آسمان پر بے شمار ستارے ہیں۔کچھ بڑے کچھ چھوٹے۔ ہم مگر انہی کوجانتے ہیں جن کی چمک ہماری زندگی اور ہمارے ادراک تک پہنچ پاتی ہے۔ انسانوں کا حال بھی یہی ہے۔ جن کے احوال ہم جان لیتے ہیں اور جو ہمارے احوال تک پہنچ پاتے ہیں، وہی ہماری یاد اور ہماری زندگی کاحصہ بن پاتے ہیں۔ جنید جمشید ا س کی تازہ مثال ہے۔ لوگوں نے کہا پی کے 661 میں موت کے سفر پر نکلے کل 42 مسافر تھے اور باقی 5جان ہارنے نکلے لوگ جہاز کے عملے پر مشتمل تھے۔ 2 فضائی میزبان، ایک پائلٹ، ایک اس کا معاون اور ایک فرسٹ آفیسر۔
پھر ان آخری سفر کے مسافروں کی بھی تقسیم تھی۔ 9خواتین تھیں۔ 2دودھ پیتے بچے تھے۔ 3غیر ملکی بھی تھے۔ یہ معلومات بھی دماغ کا دامن کتنے کانٹوں سے بھر دیتی ہیں کہ طیارے کے پائلٹ صالح یار جنجوعہ کے ساتھ اس دن جو ٹرینی پائلٹ تھے وہ پائلٹ کے بیٹے احمد یار جنجوعہ تھے اور فضائی میزبان بھی اسی پائلٹ یعنی صالح یار جنجوعہ کی اہلیہ تھیں۔ سب آنِ واحد میں راکھ ہوکے حویلیاں کے پہاڑوں میں بکھر گئے۔یہ سب چترال سے چلے تھے۔وہ چترال، جسے اپنے آخری ٹویٹ میں جنید جمشید نے جنت قرار دیا تھا اور پھر وہ جنت ہی کے راستے پر راہی ملک بقا بھی ہوگئے۔ جنید نے جہاز کے پائلٹ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ ایک تصویر بھی بنوائی تھی۔ پرواز سے کچھ دیر پہلے۔ خیال یہ رہا ہوگا کہ یہ اس سفر کی آخری تصویر ہوجائے گی۔ وہ مگر سفرِ زندگی ہی کی آخری تصویر ثابت ہوگئی۔ اخبارات نے وہی تصویر چھاپی ہے۔ اب اخبارکبھی اس کی کوئی تازہ تصویر نہ چھاپ سکیں گے۔لوگ کہتے ہیں جہاز میں صرف جنید تونہ تھا۔ ہر فرد کسی ماں کا یا کسی کنبے کا جنید ہی تھا۔ جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ انسان ہی کیا کسی بھی جان دارکی زندگی تلف ہونا دردناک ہے۔ مگر یہی دیکھیے، باقی مسافروں کا تعارف بھی آپ نے ”وہ کسی نہ کسی کنبے کے جنید جمشید ہوں گے“ کہہ کے کروایا ہے۔ تو وہ اپنی پہچان رکھتا تھا۔ سو لاکھوں دلوں نے اس کے دکھ کو زیادہ محسوس کیا۔ یہ فطری بات ہے ۔ کئی سال پہلے وہ ایک دن اسی طرح اچانک طلوع ہوا تھا۔ بالکل اسی طرح اچانک غروب ہوگیا۔ سکرین سے اٹھا اور سکرین ہی پر ڈوب گیا۔ مگر اس دوران کی کہانی اس کی اصل کمائی ہے۔ جس دن وہ طلوع ہوا اس کے ہاتھ میں گٹار تھا۔ سر پر بہت بال تھے۔ جس دن غروب ہوا، ہاتھ میں تسبیح تھی اور سر کے بال کم ہوکے رخساروں پر آگئے تھے۔ جس دن وہ پہلی بار سامنے آیا، اس کی سنگت میں میوزک بج رہا تھا، نغمہ اس وقت بھی اس کے لبوں پر پاکستان کی محبت کا گونجتا تھا، اب جب گیا ہے تو میوزک غائب ہوچکا تھااور اس کی جگہ اس کے اخلاص بھرے سوزِ دروں نے پر کردی تھی اور اب کے نغمہ اس ذات کی محبت کا گونج رہا تھا، جس کے نام پر پاکستان بنا اور انسان عظمت سے کھڑا ہے۔ باقی و ہ بڑی مضبوط قوتِ ارادی کا مالک تھا۔ اس قوتِ کار کو اس نے ایمان کے لیے آمادہ اوررام کرلیا تھا۔ افسوس ہمارے میڈیا کے بھائی مغربی رجحان کے آگے ابھی تک بے بس ہیں۔ ورنہ ایک مسلمان معاشرے میں کسی کے رنگ و بو کے عروج کو تیاگ کے آنے کی خبر کوئی چھوٹی خبر نہیں ہوتی۔ یہ انسانی ارادے،کردار اور ایثار کی بھی ایک نادر مثال ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں مگر گویا ایسا کرنے والا ہیرو میڈیا کی لائم لائٹ سے نکل جاتا ہے۔ یوسف یوحنا کو بھی ہمارے میڈیا نے دفن کردیا۔ وہ کسی مغربی ملک میں ہوتا تو اس پر کتابیں لکھی جاتیں۔ یہی حال ”ہم سب امید سے ہیں“ کی شہرت یافتہ فنکارہ کا ہوا۔ یہی کچھ میڈیا جنید جمشید کے ساتھ بھی کرجاتا۔وہ مگر بڑا صاحبِ عزم آدمی تھا۔ بڑی قوت لے کے آیا تھا۔ چنانچہ میڈیا سے دب نہ سکا۔ اس نے اپنی صلاحیت کا رخ موڑا اور عشق ِ رسول میں ڈوب کے بڑی سریلی نعت پڑھی۔ اس نے ایسی دل لگاکے حمد پڑھی کہ معلوم ہوا اس حوالے سے مسجد کے سپیکر سے نکلتی روایتی صداکے علاوہ بھی بڑی گنجائش ہے۔ اسے راہیں بنانا آتی تھیں۔ بہرحال اس نے اپنی آوازاور وقت کو اپنے رسول کے مشن کے لیے وقف کردیا۔ اس کے عشقِ رسول کی عملی کہانیاں ان کے واقفانِ حال کل روتے اور سسکتے ہوئے سنا رہے تھے۔ ان کے ساتھی اینکر وسیم بادامی کہہ رہے تھے سخت معاصر مخالفوں کو معاف کر دینے کے لیے اپنی نجی محفل میں وہ مجھے یہ کہہ کر قائل کرتے کہ سوچو، وسیم اگر ہم مخالف کی گالی کے جواب میں حسنِ اخلاق برتتے رہیں او روہ اگر ہم سے قائل ہوجائے توکل حشر میں ہمارے رسول کتنے خوش ہوں گے۔ اب ا س کی سوچ کا یہی مرکز تھا کہ رسول کیا کہیں گے۔ چنانچہ اس نے جینز کو شلوار قمیص سے او رمغربی اسلوبِ حیات کو محمدی ڈھب میں رنگ لیا۔وہ زاہد خشک کبھی نہ بنا۔ اس نے پرانے دوستوں سے رابطے استوار رکھے۔ گلوکار جواد احمد کہہ رہے تھے کہ وہ جیسے پہلے تھے ویسے ہی بعد میں بھی رہے۔ ہاں جب بھی موقع ملتا ہمیں سمجھانے لگتے۔محبت اور وارفتگی میں کبھی اس کے لفظ ادھر ادھر بھی ہوجاتے تھے۔ اس کا زیادہ قصور اس میں نہ تھا کہ وہ ایک پوری بات کہنے کا عادی تھا، مگرپورا علم ظاہر ہے اسے حاصل کرنے کا موقع نہ مل سکا تھا۔ مگر جذبہ اس میں دگنا تھا۔ چنانچہ گاہ اس کی زبان پھسل جاتی۔ بدنیتی مگر اس کی نہ ہوتی تھی، اس کے مخالفین کی ہوتی تھی۔نبی کا عملی امتی بن جانے پر نبی کے بعض روایتی امتیوں نے اسے وہ سب کچھ کہا جس سے اس کا دل دُکھا، اس کی تجارت کو، اس کی عبادت کو اور کبھی اس کے کرتے کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ کبھی ہنس کے اور کبھی آنسو بہاکے وہ مگر ڈٹا رہا۔ایک اینکر نے پوچھا کبھی پرانی زندگی چھوڑنے پر افسوس ہوا۔ ایک لمحہ سوچے بغیر جنید نے پوری قوت سے کہا کبھی نہیں۔ اس نے موجودہ زندگی کو پرانی زندگی سے ناقابلِ موازنہ قرار دیا۔ جو آدمی ایک خاص طرح کے ماحول میں جنما اور جیا۔ اگر وہ اسی میں جی لیتاہے تو یہ بھی کمال سمجھنا چاہیے مگر دولت، شہرت اور مادی عظمت کے جس آسمان پر وہ جی رہا تھا، اسے قلندارنہ جھٹک کے چلے آنا ایک غیر معمولی او رقوتِ ایمان سے متصف آدمی ہی کا کام ہے۔ مگر اسے اس کی بھی سزادی گئی۔دراصل ہمارے ہاں کوئی بھی شخص جب تک دینداروں سے دور رہتا ہے ہمارے دینی ریڈار اس کی لہریں محسوس ہی نہیں کرتے۔ جب وہ قریب آجاتا ہے توہم دیکھتے ہیں کہ وہ کن کی مسجد میں گیا؟ پھر اس مسلک کے سو اباقی سب اسے سینگوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ چنانچہ آج اسے وہ لوگ بھی گالیاں دے رہے ہیں جنھوں نے دین کے لیے جنید جتنی قربانی دینے کا کبھی سوچا بھی نہیں۔ اس کے ایمان کا فیصلہ وہ لوگ کررہے ہیں جنھیں شاید اسوہ رسول کی صحیح خبر بھی نہیں۔ لوگ اس کے بارے میں یوں بات کرتے ہیں، جیسے اللہ نے اپنا سارا نظامِ حساب انھی کے ہاتھوں دے دیا ہو۔ یا کم ازکم انھیں اپنے حوالے سے کوئی خدائی کلیئرنس سرٹیفیکیٹ مل گیا ہو۔ یا خدا نے اعلان کردیا ہو کہ اب وہ قطعی رحیم اور غفار نہیں رہا۔درست فریایا منفرد کالم نگار عامر ہاشم خاکوانی صاحب نے کہ ایسے بے ضمیر اور بے حس لوگوں کی ذہنی ابکائی کو بے اعتنائی کی ریت تلے دبا دینا ہی ان کا موثر ترین جواب ہے۔ بہرحال ہمیں خود کو خدا ہونے سے روکنا چاہیے۔ میں جب بھی فضا میں جلتے ہوئے جہاز میں راکھ ہوتے زندہ انسانوں کے جسموں کی بو، چیخوں کے آہنگ میں نکلتے ان کے کلہ طیبہ کے ورد اور بے بسی کے گہرے کنویں میں گرتے ان کے وجودوں کا تصور کرتا ہوں تو میری ہڈیوں کا گودا بھی کانپ اٹھتا ہے۔ پھر مجھے یاد آتا ہے کہ ہمارے شفیق پیغمبر نے آگ میں جل کے رب کے ہاں پہنچنے والے مسلمانوں کو شہادت کی خوشخبری سنائی ہے۔ چنانچہ بطور انسان اور بطورمسلمان ہمیں اپنے ان بھائیوں کی موت کے بارے شہادت ہی کی امید ہے۔ اللہ ان کے لواحقین کو صبر دے اور اللہ تمام مسلمانوں کی حفاظت فرمائے۔ جنید جمشید کی زندگی اور موت دونوں ہی بہرحال قابلِ رشک ہے۔