’’ معاشرے اور سنت کی جنگ ازل سے چل رہی ہے میرے دوستو! یہ آج کا قصہ نہیں ہے۔ قیامت تک ایسے لوگ آئیں گے جو ہماری رہنمائی کریں گے۔ یہ اللہ کا احسان ہے اس امت پر۔ جو ہمیں بتائیں گے نبی کی زندگی کون سی ہے۔ دل میں تم چاہتے ہو بہاریں آئیں اس کے لیے کس راستے پر چلنا پڑے گا۔یہ وہ لوگ ہمیں بتائیں گے۔ بس کرنا کیا ہے ان کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ ان کو سچا سمجھنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میں نے اپنی زندگی پر سب سے بڑا حسان یہ کیا... باوجود اس کے کہ میں گانے والی زندگی میں تھا ... میرا دل اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ یہ جو تبلیغ والے ہیں یہ صحیح لوگ ہیں ۔ سچے لوگ ہیں۔ مجھے آج تک یاد ہے سولہ سترہ ہزار کا مجمع میرے سامنے ہوتا تھا اور مولانا طارق جمیل باہر گاڑی میں میرا انتظار کر رہے ہوتے تھے۔ جب پروگرام ختم ہوتا تھا۔ اوپر جاتا تھا۔شلوار قمیص پہنتا تھا ۔نہاتا دھوتا تھا اور چھپ چھپا کر ان حضرات کی گاڑی میں بیٹھ جاتا تھا۔
دعوت کی بات تو اتنی سیدھی سادی ہے۔ اللہ کریں گے۔ سب کچھ اللہ کریں گے۔یہ سمجھ تو آتی ہے بات لیکن دل نہیں مانتا۔ جب میں نے رائیونڈ میں پہلی بار یہ سبق سنا تو میں نے فوراً کہا نہیں! میں یہ کس جگہ آگیا!محنت سے مال نہیں ملتا۔ مال سے چیزیں نہیں ملتی۔ چیزوں سے راحت نہیں ملتی۔ راحت اللہ کے حکموں میں ہے۔ یہ پہلا سبق جو رائیونڈ میں، میں نے سنا اور سنتے ہی دماغ نے انکار کر دیا۔ محنت سے مال نہیں ملتا تو مال کہاں سے آتا ہے اور مال نہیں ہو گا تو چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ میں نے ایک دوست کو دیکھا۔ ذرا سی اونچی آواز میں ذکر کر رہا تھا۔ ’’دنیا دھوکے کا گھر ہے مچھر کا گھر ہے!‘‘ میں نے کہا کیا بول رہا ہے تُو۔ کہتا ہے۔’’ میں بول رہا ہوں دنیا دھوکے کا گھر ہے مچھر کا گھر ہے۔‘‘ میں نے کہا۔’’ یہ کیسا ذکر ہے۔‘‘ کہنے لگا ۔’’ ارے یہی تو سب سے اہم بات ہے۔‘‘ میں یہ روزانہ تین سو دفعہ پڑھتا ہوں۔ (مسکراتے ہوئے) اور دل کہتا ہے نہیں۔ ہاں مان بھی جاتا ہے کبھی ۔۔ پھر کہتا ہے ۔۔ ’’لیکن!!!‘‘ اس لیکن کاکیا مطلب ہے کہ پچھلی ساری باتیں فضول تھیں اب جو میں بات کرنے لگا ہوں وہ اصل بات ہے۔ یہ ’’لیکن‘‘ اللہ سے پہلے لگا لیں اللہ سے بعد میں نہ لگائیں۔
اللہ کی ساری باتیں سچی ہیں۔ ہمارے یقین کمزور ہیں۔ جب یقین قوی ہو جاتا ہے تو اللہ کی قسم جو دعا مانگو قبول ہو گی۔ رب خود کہ رہا ہے میں تو تمھاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ وھو معکم این ما کنتم۔ کتنا حوصلہ ہوتا ہے یہ سن کر۔ گھبراؤ نہیں میں تمھارے ساتھ ہوں تم جہاں بھی ہو۔ یہی بات موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے کہی تھی۔ یہی بات حضور ﷺ نے ابو بکر سے کہی تھی کہ گھبراؤ نہیں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اب مجھے کیسے یقین آئے اس بات کا ؟ اس کی محنت ہے دعوت! دعوت اللہ سے لینا ہے۔سیاست لوگوں سے لینا ہے۔
سب سے قیمتی رشتہ اس معاشرےمیں میاں بیوی کا ہے۔ اس ملک میں unemployment کا نعرہ کیوں نہیں لگتا۔ رزق کی تنگی کا خوف شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ کھائے گا کہاں سے؟ جب وہ انسان کو فقر کے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے تو اس کے بعد شیطان کے لیے انسان سے ہر قسم کی بے حیائی کرانا آسان ہو جاتا ہے۔ باہر ملک میں میاں بیوی کا تعلق یہ ہے کہ تُو بھی کام کر کرہی ہے میں بھی کام کررہا ہوں۔ اگر تم نے نوکری چھوڑی تو گھر بھی چھوڑ دینا۔ رشتہ کی بنیاد پیسہ ہے۔ یہاں ہم کیوں بچے ہوئے ہیں؟ کیونکہ میاں بیوی کا رشتہ مضبوط ہے۔
خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کے والدین زندہ ہیں۔ باپ اوربیٹے کے بیچ رشتہ انتہائی نازک ہوتا ہے۔ اس لیے جس بیٹے نے اپنے باپ کو راضی رکھا تو جو دعا باپ کے دل سے نکلتی ہے اس کے اور اللہ کے بیچ کوئی حجاب نہیں ہوتا۔آج اس کو کہ رہے ہو۔ ارے ڈیڈی آپ کو کیا پتہ! اف ! ایک مرتبہ اس کو غور سے دیکھو ۔ آج اگر یہ نہ ہوتا تو تُو بھی نہ ہوتا۔
ہمارے اوپر چار رشتے فوراً متوجہ رہتے ہیں۔ باپ،استاد، سسر اور باپ کے دوست۔ ان کی دعا وہی طاقت رکھتی ہے جو باپ کی دعا طاقت رکھتی ہے۔ کیا عجیب دین ہے ۔ باپ کے دوستوں کا بھی خیال رکھنے کا کہا گیا ہے۔ والد کے دوست اس بات کی تمنا کرتے ہیں کہ بیٹا میری اتنی ہی عزت کرے جتنا اس کا باپ اپنی زندگی میں کیا کرتا تھا۔
آپ یقین کرو آپ باہر جانے کی تمنا کرتے ہو۔وہاں یہ حال ہے کہ آپ کے سامنے بیٹھ کر کوئی کھارہا ہو گا اور آپ کو پوچھے گا بھی نہیں۔ وہ سوسائٹی دوسری بنیادوں پر زندہ ہے۔ وہاں عدل ہوتا ہے۔ بدمعاملگی نہیں ہوتی۔ وہاں تاجر دھوکہ نہیں دیتا۔ وہ اس بات کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ ہماری وجہ سے کسی اور کا نقصان ہو جائے۔ اس لیے جب وہاں کوئی چیز خریدن جائیں گے تو وہاں بڑا بڑا لکھا ہوتا ہے refund۔ اسی لیے وہ وہاں سیل لگاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے میں اور میرا دوست کاروبار کرنے لگے تو ہم مفتی تقی عثمانی صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے فرمایا۔ تین کام کرو۔ ایک یہ لکھ لو کہ کس کس بنیاد پر یہ کاروبار ختم ہو گا۔ دوسرا اس بات کا عزم کرو کہ ایک دوسرے کو دھوکہ نہیں دو گے۔ اس بات کی بیت کرو کہ اس کاروبار سے ہم نے مسلمانوں کو نفع پہنچانا ہے۔ یہ بات تو ہم نے سوچی ہی نہیں تھی۔ فرمایا کہ اگر یہ تین کام کر لیے تو تمھارا تیسرا پاٹنر اللہ ہو جائےگا۔ اللہ کی قسم۔ اگر اللہ کاروبار میں ساتھ دے رہے ہوتں گے تو مزہ آجاتا ہے۔ اگر خود کرنا پڑے تو چھٹیئ کا دودھ یاد آجاتا ہے۔ ایک دفعہ کیا ہو ا نیا نیا کام تھا۔ شلوار قمیص کا نمونہ کاٹا تو غلط کاٹ دیا۔ تو ہمارے ساتھ ایک ساتھی آئے تو بنگلہ دیش سے تھے۔ کہنے لگے ہمیں بنگلہ دیش کے لیے کپڑے چاہئیں۔ تو وہ ایک ہزار سوٹ منافع کے ساتھ بک گئے اور ہم پورے رمضان مکھیاں مارتے رہے کہ کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں! اللہ فرماتے ہیں جو میرے سے ڈرے گا تو اللہ اسے چار انعام دیں گے۔ ہر مشکل سے نکال لوں گا۔ رزق وہاں سے دوں گا جہاں سے تو تصور بھی نہیں کر سکتا۔
میرے دوستو اللہ آپ کا بیٹھنا قبول کرے۔ ا للہ میرے بھائی شفیق بھائی اور ان کے ساتھیوں کو بہت بہت دعائے خیر دے۔ بات میری ختم۔ بس ایک چھوٹی سی بات عرض کر رہا ہوں۔ اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ دیکھو آپ کسی کی بیٹی کو ہیشہ کے لیے لے کر آتے ہو۔ میں کسی اور کے گھر جا کر رہوں میں خود تنگ آجاؤں گا۔ اب لڑکی سب چھوڑ کر تمھارے گھر آجاتی ہے۔ بد قسمتی سے شوہر اسے پہلی بات کیا کہتا ہے۔ دیکھو میری فکر نہ کرنا بس میرے ماں باپ کا خیال رکھنا۔ کیوں؟ کیا تم اس کے ماں باپ کا خیال رکھنے کے لیے تیار ہو۔ بھئی تم کسی نوکرانی کو لائے ہو کیا؟ اتنی محبت دو اس کو کہ تمھاری محبت میں وہ ڈوب کر وہ کہے کہ شوہر کو خوش رکھنا ہے تو اس کے ماں باپ کا خیال رکھوں گی۔ یہ ساس اور بہو کا رشتہ ایسا ہے کہ ازل سے ابد تک ہے جیسے شیشے کے دو برتنوں کا ملنا کہ شور ضرور ہوگا۔ مولانا طارق جمیل فرمانے لگے کہ جب بیٹے کی شادی کرنے لگے تو ایک سال تک اپنی بیوی کی ٹرینگ کی۔ کہ جیسے تمھاری بیٹی دوسرے گھر گئی ہے اسی طرح کسی اور کی بیٹی تمھارے گھر آئے گی۔ مولانا سعید احمد خان صاحب کی بات مجھے کسی نے بتائی کہ کسی کے گھر کھانا کھاتے تھے تو کہتے تھے اب جاؤ گھر والی کاشکریہ ادا کر کے آؤ کہ کھانا اس نے پکایا ہے۔ ایک گھر میں جب گئے اور اس طرح کہا تو گھر والی پردے میں آکر کہنے لگی ۔ حضرت آج آپ سے پہلی دفعہ کھانے کی تعریف سنی ہے۔ تیس سال ہو گئے شادی کو اس بندے نے آج تک میرے کھانے کی تعریف نہیں کی۔ ایک آدمی آیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملنے گیا تو سنا اندر سے ام کلثوم جھگڑ رہی ہیں امیر المومنین سے۔ تھوڑی دیر بعد امیر المومنین باہر آئے اور پوچھا کہ کیا ہوا۔ تو اس نے کہا حضرت آپ کو بھی بیوی بھی آپ سے جھگڑتی ہے؟ تو حضرت عمر کہنے لگے کہ کیا ہوگیا۔ دیکھو میرے گھر کا خیال رکھتی ہے۔ اس کی وجہ سے اللہ نے اولاد دی۔ جب اولاد ہوری تھی تو اس کا سارا جسم خراب ہو گیا۔ میرے گھر کا خیال رکھتی ہے۔ میرے کپڑے دھوتی ہے۔ اگر میں نے اس کی تھوڑی سی بات سن لی تو کیا ہو گیا۔تو دوستو! میں تمھیں ایک چھوٹی سی بات بتاؤں۔ جب میری شادی ہو ئی ناں تو میرے ماموں سسر نے کہا۔ میں تمھیں خوبصورت زندگی کا فارمولہ بتاؤں۔ جب لڑائی ہو تو فوراً منا لینا۔ کیونکہ اس نے رہنا تو ساتھ ہی ہے۔ اگر یہ منہ بسور کر رہے گی تو اپنی پرابلم ہے۔ ٹینشن ہے۔ غلطی اس کی ہو گی تو بھی نہیں مانے گی۔(مسکراتے ہوئے) گھر والی کے ساتھ اچھا سلوک۔ یہ ہے طریقہ خوبصورت زندگی گزارنے کا۔ ہم نے ساری دنیا کو بتانا ہے کہ گھر کی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ باہر جاؤ۔ بہت بے وفائیاں کرتے ہیں ایک دوسرے سے۔ شوہر بیوی کا نہیں۔ بیوی شوہر کی نہیں۔ گھر کی زندگی ٹوٹی ہوئی ہے۔ میں ان لوگوں سے کہتا ہوں آپ لوگوں کو false sense of security دیتے ہیں۔ جھوٹی باتیں ہیں آپ کی۔ سچائی کی زندگی ہمارے پاس ہے۔ہم نے اس کو پریکٹس کرنا ہے۔ یہ ہم نے سارے عالم کو بتانا ہے۔اللہ آپ لوگوں کو جزائے خیر دے۔ اللہ آپ سب کا بیٹھنا قبول کرے۔