امیدوں کے چراغ

’’دیکھنا آج چودہ اگست ہے۔ ہر طرف سبز رنگ کے پرچم ہی پرچم ہوں گے۔ ‘‘ بی  چڑیا نے اپنی پڑوسن ، چھوٹی مینا سے کہا۔

’’ہاں۔ مجھے معلوم ہے۔ آج یوم آزادی ہے۔  میں بڑی مایوس ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ اس کو صحیح معنوں میں منائیں گے۔ مجھے یقین ہے آج بھی سب لوگ   چھٹی کا دن مناتے ہوئے سستی اور کاہلی سے اپنے بستروں پر پڑے ہوں گے۔  ‘‘ چھوٹی سی  مینا نے اداسی سے کہا۔

’’ہاہ! یہ کیا بات ہوئی ۔ بھلا تم ایسے کیسے کہ سکتی ہو؟‘‘ بی چڑیا ناگواری  سے پر پھڑپھڑاتے ہوئے بولی۔’’آؤ! میرے ساتھ۔ میں تمھیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں...

 

’’اچھا ٹھیک ہے۔ چلو!‘‘ چھوٹی مینا نے خوش ہو کر کہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد وہ ایک کھلے میدان کے اوپر سے گزر رہی تھیں   جہاں تینوں افواج کی پریڈ جاری تھی۔ چھوٹی مینا نے دیکھا ملک کے حکمران اور فوج کے سربراہان قدم سے قدم ملائے کھڑے تھے۔  ان کے پیچھے عوام  جذبہ ٔ حب الوطنی سے سرشار پریڈ کی تقریبات دیکھ رہے تھے۔بری بحری اور ہوائی  فوج کے سپاہی سینہ تان کر  یہاں سے وہاں تک کھڑے تھے اور ملک کے دشمنوں کو سبق دے رہے تھے کہ آج بھی اگر کسی نے ٹیڑھی آنکھ سے ہمارے وطن کو دیکھنے کی کوشش کی تو اس کا وہ حشر کریں گے کہ صدیوں یاد رکھے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ دیکھ کر چھوٹی مینا کو اپنی مایوسی پر یک گونہ شرمندگی ہونے لگی  لیکن ابھی سفر باقی تھا۔ اب وہ  نور ٹاؤن کےمحلے میں جا پہنچیں جہاں ننھے بچے ذوق و شوق کے ساتھ جھنڈیاں لگانے میں مصروف تھے۔ گلیوں کی گلیاں سبز ہلالی پرچموں اور جھنڈیوں کے ساتھ سجی ہوئی تھیں۔ اگر کوئی جھنڈی نیچے گر جاتی تو فوراً لوگ اٹھا کر اسے چوم لیتے اور محفوظ کر لیتے۔ کیا بچے کیا بڑے ہر کوئی گھر کو سجانے اور سنوارنے میں مصروف تھا۔ ہر گھر کے چھت پر بڑا سا سبز ہلالی پرچم لہلہار ہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد بی چڑیا چھوٹی مینا کو ایک گھر کی کھڑکی میں لے گئی۔ انہوں نے دیکھا   عبدالباری صاحب آج فجر کے بعد ہی سے جائے نماز پربیٹھے تھے۔ اشراق کے بعد انہوں نے رو رو کر   پاکستان کے لیے لیے دعا مانگی۔ وہ کہ رہے تھے۔ ’’یا اللہ! میرے وطن پاکستان کی حفاظت فرما۔ اسے سلامتی،   ترقی اور دائم خوشحالی نصیب فرما۔  آمین!‘‘

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوجوان  آج  صفائی پروگرام کے مطابق علیم خان روڈ پر جمع تھے۔ وہ اپنی مدد آپ کے تحت  صفائی کر رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے مل جل کر ساری سڑک پر سے کوڑاکرکٹ اٹھا دیا  ۔ پھر آپس میں گلے مل کر ایک دوسرے کو شاباش دینے لگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گورنمنٹ ہائی سکول میں  یوم آزادی کی تقریب جاری تھی ۔ قومی ترانہ ہر سو گونج رہا تھا۔ تمام  اساتذہ اور بچے نہایت احترام اور خاموشی کے ساتھ کھڑے  تھے۔  پھر باری باری بچوں نے آزادی کے موضوع پر زبردست تقریریں کیں اورانعامات حاصل کیے۔ جب وہ حب الوطنی پر مبنی اشعار پڑھتے  تو سارا ہال پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 حلیمہ بی بی  اپنی کمزوری کے باوجود آج شکرانے کے نوافل ادا کر رہی تھیں۔ ان کا سارا خاندان ہجرت کے دوران شہید ہو گیا تھا ۔ اس کے باوجود وہ  وطن پاکستان اور آزادی کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کے حضور تشکر کا اظہار کر رہی تھیں۔ نوافل پڑھ کر انہوں نے بہت دیر تک پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے دعائیں مانگیں۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کریم   کیٹرنگ سروس  کی طرف سے بڑے بڑے شامیانے لگائے گئے تھے۔ جب چھوٹی مینا اور بی چڑیا قریب پہنچیں تو معلوم ہوا غریب لوگوں کے لیے یوم آزادی کی خوشی میں دیگیں پکوائی جارہی ہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساجدہ گھر کی بڑی بہو تھی۔ گھر بھر کے کام اس کی زیر نگرانی طے پاتے تھے۔ آج اس نے صبح ہی صبح سب کام نمٹا لیے اور قرآن پاک لے کر بیٹھ گئی۔ اس کا ارادہ کئی پارے پڑھ کر ہجرت 1947ء کے شہدا کو ایصال ثواب پہنچانے کا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’بھئی ! تم نے تو مجھے تھکا ڈالا۔  ‘‘ چھوٹی مینا نے اپنے گھونسلے کی جانب جاتے ہوئے کہا۔

’’ہاں! لیکن کیا تم اب بھی مایوس ہو؟‘‘ بی چڑیا نے پوچھا تو چھوٹی مینا نے یکدم مڑتے ہوئے کہا۔

’’ارے نہیں! آج کا سفر لمبا تو تھا لیکن  میں نے دیکھا۔ امیدوں کےچراغ ابھی بجھے نہیں ہیں۔ بے شک آندھیاں چلیں، مجھے یقین ہے  جذبے، یقین اور محبت کے پیڑ کبھی کمزور نہیں ہو سکتے ۔‘‘ چھوٹی  مینا نے کہا تو بی چڑیا مسکرانے لگی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اے میرے وطن میری امیدوں کے سہارے
تو شاد رہے ، شاد سدا ، دل ہے پکارے
ہر رنگ تیرے حسن کا نکھرے گا ہمیشہ
ہر روز تیرا عید سا گزرے گا ہمیشہ
تو رونق امروز رہے پیش ہمارے
اے میرے وطن میری امیدوں کے سہارے
تجھ جیسا نہیں خطہ کہیں اور جہاں میں
ہر ذرہ تاباں ہے ترا دشت و مکاں میں 
دامن ہے تیرا یا ہیں فلک ،چاند ستارے
اے میرے وطن میری امیدوں کے سہارے
تو شاد ، سدا شاد رہے، دل ہے پکارے