بھائی جنید جمشید رحمہ اللہ کے ساتھ ایک بہت دیرینہ تعلق رہا۔ وہ سفر و حضر حج ع عمرہ ملک و بیرون ملک ہمارے ساتھی و رفیق کار رہے۔ اللہ رب العزت نے ان سے مختلف میدانوں میں ان سے کام لیا۔ اللہ رب العزت نے انہیں دوسری قسم کی زندگی سے ہٹا کرہدایت اور پاکیزہ راہ عطا فرمائی۔ وہ اپنی زندگی کے اندر نہایت متواضع، عاجزی اور انکساری کے پیکر تھے۔ ہمیشہ خوش خلقی کے ساتھ پیش آتے۔ تجربہ اس بات کا گواہ ہے جب کبھی کسی بھی بات پر انہیں متنبہ کیا گیا ہمیشہ سر جھکا لیتے اوراپنی غلطی تسلیم کر لیتے تھے۔ عمر میں ہم بڑے ہونے کے باوجودوہ اس طرح ہمارے ساتھ رہتے تھے جیسے ہمارے شاگرد ہوں۔ اکابر علمائے کرام اور دعوتی ساتھیوں کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت و محبت ہوا کرتی تھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کبھی ا ن کے دشمن کا تذکرہ بھی ان کے سامنے ہوتا تو وہ ان کو بھی معاف کر دیا کرتے تھے۔ اللہ رب العزت نے انہیں تلاوت ذکر نماز حج و عمرہ اور ارشاد دین کی زندگی عطا کی اور وہ الحمدللہ نہایت کامیا ب اور مسرور ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
حدیث میں آتا ہے ۔ ’’جو حج کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتا ہے یا عمرہ کرنے کے ارادے سے نکلتا ہے یا جہاد فی سبیل اللہ کرنے کے ارادے سے گھر سے نکلتا ہے ، اب اگر وہ اس راستے میں فوت ہو جاتا ہے تو اللہ رب العزت اس کے لیے حاجی کا ، عمرہ کرنے والے کا اور غازی کا اجر و ثواب لکھ دیں گے۔ ‘‘ آج بھائی جنید جمشید سرخرو ہو کر انشاء اللہ اللہ کے پاس پہنچے ہیں، اس لیے کہ وہ دعوت و تبلیغ کے راستے میں تھے۔ وہ اللہ کے راستے میں نکلے تھے۔
چالیس دن کی جماعت میں اپنی اہلیہ کے ساتھ تھے جو کی مستورات کی جماعت بھی تھی۔ چترال کے دور دراز کے گاؤں میں ان کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ذرا اندازہ لگائیں اللہ نے اس دوسری قسم کی زندگی سے ہٹا کر انہیں جو زندگی عطا فرمائی وہ نیکی کی زندگی دعوت کی زندگی تبلیغ اسلام کی زندگی، علماء دین داروں ڈاڑھی پگڑی والوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے والی زندگی! اور پھر اس کے ساتھ اب ذرا آخرت کا سفر ملاحظہ کیجیے ۔تبلیغ دین کے اندر ، حالت ِ سفر کے اندر، پھر طیارے کے حادثے میں،ان کی موت ہوئی۔ حدیث میں آتا ہے اگر کوئی کسی وزنی چیز سے ٹکرا کر، یا سر پر کوئی چیزلگنے سے یا ایکسیڈنٹ سے مرتا ہے تو وہ بھی شہید ہے۔ اب ذرا اندازہ لگائیں۔ اللہ کے راستے کی، حالت سفر کی پھر ایکسیڈنٹ کی موت ،انشاء اللہ یہ ان کے لیے شہادت کی موت ہے۔
بہت دل رنجیدہ ہے ۔ جب کبھی مجلس میں ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا تذکرہ آتا تھاتو ہمیشہ معاف کر دینے کی باتیں کرتے تھے ۔ فراخی قلب کی باتیں کیا کرتے تھے۔ حج میں نے میں نے انہیں چیختے ہوئے اور ہچکیوں بھرتے ہوئے اللہ سے رازو نیاز میں مصروف دیکھا۔ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ اپنے مختلف قسم کے تعارف پر بڑے خوش تھے۔ ایک مرتبہ ہم حرم مکی شریف سے نکل رہے تھے کہ ہم نے دو نوجوانوں کو دیکھا۔ وہ آپس میں کہہ رہے تھے۔ ’’ان کو جانتے ہو۔ ‘‘ وہ کہنے لگا ۔’’نہیں۔‘‘ کہنے لگا۔ ’’یہ وہ ہیں مدینہ مدینہ والے!‘‘ اس وقت جنید جمشید اتنے خوش ہوئے۔ اتنے خوش ہوئے۔ اور خوشی کا اظہار کرتے تھکتے نہیں تھے۔ کہتے تھے اللہ رب العزت نے مجھے مدینہ کا تعارف عطا فرمایا۔ اللہ نے مجھے نعت کا تعارف عطا فرمایا۔ پاکستان سے بڑی محبت رکھتے تھے۔ پاکستان کے جھنڈے پر بڑا زور دیتے تھے۔ میں اس بات کا عینی گواہ ہوں کہ پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر ہمیشہ پاکستان سے محبت اور تعلق پر زور دیا۔ اگر وہ ایک طرف اسلام کے مخلص داعی تھے، مبلغ دین تھے ترجمانِ شریعت تھے، واعظ تھے اور مبلغِ قرآن تھے تو دوسری طرف وہ پاکستان کے بے لوث، مخلص ، وفادارمجاہد بھی تھے۔ اللہ نے یہ صفت بھی ان کو عطا فرمائی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ کتنے نادار، مساکین ، فقراء اور غرباء منبع اور ٹھکانہ بنے ہوئے تھے۔ کتنے گھروں کا وظیفہ انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ کتنے ہی ایسے لوگ تھے کہ اگر ان کی خرابی بھائی جنید جمشید کے سامنے آجاتی تو وہ اپنی طرف سے تاویل پیش کیا کرتے تھےکہ یار وہ شاید اس مجبوری میں ہوگا۔ یہ کام شاید اس نے اس وجہ سے کر دیا ہو گا۔ نہیں اس کا یہ مطلب نہیں یہ مطلب ہو گا۔ ابھی ان کے صاحبزادے کے نکاح کے موقع پرپھر ان کے ولیمے کے موقع پر بڑی محبت سے مجھے بلایا کافی دیر میرے ساتھ رہے۔ میں جس جامعہ سے تعلق رکھتا ہوں جامعہ صفہ سعید آباد، اس کے متعلق کہتے تھے یہ میرا تعلیمی ادارہ ہےاور انہوں نے باقاعدہ لکھوایا تھا کہ میں یہاں سٹوڈنٹ اور طالبعلم ہوں۔ میرے والد صاحب نے ایک بار ازراہِ مذاق ان سے فرمایا۔’’طالبعلم اگر جرم کرتے ہیں تو ہم انہیں سزا بھی دیتے ہیں۔ ‘‘ توبہت خوشخلقی کے ساتھ بار بار کہتے تھے کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ ایک بار مجھ سے کہنے لگے۔ ’’مجھے سورۃ الدہر کی وہ آیات یاد ہیں جب میں ایک بار آپ کی مسجد میں آیا اور آپ کے والد صاحب نے عشاءکی نماز میں وہ آیات تلاوت کیں۔‘‘ تو میں بہت ہی خوشی اور مسرت کے ساتھ یہ بات آج کی اس مختصر تعزیتی نشست کے اندر کہنا چاہتا ہوں کہ ابھی جس وقت ان کے ورثاء اور قریبی رفقاء سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ آج بھی چلاس کی مقامی مسجد کے اندر انہوں نے امام مسجد سے سورۃ الدھر کی آیات تلاوت کرنے کی فرمائش کی اور کہا۔ ’’جس طرح اللہ نے سورۃ الدھر کے اندر حوروں کا تذکرہ کیاجنت کی نعمتوں اور جنت کے پیالوں کا تذکرہ کیا وہ آیا ت سناؤ۔ ‘‘گویا کہ یہ ایک اشارہ مل رہا تھا ان کو اور جس منزل کی طرف وہ جارہے تھے اسی کا تذکرہ کرتے کرتے وہ چلاس کے اس گاؤں سے نکلے ہیں ۔ جنت کا تذکرہ آخرت کا تذکرہ اللہ سے ملاقات کا تذکرہ، پھر تبلیغ دین کاسفر، دعوت دین کا سفر، یہ ساری کی ساری فالیں انشاء اللہ نیک ہیں۔
دراصل وہ ایک پیغام بھی دے کر گئے ہیں۔ بھائی لوگو! میں جا رہا ہوں۔ یہ دنیا بڑی مختصر اور زندگی فانی ہے۔ میں جارہا ہوں اور ایک پیغام دے کر جارہا ہوں کہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کے ساتھ اخلاص کا تعلق رکھو۔ دین داری تبلیغ اسلام دعوت دین کا اپنا اوڑھنا بچھونا بناؤ۔ لوگوں کے ساتھ خوش خلقی عاجزی انکساری اور تواضع کے ساتھ پیش آؤ۔ اس وقت ان کی ایک مشاورت چل رہی تھی ہمارے ساتھ کہ وہ کراچی میں ایک سماجی ورکر کے طور پر سامنے آنا چاہتے تھے۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ مجھے سڑک پر جھاڑو دینے میں کوئی عارنہیں ہے۔ میں اگر لوگوں کی خدمت کروں تو مجھے ذرہ برابر کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ وہ اپنی جگہ ایک داعی اسلام تھے، سماجی ورکر تھے مبلغ دین تھے، دعوت تبلیغ کے وہ اہم ترین فرد تھے۔ میں سمجھتا ہوں ان کی موت پوری امت کی فضاء کو سوگوار کر گئی ہے۔ جدائی کے یہ لمحات ہم سب کے لیے انتہائی دکھ اور رنجیدگی لیے ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت بھائی جنید جمشید کی بخشش فرمائےا نہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے صاحبزادے کی وفات پرکہا تھا۔ ’’اے ابراھیم ہم تمھاری جدائی پر بہت غمزد ہ ہیں۔ ‘‘ تو آج انہی کی اتباع کے اندر یہ کہنے کو دل کرتا ہے کہ ہمارے دیرینہ رفیق اور ساتھی مخلص داعی ٔ اسلام ، جنید جمشید تمھیں ہمارے دلوں کا سلام پہنچے۔ ہمارے دل تمھاری جدائی پر انتہائی غمزدہ ہیں۔
انا للہ و اناالیہ راجعون۔