شمارہ نمبر 22

ثنانے ہمیں تفصیل سے تمام خطرات سے آگاہ کیااورہماری آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے۔میاں جی کے سامنے بے عزتی ۔۔۔نہیں نہیں ۔۔۔ہم شمارہ تیار کرکے دکھائیں گے۔
’’ثنا تم جلدی سے نظموں کابنڈل کھولو،دیکھو جوصرف اچھی نظمیں ہوں،بس وہی نکال کرمجھے دینا،ہم اتنے میں اداریہ لکھ لیں۔‘‘
یہ کہہ کرہم نے جلدی سے قلم کاغذسنبھالا اوراداریہ لکھنے لگے۔
’’عزیز قاریات ،السلام علیکم ورحمۃا للہ وبرکاتہ! امیدہے آپ سب خیریت سے ہوں گی ،میں بھی خیریت سے ہوں۔صورتِ احوال یہ ہے کہ ۔۔۔‘‘
اوہو یہ توخط بنتاجارہاہے۔ہم نے لکھاہواقلم زدکرکے ردی کی ٹوکر ی میں ڈال دیا۔

چائے کی ایک پیالی منگواکردوسراکاغذلیا۔کافی دیرسوچنے کے بعدشروع ہوئے۔
’’محترم المقام واجب الاحترام قاریات ! زمانے کی نیرنگیوں نے تغیر وتبدل کی انتہا کچھ یوں کی ہے کہ ۔۔۔کہ ۔۔۔‘‘
ہمیں لگاجیسے ہمیں خودسمجھ نہیں آرہاہم کہناکیاچاہتے ہیں۔ بہت مشکل زبان ہے ۔قاریات کیاسمجھ پائیں گی۔آسان زبان ہونی چاہیے۔
اس تحریر کو بھی منسوخ کردیا،خاصی دیرسرکھجاتے رہے ۔
ہاں اب سمجھ آیا۔بے تکلف زبان ،جودل میں آئے لکھ دو،جیسے باتیں کی جاتی ہیں۔ہاں ہاں۔بس اداریہ ہوگیا۔
ہم شروع ہوگئے۔
’’پیاری بہنو! میں آپ کی باجی ہوں ،باجیاں سب کی ہوتی ہیں ،میری بھی ہے، آپ کی بھی ہوگی۔۔۔مگر۔۔۔مگر۔۔۔ کچھ باجیاں اچھی ہوتی ہیں۔۔۔کچھ باجیاں بری ہوتی ہیں۔۔۔ باجیاں اچھی ہوں یابری ایک بات تو طے ہے ۔۔۔‘‘
وہ کیابات طے ہے۔سوچتے رہے مگرآگے کچھ سمجھ نہ آیا،ہم نے کاغذپھاڑکرپھینک دیا۔ٹائم دیکھاتوساڑھے گیارہ ہورہے تھے۔
’’کیاہوا؟ابھی سے منہ پربارہ کیوں بج رہے ہیں۔‘‘ثنا نے پاس آکرایک نظرٹائم پیس پرڈالتے ہوئے کہا۔ساتھ ہی اس نیکچھ نظمیں بھی ہماری طرف کھسکائیں۔

’’نسرین ! لماری سے رسالے کی پہلی جلدکا شمارہ نمبر بیس نکالو،اورا س کااداریہ ازسرنوکمپوزکردو۔‘‘ہم نے ثناکی پھبتی نظر اندازکرتے ہوئے حکم جاری کیا۔

’’ارے ارے باجی کیاکرارہی ہیں مجھ سے۔پہلے کالکھاہوا اداریہ دوبارہ!!‘‘نسرین میری منشاء سمجھ کربوکھلاگئی۔

’’چپ رہو،کسی کویادنہیں ہوگاکہ پانچ سال پہلے کیااداریہ چھپاتھا۔ویسے بھی اکثراداریے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔بس تم کمپوزکردو۔تصحیح کرتے ہوئے میں کچھ تبدیلی کرادوں گی۔‘‘ میں نے طریقۂ واردات سمجھاتے ہوئے کہا۔

’’باجی آپ توبڑی وہ ہیں؟‘‘
’’کیا مطلب ،وہ سے کیامرادہے تمہاری ۔‘‘
’’وہ وہ ۔۔۔یعنی بڑی ہوشیارہیں۔‘‘ اس نے فوراً پینترا بدلا۔

’’ہاں وہ تو ہیں تب ہی تو رسالے کی مدیرہ ہیں۔اچھابس خامو ش،کام کرو کام ،وقت کم ہے مقابلہ سخت!‘‘
یہ کہہ کرہم نے نظموں پرنگاہ ڈالی۔پہلی نظم کے شرو ع میں شاعرہ نے اپناتعارف بھی کرایاتھا۔
’’میں ہوں شاکرہ اقبال تائی، بھائی پھیروسے تعلق ہے۔ ایم اے اردوکرچکی ہوں،اپنی ایک نظم بعنوان ’’سدابہارخزاں‘‘ بھیج رہی ہوں،میری یہ نظم گھرگھر پڑھی جاتی ہے مگرشاید کہ آپ کو اب تک نہیں پہنچی،خیراب بھیج رہی ہوں،شایع کریں تو مزید نظمیں بھی بھیجوں گی۔میرا پورا دیوان ہے ،شایع کرانے کاکوئی معاوضہ بھی نہیں لوں گی۔‘‘
اب ہم نظم پڑھنے لگے۔تائی صاحبہ نے عرض کیاتھا۔
چمن میں پھربہارآئی ہے ،آئی ہے
اپنے ساتھ خزاں لائی ہے لائی ہے
ہر طرف گھنگھوراندھیری چھائی ہے چھائی ہے
لگتاہے میرے ہونٹوں پرایک عرصے سے جوشے ہے
جمی ہوئی ہے وہ رس ملائی ہے ،رس ملائی ہے
رس ملائی میں نے تو کھائی ہے کھائی ہے
کیا آپ نے بھی کھائی ہے کھائی ہے؟
اے شاکرہ اقبال کہتے ہیں کہ توشاعرہ ہونے کے علاوہ
بارہ بھتیجیوں کی عظیم تائی ہے تائی ہے
غصے کے مارے ہمیں فوراً بھوک محسو س ہوئی ،نظم کے نیچے جواب لکھا:تائی امّاں!پہلے رس ملائی بھیجئے ،پھرشایع کرنے کی بات ہوگی۔
اگلی نظم کسی نزہت بشیر کی تھی ،تعارف کرائے بغیرکلام یوں پیش کیاتھا۔
اولے گرے تودماغ سے برے خیالات نکل گئے
برائیوں پر سزاملی توہم متنبہ ہوکراچھے عمل کرنے نکل گئے
آگ لگی توشہر کے سب لوگ جل گئے

بارش ہوئی توسب کے کپڑے دھل گئے
رگڑ رگڑ کے ہم نے ہاتھ زخمی کردیے اپنے مگر
ان کے داغ دھبے نہ گئے کیسے لباس ہمارے پلے پڑگئے
ہم نے پتے پر نظر ڈالی ،لکھاتھا،دلکشا ڈرائی کلینر، پرانا دھوبی گھاٹ۔ ہمارے خیال میں موصوفہ کے حسب نسب کے لیے اتنا تعارف کافی تھا،ناقابل اشاعت کالیبل چپکادیا۔
اگلی نظم آزادقسم کی تھی،شاعرہ فرماتی تھیں
روز کتنے لوگ دنیا میں آتے ہیں
جب وہ آتے ہیں تومیں
بڑی خوش ہوتی ہوں
دعائیں دیتی ہوں
مائیں کیوں پریشان ہوتی ہیں
سب کارزق طے ہے
ہر ایک کواپنے اپنے وقت پرملے گا
ہم خدمت کے لیے حاضرہیں کم معاوضے پر
کیوں کہ اصل معاوضہ توآخرت میں ملے گا
نیچے لکھاتھا:مسزنسیم ،نسیم میٹرنٹی ہوم ،سرجانی ٹاؤن ،کراچی
ہمیںیہ نظم کم اوراشتہار زیادہ لگی ،اسے بھی ٹھکانے لگا دیا۔
ہم اس طرح کی فضول نظمیں اسی طرح بھگتاتے جارہے تھے کہ اچانک فون کی گھنٹی سن کرہڑبڑاگئے۔