(تیسری قسط)
زرینہ بیگم ایک پل کو تو خاموش رہ گئیں پھر کہنے لگیں۔’’ ہاں دیکھو ، ڈائری میں نمبر لکھا تو تھا میں نے۔ اللہ خیر کرے زینب کو ڈاکٹر نے کیوں کہ دیا۔۔ سب ٹھیک تو ہے ناں ۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور نازیہ کو لیے اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ شرمندگی یا ندامت کے ذرا بھی آثار ان کے چہرے پر دور دور تک نہیں تھے۔
عائشہ کا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ محمود صاحب بے حد خوش تھے البتہ زرینہ بیگم ذرا اکھڑی اکھڑی سی تھیں۔ زرینہ بیگم کی زریں ہدایات اپنی جگہ رہ گئی تھیں ۔ اظہر نے اچھے سے ہسپتال میں عائشہ کی ڈلیوری کرائی تھی۔
حالانکہ نارمل کیس تھا لیکن پھر بھی ہزاروں کا خرچہ ہوا تھا۔ عائشہ بے حد کمزور لگ رہی تھی۔ اس کی حالت دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے ایک رات کے لیے اسے مزید ایڈمٹ رکھنے کا کہا تھا۔
اظہر کے تو پاؤں زمیں پر نہ ٹکتے تھے۔ بہانے بہانے سے بےبی کاٹ کے پاس جاتاا ور بچے کے نرم گلابی ہاتھ پکڑ لیتا۔ ’’بس بھی کریں! یہ اتنی جلدی تو آپ کو بابا کہنے سے رہا۔‘‘ عائشہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ! لیکن بس! یہ آنکھیں کب کھولے گا؟‘‘ اظہر نے جب کوئی پانچویں بار پوچھا تو عائشہ کوہنسی آگئی۔
اسی اثنا ء میں زرینہ خالہ اندر داخل ہوئیں تو دونوں کو ہنستا دیکھ کر ان کے سینے پر سانپ لوٹ گئے۔ اندر ہی اندر جلتے بھنتے لیکن بظاہر مسکراتے ہوئے وہ آگے بڑھیں اور بچے کو اٹھا لیا۔
چند ثانیے کے لیے تو انہیں ایسا لگا کہ ان کے اندر کی تمام نفرت ختم ہو گئی ہو۔ وہ بچے کے گلابی گالوں پر بے اختیار بوسہ دینے لگیں۔
۔۔۔۔
عائشہ کے میکے میں صرف اس کا بھائی اور والدہ تھیں۔ بھائی جان فیملی سمیت کینڈا میں ہوتے تھے۔ والدہ ، الفت خاتون آج سرگودھا سے آرہی تھیں۔ڈلیوری سے پہلے انہوں نے فون پر کتنا ہی اصرار کیا کہ عائشہ کو چلّے کے لیے یہاں بھیج دیا جائے لیکن زرینہ خالہ کا کہنا تھا ۔’’ہماری یہ روایت ہے کہ پہلا بچہ تو سسرال والے ہی سنبھالتے ہیں!‘‘ الفت خاتون ڈلیوری کے دن ہی چلی آتیں لیکن ان کی بہن کے شوہر کا ایکسیڈینٹ ہوگیا تو تین دن کے لیے وہاں چلی گئیں۔
عائشہ نے ایان کو نہلایا تو کمردرد کے مارے جیسے ٹوٹ ہی گئی۔ وہ ایان کو کپڑے پہنا کر ہلکان سی بیڈ پر لیٹ گئی۔ باہر امتل خالہ آئی بیٹھی تھیں۔
’’بہو کو پنجیری بھی بنا کر دی یا خالی یخنی ڈبل روٹی پر ٹرخا رہی ہو؟‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے مخصوص انداز میں بول رہی تھیں۔
’’کیسی یخنی ؟ میں اور اس کے لیے یخنی بناؤں۔ امتل توبہ کرو ۔ تم بھی بس۔‘‘ زرینہ خالہ ماتھے پر بل لا کر بولیں۔
’’تو کیا وہ خود ہی کھانا پینا کر رہی ہے۔ دیکھو یہ صحیح۔۔‘‘ امتل خالہ کہنے جارہی تھیں لیکن زرینہ خالہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’کیا صحیح ہے کیا غلط ہمیں نہیں معلوم بھئی۔ گھٹنوں کا درد میری تو جان نہیں چھوڑتا۔ کھانا باہر سے لا رہا ہے اظہر ۔ ہفتے دو ہفتے میں ٹھیک ہو جائے گی تو بنا لے گی یخنی بھی۔ اور یہ وہ نسل نہیں جو پنجیری جیسی بھاری غذا ہضم کر جائے۔ چھوڑو ان باتوں کو !‘‘ زرینہ خالہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔
’’دیکھو! تمھاری بہو ہے ۔ لوگ کیا کہیں گے۔ اتنی کمزور دِکھ رہی تھی ۔ چلو ڈرائی فروٹ کی کھیر ہی بنا دیا کرو۔ طاقت آئے گی تو گھر کے کام کاج اور بچے کو صحیح سنبھال سکے گی ۔ہوٹل کا نان تو نرا ربڑ ہو تا ہے۔ کھایا نہ کھایا برابر۔ ‘‘ امتل خالہ اپنے موقف پر قائم تھیں۔
’’چھوڑو بھی! دودھ تو پلایا جاتا نہیں اس سے۔ لگتا ہے ڈبے کا ہی لگوانا پڑے گا۔ بس میرے اظہر ہی کمائی اسی ڈائن کے لیے رہ گئی ہے۔ہمیں تو اس نے پوچھنا کب کا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ زرینہ خالہ بات کو ہمیشہ اپنے مطلب پر لانے والی خاتون تھیں۔ لیکن امتل خالہ کہنا چاہتی تھیں نیا نیا بچہ ہو ا ہے سو باتیں سکھانی پڑتی ہیں لیکن یہ سب وہ کرتا ہے جو بہو کو بیٹی نہ سہی بیٹی کی طرح ہی سمجھ لے۔
اتنے میں باہر ٹیکسی کے رکنے کی آواز آئی توعائشہ کا دل خوشی سے پھول گیا۔ ’’امی جی آ گئیں!‘‘
زرینہ خالہ منہ بنائے بڑبڑا رہی تھیں۔ ’’لو آگئے مفت خورے! کیا زمانہ آگیا ہے۔ ایک ہم تھے بیٹی کےسسرال کا پانی پینے کو بھی حرام سمجھتے تھے!‘‘ (جاری ہے)