Harf e awwal

وہ ان سب لوگوں کی دسترس، طعن و تشنیع اور بغض و حسد سے بہت دور اس بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوچکا ہے جہاں اس کے پاس پیش کرنے کے لیے بہت اثاثہ ہے۔ ایسا اثاثہ، ایسی جمع پونجی، جس پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم بھی فخر کرتے ہوں گے۔ جس کی نعتیں لوگوں کے دامن آنسوؤں سے تر کردیں، جو حمد میں اللہ کے سامنے اپنے عجز کا اظہار کرے،گناہوں پر ندامت کا تذکرہ تو لوگوں کی ہچکیاں بندھ جائیں، اسے کس قدر نازو محبت سے عرش والوں نے تھاما ہوگا۔ وہ جو فرش والوں کو اپنے رب سے قریب کرنے کے لیے اس عالم شباب میں وہ سب کچھ چھوڑ کر اللہ کی راہ پر چل نکلا جسے شہرت، دولت اور اس کی دھنوں پر رقص کرتا ہجوم شامل تھا۔ سعدی نے کیا خوب کہا ہےدر جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری استوقت پیری گرگ ظالم می شود پرہیزگار’’جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ ہے۔

 

بڑھاپے میں ظالم صفت بھیڑیا بھی پرہیزگار ہوجاتا ہے۔‘‘ یوں تو عالم شباب میں ہدایت کی جانب پلٹ آنا ہی اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے لیکن اللہ کے لیے شہرت کو قربان کرنا سب سے بڑی قربانی ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں ایسے اداکاروں، گلوکاروں یا فنکاروں کی کمی نہیں جو زندگی بھر کیمروں کی چکا چوند اور اسٹیج کی رونق میں ایسے تمام سین قلمبند کراتے اور ایسے تمام جملے بولتے نظر آتے ہیں جو فحش کے زمرے میں آتے ہوں یا پھر ایسی اقدار کی ترویج کرتے ہوں جن سے دین بھی ہاتھ سے جاتا ہو اور معاشرہ بھی بگڑے۔ شہرت ان کا طواف کررہی ہوتی ہے۔ مال و دولت ان پر نچھاور ہورہی ہوتی ہے۔ یہ لوگ اپنی شہرت کے نشے میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ بس اس قدر ڈرتا ہے کہ اپنی اس کمائی سے ایک خطیر رقم خیرات کردیتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسی شوبزنس کی کمائی سے ہرسال ایک عمرہ یا حج ادا کردیتا ہے۔یہ بھی اللہ کے راستے کی جانب ایک قدم ہے۔ لیکن اللہ کے لیے خالص ہونے کے لیے، اللہ کے دین میں پورے کے پورے داخل ہونے کے لیے کوئی اپنی شہرت کو قربان نہیں کرتا۔ شہرت کی قربانی انسان کی سب سے بڑی قربانی ہوتی ہے کیونکہ یہ وہ نشہ ہے جسے حاصل کرنے کے لیے انسان اپنا مال و دولت اور محنت و تندرستی سب داؤ پر لگا دیتا ہے۔جنید جمشید نے جب شہرت کو ٹھوکر مار کر اللہ کے راستے کی فقیری اختیار کی، وہ اس وقت پاکستان کا مقبول ترین گلوکار تھا۔ دولت تو اس پر برس ہی رہی تھی لیکن جدید دور کے ایک سیکولر ذہن والے نوجوان کے لیے یہ کس قدر لذت و انبساط کا باعث تھا کہ جب وہ اسٹیج پر گارہا ہو تو رقص کے دیوانے نوجوان اپنا ہوش حواس کھو بیٹھیں اور ان میں اکثریت نوجوان لڑکیوں کی ہو جو برابر اس کے ساتھ جھوم رہی ہوتی۔ اس نشے کو اللہ کے راستے پر ترک کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ دولت، آرام، آسائش، گھر بار تو قربان ہوجاتا ہے لیکن ایسی شہرت جس میں تسکین نظر کے سامان بھی موجود ہوں اس کا حوصلہ صرف اور صرف جنید جمشید کو میسر آیا۔ اس نے دنیا کی لذت میں سب سے مرعوب لذت کو اللہ کے لیے چھوڑا۔ اسی لیے مجھے یقین ہے اس کی پذیرائی بھی سب سے مختلف ہوگی۔ ایسے ہی مومن کے بارے میں اقبال نے کہا ہے۔قدم بے باک ترے از ہجوم جان مشتاقانتو صاحب خانۂ آخر چرا و زوانہ می آئی’’جنت میں حوران بہشت مشتاق دید کہیں گی کہ تو بے باک قدم ہوکر اس گھر میں داخل ہوجاؤ، کیوں شرما رہے ہو، تمہارا ہی تو یہ گھر ہے۔‘‘ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات کا اعلان کریں کہ ’’اگر کوئی شخص کسی عورت پر نگاہ ڈالنے سے خود کو بچاتا ہے تو اللہ اسی وقت اس کے لیے جنت میں ایک حور تخلیق کر دیتا ہے۔ (مفہوم)۔ لیکن سب ان کے لیے ہے جو اللہ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوں اور جنید جمشید کو ان پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے شہرت بھی ترک کی اور اپنے اردگرد ان لاکھوں پرستار خواتین سے بھی منہ موڑ کر ایسا حلیہ اور لباس اختیار کیا کہ جو ایسے پرستاروں کے ہجوم کو بالکل پسند نہیں ہوتا۔ یہ اس کا اگلا امتحان تھا جس میں وہ کامیاب ہوگیا۔یہ موسیقی میں مست لوگوں پر اللہ اپنی محبت کے دروزے کیوں وا کرتا ہے۔ مجھے بہت حیرت ہوتی جب میں کسی بڑے گلوکار کو اسلام قبول کرتے دیکھتا۔ ابھی گزشتہ دنوں فرانسیسی زبان کی مقبول ترین پاپ سنگر دیامز (Diam’s) نے اسلام قبول کیا اور یہ انتہائی خوبصورت گلوکارہ اسٹیج کی تھرکتی دنیا کو چھوڑ کر ایسی بدلی کہ حجاب پہننا شروع کردیا۔ اسے فرانسیسی میڈیا نے جب چبھتے ہوئے سوال کیے تو اس نے جواب دیا ’’جب دوائیں میری روح کا علاج نہ کرسکیں تو میں نے اسلام قبول کرلیا۔ اس نے اسلام قبول کرنے کا تجربہ اپنی خودنوشت میں تحریر کیا اور اس کے دیباچے میں تحریر کیا ’’میں موسیقی کو خیر آباد کررہی ہوں کیوں کہ یہ میری ذہنی صحت کو برباد کرتی ہے اور اس سے ملنے والی شہرت تو مجھے برباد اور بے سکون کردیتی ہے۔‘‘ میری حیرت کو ڈاکٹر حمید اللہ نے ایک واقعہ سے واضح کیا۔ڈاکٹر صاحب تمام عمر پیرس میں رہے اور ہزاروں فرانسیسی ان کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک دن فرانس کا سب سے بڑا موسیقار قرآن کی قرأت کی کیسٹ لے کر آیا اور بولا یہ موسیقی کا اتار چڑھاؤ اور زیروبم تم لوگوں کو کس نے سکھایا۔ میں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عبداللہ ابن مسعود کی قرأت کو آپؐ نے حضرت داؤد ؑکے مزامیر میں سے اللہ کی ایک عطا قرار دیا تھا۔ اس نے کہا میں سمجھتا تھا کہ موسیقی کے زیروبم مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیکن یہ اتار چڑھاؤ تو آفاقی ہے۔ ایسا اتار چڑھاؤ اور زیروبم کہ آپ کو کسی موسیقی کے آلات کی ضرورت نہ رہے۔ وہ مسلمان ہوگیا۔ مگر کچھ دیر بعد آیا اور کہا میری ایک الجھن ہے۔جب میں نے سورہ ’’النصر‘‘ پڑھنا شروع کی اور جب ’’یَدخُلُونَ فی دِینِ اللہِ افواجا۔‘‘ پڑھا تو ’’افواجا‘‘ پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ ’’ردم‘‘ ٹوٹتا ہے اور میں پریشان ہوگیا۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اپنے قاری صاحب یاد آگئے تو بچپن میں جب میں نے ’’افواجا‘‘ پڑھا تو انھوں نے کہا یہ ’’افواجًا‘‘ ہے۔ میں نے پڑھ کر سنایا وہ جھومنے لگ گیا، مجھے گود میں اٹھالیا اور کہنے لگا اگر کوئی موسیقی جانتا ہے تو وہ اسلام کو قبول کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور جو قرآن کی قرأت سن لیتا ہے وہ آلات موسیقی ترک کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اصلی زیروبم اور اصلی ’’ردم‘‘ تو یہی ہے۔ باقی سب بے کار ہیں۔ جنید جمشید اسی اصلی حقیقی سچائی سے آشنا ہوا تھا۔ وہ چترال سے ایک تبلیغی دورے سے واپس آرہا تھا، اس کی واپسی کسی کنسرٹ سے بھی ہوسکتی تھی، کسی تفریح سے بھی، لیکن میرے اللہ کو یہ گوارا نہیں کہ جو اس کے لیے نشاط و طرب کی شہرت چھوڑے وہ اسے نیک نامی شہرت عطا نہ کرے۔