Harf e awwal

اس کی شخصیت میں کچھ عجیب با ت تھی۔گورارنگ ،خوش شکل،درازقد،مردانہ وجاہت نمونہ ۔ان سب سے بڑھ کرانتہائی خوش اخلاق اورملنسار۔ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خوش حال گھرانے کایہ نوجوان اپنی صلاحیتوں سے خود بھی اچھی طرح آشنا تھا۔گھر کی طرف سے مکمل اورخاندان کی اسے ہرطرح کا تعاون میسر تھا۔ وہ اگر تعلیم کے میدان میں آگے بڑھتا تواعلیٰ پائے کا سائنسدان ، انجینئر،ڈاکٹر کچھ بھی بن سکتاتھا۔فوج یا سول سروسزمیں کوئی اعلیٰ منصب حاصل کرنا بھی اس کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔مگر اسے شوق تھا عام لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کا۔وہ زندگی کو اس کے تمام مزوں کے ساتھ جیتے ہوئے اونچی اڑان انا چاہتاتھا۔ شایداسی لیے اس کارجحان گلوکاری کی طرف ہوگیا۔یہی رجحان اداکاری کی طرف بھی ہوسکتا تھا۔ ایسا ہوتاتو اس کی وجاہت اوراس کے اسٹائل کے سامنے بڑے بڑے بُت گرجاتے۔مگر شاید طبعی شرافت آڑے آگئی۔

 

بہرکیف وہ آیاشوبز ہی کی دنیا میں ۔اسے معلوم تھا کہ اس کی آواز جادو جگاسکتی ہے۔ اورایساہی ہوا۔ جب اس کے گانے نشر ہوئے تو پاکستانیوں کوفخر ہونے لگاکہ ایساہیرا بھی ان کے دامن میں ہے۔ لوگوں نے اسے ایک گلوکارکے طور پر اپنی آنکھوں کاسُرمہ بنا لیا۔ اس میدان میں اسے پاکستان کی پہچان سمجھاجانے لگا۔وہ بین الاقوامی طور پر مشہور ہوگیا۔ اشتہاراتی کمپنیاں اس کے پیچھے دوڑنے لگیں ۔وہ پرواز کرتے کرتے وہاں پہنچ چکاتھا کہ دنیا اسے بہت نیچے نظر آرہی تھی۔

وہ سمجھتاتھاکہ یہی اس کی پرواز کی یہی منزل ہوگی ۔یہاں پہنچ کراسے قلبی اطمینان مل جائے گا۔ وہ چین اورسکون کی زندگی بسر کرنے لگے گا۔ مگرنہیں، اسے لگاکہ وہ بہت اونچی پرواز کرکے بھی کہیں تک نہیں پہنچ سکا۔ کوئی ایسانشیمن دوردورتک نہیں جہاں اسے چند گھڑیوں کاحقیقی سکون مل سکے۔

وہ شوبز کی دنیا میں فعال تھا۔ہر طرف سے اسے پذیرائی مل رہی تھی مگر تنہائی کے لمحات میں وہ عجیب ادھیڑ بن کاشکار تھا۔اسے لگ رہاتھاکہ ایک شاہین ،کرگس کے جہاں میں پرواز کی کوشش کررہاہے ۔

پھر اسے ایک دن ایک دوسرے جہان کی جھلک نظر آگئی ۔ شروع میں وہ اس سے یکدم مانوس نہ ہوسکا۔جیسے اندھیر ے کے عادی کی نگاہیں یکدم روشنی میں خیرہ ہوجاتی ہیں ،اس کی ابتدائی کیفیت بھی ایسی ہی تھی ،مگر سچائی کی تلاش میں اس کاجذبہ صادق تھا۔ بہت جلد اسے سمجھ آگیا کہ وہ غلط دنیا میں پرواز کررہاہے،ایسی پرواز جو جتنی بھی بلند ہو،اس کی منزل کوئی نہیں۔


اس نے خود کونئی اورحقیقی دنیا سے مانوس کرنے کی کوشش شروع کردی،اگرچہ اسے اس میں بڑی مشکلات کاسامنا کرناپڑامگرتبلیغی جماعت سے اس کاتعلق بڑھتاگیا۔مبلغِ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب نے اس کی تربیت پر غیرمعمولی توجہ دی ۔ان کی شفقتوں نے اسے حوصلہ دیا۔وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ چارماہ کے لیے نکل گیا۔ پھر ایک دن اس نے بالاکوٹ سے مولاناطارق جمیل صاحب کوفون کرکے کہا:اس وقت میں ایک مسجد میں چٹائی پر لیٹا ہواہوں۔جس سکون کی مجھے تلاش تھی ،وہ مجھے یہاں مل گیاہے۔‘‘

اس سکون کو برقراررکھنے کے لیے اسے اپناجہان تبدیل کرناتھا،وہ جہان جو اس کاواحد ذریعۂ روزگار تھاجہاں سے ابھی وہ دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہاتھا اورمزید کئی گنا سمیٹ سکتاتھا۔ اتناکماسکتاتھاجو سات پشتوں کوکافی ہو۔اسے معلوم تھاکہ یہ لائن چھوڑتے ہی اس کی آمدن صفر پر آجائے گی کیونکہ وہ یہی ایک کام جانتاتھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھاکہ اس دنیا کو ترک کرنے پر کتنی ہی کمپنیوں کے ہاتھ اس کے گریبان پر ہوں گے جن سے وہ کنٹریکٹ پر دستخط کرچکاہے۔
یہ سب مشکلات اپنی جگہ مگرناموری اورمقبولیت پر لات مارناان تمام مشکلات سے بڑھ کر تھا۔فن کے عروج پر پہنچ کراسے چھوڑدینا ، آزمائش کی سخت ترین شکل تھی ۔ایک فن کارکے لیے شہرت کے آسمان پر پہنچ کر خود کو نیچے گرادینا ،جان کی قربانی دینے سے بھی زیادہ دشوار ہوتاہے۔ مگر اس کے لیے کی جانے والی اہل اللہ کی دعائیں مقبول ہوچکی تھیں۔اللہ کی توفیق سے اس نے یہ سب کردکھایا۔۲۰۰۴ء میں جب اس نے گلوکاری یکسر ترک کردی تو ایک دنیا ششدررہ گئی ۔اس کے لاکھوں مداح سکتے کے عالم میں آگئے۔ ہرکوئی سمجھتاتھاکہ وہ جیتے جی مرگیا۔ مٹی میں مل گیا۔اس کا قصہ ختم ہوا۔۔۔ مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادبرحق ہے :جواللہ کے لیے خود کوگراتاہے ،اللہ اسے بلند کردیتاہے۔(مشکوٰۃ)  مگر ایک سال بھی نہیں گزرنے پایاتھاکہ جنید جمشیدایک نئے جہان میں کہیں اونچی پرواز کرتادکھائی دیا۔اس کے پہلے نعتیہ البم’’ جلوۂ جاناں‘‘ہی نے ہرطرف ہل چل مچادی ۔ الیکٹرونک میڈیا والے اس سے چندمنٹ لینے کے لیے اس کے پیچھے بھاگنے لگے۔اس کے مداحوں کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ ہوگئی۔پہلے وہ ماڈرن طبقے کے نوجوانوں کامحبوب تھا۔اب علماء ،طلبہ ، مشائخ،بچے، بوڑھے جوان سبھی اس کی آواز سن کر اشک بارہونے لگے تھے۔پہلے لوگ اسے اسکرین پر ہی دیکھتے تھے ۔اسٹیج پر اس کی پرفارمنس کا حقیقی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے والے خاص لوگ ہی ہوتے تھے جو مہنگاٹکٹ لے سکتے تھے۔مگر اب اس کی پرفارمنس گلی گلی ،کوچہ کوچہ تھی ،بغیر ٹکٹ اوربالکل لائیو۔ ہر کوئی اس کے پاس بیٹھ سکتاتھا۔ اسے گلے لگاسکتاتھا۔اس سے باتیں کرسکتاتھا۔اس کے اسفار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے۔ اس کی پروازشہروں دیہاتوں سے لے کردنیا کے مختلف ملکوں تک پھیل گئی تھی۔ وہ ایسی بستیوں،ایسے گلی کوچوں،ایسے جنگلوں ،صحراؤں، پہاڑوں،سمندروں اور ساحلوں،اوران بین الاقوامی شہروں ، ہوٹلوں اورعظیم الشان اداروں تک گیا جہاں جانے کا بہت کم لوگ تصور کرسکتے ہیں۔ اس کی آواز اب بھی ویسی ہی توانا تھی مگر پہلے وہ دلوں کوخراشتاتھا۔اب مرہم رکھ رہاتھا۔پہلے وہ ایک بے منزل دنیا تک لے جاتاتھا۔ اب وہ دونوں جہاں میں کامیابی کے گُر بتارہاتھا۔ دلوں کو یادِ الٰہی سے آباد اورعشقِ محمدی سے سرشارکررہاتھا۔وہ خو د بھی اونچی اڑان رہاتھا اوردوسروں کو بھی ملأاعلیٰ کی طرف لے جا رہا تھا۔

پھربدھ۷ دسمبر۲۰۱۶ء کی شام چترال سے پرواز کرنے والے پی آئے اے کے طیارے نے اسے اسلام آباد کی جگہ اس آخری منزل تک پہنچادیا جس کی وہ گزشتہ بارہ سال سے تیاری کررہا تھا۔ دیگر مسافروں کی طرح اس کاجسد خاکی بھی حویلیاں کے پہاڑوں اورکھائیوں میں اس طرح بکھر ا کہ اس کی شناخت اوراورڈی این اے کے ذریعے توثیق میں کئی دن لگ گئے۔آخر نعش کراچی لائی گئی۔جمعرات ۱۵دسمبر کو عوام وخواص کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمند راس کی نمازِ جنازہ کے لیے موجود تھا۔ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب نے نمازِ جنازہ پڑھائی ،اس موقع پرلوگ دھاڑیں مارمار کررورہے تھے۔ آنسوؤں اورآہوں میں اس شاہین کو دارالعلوام کراچی کے اس قبرستان میں دفن کردیاگیا جہاں ہر ہرچپے پر اپنے وقت کے جید علما ء ،مشائخ اوردین کے خادم دفن ہیں اورجس کی بڑے بڑے لوگ صرف آرزوکرسکتے ہیں۔

جنید جمشیدکی اڑان واقعی بہت اونچی رہی۔ اس کی زندگی میں کئی چیزیں قابلِ رشک تھیں،اس کی وہ آوا ز جودل کی گہرائیوں میں اتر کرخفتہ ایمانی جذبات کو بیدارکردیتی تھی۔اس کی گزشتہ بارہ سالہ زندگی جو دین پراستقامت سے عبارت اورپرکشش مادی ترغیبات کودین کی خاطر ٹھکرانے کی مثالوں سے آراستہ رہی۔مگراس کی حیات کا سب سے روشن پہلو اس کا حق کی طرف وہ رجوع ہے ،جوایسی پرکشش مادی ترغیبات کی موجودگی میں بہت کم لوگوں کونصیب ہوتاہے۔اس کی زندگی کا دوسرا سب سے یادگارمنظر اس کی اچانک مو ت ہے ۔دین کی دعوت دینے چترال جانا اورواپسی کے سفرمیں اپنی رفیقۂ حیات سمیت یکدم اگلی دنیا میں پہنچ جانا۔۔۔کیااس سے اچھی موت کوئی اورہوگی۔

اس کی مقبولیت اورمحبوبیت کا اس سے بڑااورکیا ثبوت ہوگاکہ ہر طبقے ،ہرعلاقے اورہر جماعت کے لوگوں نے اس پر تعزیت کی۔سب نے اس حادثے پرگہرے رنج وغم کااظہارکیا۔ جنید کی شہادت کو چندہی گھنٹے گزرے تھے کہ درس قرآن ڈاٹ کام کے فیس بک اکاؤنٹ پر تیس لاکھ سے زائد وزٹر اس کے آخری سفر کے خبروں کی تلاش میں آچکے تھے۔ جنید جمشید دنیاسے چلاگیا مگر وہ اپنی آوا ز کااثاثہ چھوڑگیاہے۔ وہ آواز جو ان شاء اللہ رہتی دنیا تک لوگوں کوحق کی طرف بلاتی رہے گی۔کہیں حمدوں اورنعتوں کی شکل میں ۔کہیں تبلیغی بیانات کی شکل میں۔یہ اس کاصدقۂ جاریہ ہے جو اس کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتارہے گا۔