’’بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ اس وقت میں رنج و غم کی فضا میں گفتگو کر رہا ہوں۔ ایک ایسے موقع پر جبکہ ہمارے بہت ہی عزیز اور پیارے دوست، جن کو آج مرحوم اور رحمہ اللہ کہتے ہوئےکلیجہ منہ کو آرہا ہے، وہ طیارے کے حادثے میں شہید ہو گئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون!
اس دنیامیں ہر ایک کو جانا ہے۔ کوئی بھی موت سے مستثناء نہیں۔ بعض لوگوں کا جانا ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے دلوں گہرے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ اللہ نے میرے عزیز جنید جمشید کو بعض ایسی صفات سے نوازا تھا جو اس دور میں کمیاب و نایا ب ہیں۔ وہ اپنے اخلاق کے اعتبار سے، اپنے تدین کے اعبتار سے اورحسن سلوک کے اعتبار سے نئی نسل کے لیے روشن مثال تھے۔
سب لوگ جانتے ہیں وہ اپنی ابتدائی زندگی میں سنگر کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ اس حیثیت سے انہوں نے جتنی رونقیں اور عزتیں کمائیں، وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔ ایسی حالت میں جب ساری دنیا ان کے گن گارہی تھی اور دولت ان کے قدموں میں نچھاور تھی، ان کو اللہ نے آخرت کی فکر عطافرمائی۔ انہوں نے ظاہری دنیا کے مفادات کو پامال کر کے خالص اللہ کے لیے دنیوی زندگی کو خیر باد کہا۔ یہ عظیم قربانی اللہ کے لیے دی۔ پھر کھلی آنکھوں اللہ کے اس وعدے کا مشاہدہ کہ جو اللہ کےڈر سے غلط کام چھوڑتا ہے اسکو اللہ ایسے سبب سے رزق عطاکرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
پھر انہوں نے گلی گلی کوچے کوچے اللہ کا پیغام پہنچایا۔ ان کی اصلاحی نظمیں زبان زد عام ہو گئیں۔ بچے بچے کی زبان پر ان کی نعتیں پہنچ گئیں۔ میر ی مناجات ’’الہی تیری چوکھٹ پر‘‘ میں نے تو لکھ کر رکھ دی تھی۔ انہوں نے پڑھ کر کل عالم میں پہنچا دی۔ اس راہ میں جب کوئی چلتا ہے تو اس کو آزمائشیں بھی پیش آتی ہیں۔ یہ داعی حق کے سر کاتاج ہوتی ہیں۔ ان کو بھی مشکلات سے گزرنا پڑا۔ جب اللہ کا بندہ سیدھے راستے پر چلتا ہے اور اس پر بھروسہ رکھتا ہے تو اللہ بھی مدد فرماتے ہیں۔ الحمدللہ آزمائشوں کے بادل بھی چھٹ گئے۔ آخری سفر بھی ان کا اللہ کے راستے میں تھا۔ آخری جمعہ چترال میں پڑھایا۔ یہ آیت تلاوت کی۔’’ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے پروردگار کے مقرب ہیں کھاتے پیتے ہیں وہ خوش ہیں اس چیز سے جو ان کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے عطاء فرمائی۔‘‘ (سورۃ البقرہ) یوں ایک خاص پیغام دیا۔اللہ نے ان کو اپنے پاس بلا لیا اور شہادت کا رتبہ عطا کیا۔
ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو برائی کا بدلہ اچھائی سے دیتے ہیں۔ جو لوگوں کی طعن و تشینی سے بے نیا ز ہو کر اپنے کام میں لگے رہیں۔ ان پر فقرے کسے گئے ۔یہاں تک کہ جانی اذیت بھی پہنچائی گئی۔ لیکن انہوں نے سب برداشت کر لیا اور امت کے اتحاد میں لگے رہے۔درحقیقت ان کی زندگی نئی نسل کے لیے مثال ہے۔
آج ان کی جدائی پر ہر آنکھ اشکبار ہے۔ ہر دل رنجیدہ ہے۔ یہ خیال آتا ہے کہ جس مقصد کے لیے ان کی زندگی گزری، اللہ نے اس مقصد تک شہادت کے ذریعے پہنچایا۔
مجھ کو رات سعید انور صاحب بتا رہے تھے کہ انہوں نے اپنے حالیہ کسی بیان میں لوگوں سے درخواست کی کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہیں۔ ان میں سے یہ بھی دعا تھی کہ اللہ اپنے راستے میں موت عطا فرمائے۔
کتنا خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے اپنی زندگی میں انقلاب لا کر اللہ کی رضاکے لیے خود کو تج دیا اور پھر اللہ کے راستے میں اللہ سے شہادت کی دعا مانگی۔ پھر جاتے جاتے عظیم پیغام ہم سب کو دے گیا کہ خوش نصیب وہ ہے جو موت سے پہلے موت کا سامان کر لے۔ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو قابو کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے۔ دنیا کے لیے اتنا عمل کرے جتنا دنیا میں رہنا ہے اورآخرت کے لیے اتنا کرے جتنا آخرت میں رہنا ہے!‘‘