7دسمبر کی شام قیامت کی تھی۔پی آئی اے کاچترال سے اسلام آباد جانے والا طیارہ حویلیاں کے قریب گر کرتباہ ہوگیا۔عملے سمیت ۴۷افراد آناً فاناً جاں بحق ہوگئے۔کتنے گھروں ،کتنے محلوں اورکتنے شہروں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔بچے اپنے ماں باپ کااوروالدین اپنے بچوں کاانتظار کرتے رہ گئے۔
یہ قومی سانحہ تھا جس پر جس قدر افسوس کیاجائے کم ہے۔ کہا جارہاہے کہ تباہ شدہ طیارہ پرواز کے لیے ناموزوں تھا،اس کے باوجود اس کی پرواز کارِ سک لیا جارہاتھا۔پی آئے اے کاعملہ حادثے کی ذمہ داری پائلٹ کی غلطی پر ڈال رہاہے۔تحقیقات ہورہی ہیں اورہوتی رہیں گی مگربہرکیف جانے والے تواب واپس نہیں آسکتے ۔ان کی یادیں ان کے پیاروں کے دلوں میں ایک ٹیس بن کراٹھتی رہیں گی۔ اسی بدقسمت طیارے میں خوش قسمت جنید جمشید اپنی اہلیہ سمیت سوار تھے۔ وہ چترال میں دعوت وتبلیغ کے لیے گئے تھے۔ وہاں ان کے بیانات بھی ہوئے جن میں وہ موت کی تیاری کی دعوت دیتے رہے۔ واپسی پر وہ خود اسلام آباد کی جگہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ جنید جمشید اہلِ پاکستان کے چہیتے تھے۔ کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے۔ ان کی آواز جو ایک مدت تک دلوں میں عشقِ مجازی کادردجگاتی رہی، تبلیغی جماعت سے وابستہ ہونے کے بعد،دلوں کے روگ دور کرنے لگی ،عشقِ مجازی کے مریضوں کو عشقِ حقیقی کاپیغام دیتی رہی۔
جنید جمشید نے بہت بڑی قربانی دے کراپنی زندگی کوتبدیل کیاتھا۔ وہ چالیس سال کی عمر تک شوبز کی دنیا میں شہرت کے آسمان پر تھے۔بظاہر انہوں نے دنیا کی ہر آسائش اورہر مادی خوشی حاصل کرلی تھی مگراندر س ے وہ روحانی عدم سکون شدت سے محسوس کرتے تھے۔یہ کیفیت انہیں تبلیغی جماعت کے قریب لے گئی۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب مدظلہ نے اس نوجوان کی اصلاح، اس کی استقامت اوراس کی تربیت میں جو کرداراداکیا،وہ سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ ان کی حکمت اورشفقت کی بدولت جنید جمشید ایک گلوکار سے مبلغِ اسلام بن گئے۔ راتوں کو اسٹیج پر مخلوط ماحول میں پرفارمنس دینے والا،ایک نئے قالب میں ڈھل کر راتوں کاعابد اور دن کاداعی بن گیا۔ ان کے قریبی دوستوں نے بتایاکہ وہ کچھ عرصے سے قرآن مجید حفظ کرنا شروع کرچکے تھے اورماشاء اللہ کئی پارے حفظ کرچکے تھے۔ ان شاء اللہ قیامت کے دن ان کاحشر مبلغین اورحفاظ وقراء کی جماعت میں ہوگا۔
ہم بھائی جنید جمشید اوراس طیارے میں سوارتمام مسافروں کے اہلِ خانہ اورپس ماندگان کے دکھ میں شریک ہیں اورتہہ دل کے ساتھ دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالی ٰ ان سب مرحومین کی لغزشوں سے درگزرفرمائے،انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ اللہ تعالیٰ پس ماندگان کوصبرِ جمیل عطا کرے اوراس قسم کے سانحات سے ہم سب کومحفوظ رکھے۔ اگرچہ ہونی کوتو کوئی نہیں روک سکتا۔ مگر اربابِ حکومت کے لیے یہ موقع لمحہ فکریہ ہے۔ اس حادثے کی پوری غیر جانب داری سے تحقیقات ہونی چاہییں ۔ مسافروں کی زندگیوں کوخطرے میں ڈالنے کی کوئی مثال نہیں ہونی چاہیے جوہمارے ایک قومی ادارے کی بدنامی کاباعث بنے۔
یہ سانحہ ہم سب کے لیے نشانِ عبرت ہے۔ انسان کوایک لمحے کاپتانہیں ہوتا۔ وہ دنیا کی تیاری میں منہمک رہتاہے اورموت اسے اچانک آدبوچتی ہے۔طیارے میں سوارہر شخص کسی نہ کسی ادھیڑ بن میں ہوگا۔ کوئی کسی سے تجارتی ڈیل کرناچاہتاہوگا،کسی نے کسی شادی غمی میں پہنچناہوگا۔کوئی کسی سے مدتوں بعد ملنے جارہاہوگا۔ مگر موت سبقت کرگئی اورسب کام ادھورے رہ گئے۔
ہمارے بھی بڑے بڑ ے کام اسی طرح ادھورے ر ہ جائیں گے۔آئیے، اس سے پہلے وہ کام پوراکرنے کی اپنی سی کوشش کرلیں جس کے لیے ہمیں دنیامیں بھیجا گیاہے۔