھہری۔ روزہ رکھنا بھی سخت ٹھہرا۔ یہ سب تو دین کے سادہ سے  اصول ہیں۔جیسے سکول میں قطار بنائی جاتی ہے۔ حاضری لگائی جاتی ہے۔ خاموش رہنا سکھایا جاتا ہے۔ فیکٹری میں ہر کام اصولوں کے تحت ہوتا ہے۔ بزنس میں سارے معاملات قواعد کے ذریعے طے کیے جاتے ہیں۔ ان سب باتوں کو تو کوئی سختی نہیں کہتا۔ الٹا ایسے اصولوں اور ایسے اصول پسند لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔ لیکن جب بات اسلام پر آتی ہے تو نادان کہتے ہیں اف بہت سختی ہے اسلام میں۔‘‘  عائشہ رات گئے تک سوچتی رہی۔ صبح  کے قریب اٹھ کر اس نے تہجد پڑھی ۔اپنے لیے ہمت و استقامت کی دعا مانگی۔ وہ پہلا قدم اٹھانے جارہی تھی۔ اسے یہ پہلا قدم اٹھانا ہی تھا۔ ورنہ اس کے سسرال والوں کا مائنڈ کیسے بنتا۔اسے  کڑوا گھونٹ بھرنا تھا تاکہ کل میٹھا پھل پا سکے۔ دنیا کو سمجھا سکے کہ عمل ایسے بھی کیا جا سکتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قیامت آکر گزر چکی تھی لیکن آثار تاحال باقی تھے۔ داور صاحب بنا کچھ کھائے پیے  ، ہزاروں صلواتیں سنا کر جا چکے تھے۔ لیکن بادلوں کی گرج تو اس وقت سنائی دی جب زرینہ بیگم نے دوگھنٹے کمرہ بندرہ کر اپنا فیصلہ سنادیا۔

’’اظہر! اسے میکے چھوڑ آؤ۔ آج جتنی بے عزتی میری ہوئی ہے میں اسے اب مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ ابھی مجھے خاندان والوں کی باتیں بھی سننی پڑیں گی۔ یہ محترمہ تو بچے کو لے کر اٹواٹی کھٹوالی لیے  کمرے میں پڑ جائیں گی۔ رشتہ دار مجھے آ آکر باتیں سنائیں گے۔بس! میں نے کہ دیا ہے اسے میکے چھوڑآؤ۔ اب یہ یہاں رہے گی یا میں۔‘‘ اتنا کہ کر وہ دوبارہ کمرے میں چلی گئیں۔

اظہر کمرے میں آیا تو اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ باتیں تو سب عائشہ بھی سن چکی تھی لیکن اظہر کیا کہتا ہے یہ سننے کے لیے اس نے سانسیں تک روک رکھی تھیں۔ تھوڑی دیر بعداظہر کی آواز آئی ۔

’’عائشہ سامان باندھ لو۔ میں امی کو دکھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘

(جاری ہے)