عائشہ ہسپتال سے گھر آچکی تھی۔ وہ بلڈ پریشر لو ہونے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی تھی ۔ کچھ رات کی نیند بھی پوری نہ ہوئی تھی اور کچھ زرینہ بیگم کی ناراضگی کی ٹینشن۔ اس نے دو وقت سے کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ چنانچہ اس کے کمزور اعصاب یہ سب برداشت نہ کر پائے تھے۔
’’آپ کی وائف بہت کمزور ہیں۔ ان کی غذا کا خاص خیال رکھیں۔‘‘ جب ڈاکٹر نے کوئی تیسری بات اظہر سے یہ بات کہی تو وہ چڑ گیا۔
’’یہ میں اتنے جو پھل فروٹ لاتا ہوں وہ تم کھاتی کیوں نہیں ہو؟ کہاں جاتا ہے سب۔ بے بی بھی ویک ہو رہا ہے۔ آخر تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتیں؟‘‘ گاڑی میں بیٹھتے ہی اظہر شروع ہو گیا۔
عائشہ کیا بتاتی۔ جتنا بھی پھل فروٹ آتا تھا زرینہ بیگم اٹھا کر اپنی ذاتی الماری میں رکھ چھوڑتیں۔ ایک آدھ گلا ہوا سیب ہی فریج میں رہنے دیتیں۔ دودھ کی ملائی جمع کر کے عائشہ سے ہی دیسی گھی بنواتیں اور وہ بھی ان کی الماری میں جا چھپتا۔ اب وہ کیا کھائے اور کیسے کھائے؟ اظہر اور محمود صاحب نے کون سا فریج یا الماری کھول کر دیکھنی ہوتی تھی۔ یہ سب باتیں عائشہ، اظہر کو بتا کر نئی ٹینشن کھڑی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سو خاموش رہی اور سارا راستہ اظہر کی ڈانٹ سنتی رہی۔
رمضان کے اواخر تھے۔ کل عید متوقع تھی۔ اظہر کمرے میں آیا تو عائشہ نے کہا۔
’’امی نے عید کے دوسرے دن ہم سب کی دعوت رکھی ہے۔ دعوت کے بعد میں ادھر ہی رہ جاؤں؟ چند دن کے لیے؟‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘ اظہر دیکھ رہا تھا اس نے خراب طبیعت کے باجود کس پھرتی سے سارے کام نمٹائے تھے۔ گھر بھر کی صفائیاں۔ دھلائیاں۔ پھر کچن میں کام۔
زرینہ بیگم بڑا والادیگچہ بھر کے شیر خورمہ بنواتیں۔ عید کے پہلے دن زرینہ بیگم کی شادی شدہ بیٹی زینب کی دعوت ہوتی۔ رات کو ان کے دونوں بھائی اپنی فیملیوں کے ساتھ آجاتے۔
نازیہ تو تیار ہو کے مہمانوں کی طرح پھرتی رہتی۔ گاہے بگاہے کچن میں آتی۔ شامی کبابوں کا مصالحہ چکھتی۔ بریانی کے چاول جانچتی ، سلاد کی پلیٹ سے ایک دو کھیرے منہ میں رکھ کر یہ جا وہ جا۔
اس عید پر بھی عائشہ دوپٹہ کمر سے باندھے کچن میں بری طرح مصروف تھی۔ اظہر کی فرمائش پر اس نے نئے کپڑے اور چوڑیاں تو پہن لی تھیں اب گرمی کے مارے برا حال تھا۔ عبداللہ کو اس نے جھولنے والی کرسی میں کچن لٹایا ہوا تھا۔ وہ بھی پسینے سے تتر بتر تھا۔ اس کے مسلسل رونے کی آواز پر اظہر اٹھ کر کچن میں چلا آیا۔
’’یہ کیا! عبداللہ کو تم نے کچن میں بٹھا رکھا ہے۔ زینب آپا کو پکڑا دو ناں۔ لاؤ میں اسے اندر لے جاتا ہوں۔‘‘
زرینہ بیگم کا کمرہ کچن سے زیادہ دور نہ تھا۔ انہیں اظہر کی آواز بخوبی سنائی دی۔ اب انہوں نے اور زینب نے کیا کہنا تھا۔ یہ دونوں نے آنکھوں کے اشاروں سے ہی طے کر لیا تھا۔
جیسے ہی اظہر عبداللہ کو اٹھائے کمرے میں داخل ہوا زینب اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔
’’ہائے میرا بچہ! کیا حال کر دیا ہمارے بھابھی نے۔ بھئی میں نے کہا بھی تھا میں اٹھا لیتی ہوں۔ تم کام کر لو۔ نہ جی! ہم پر اعتبار ہی نہیں ہے۔ اپنی اکڑ میں بچے کو لیا اور کچن میں چلی گئی۔ بھئی ہم کھا جائیں گے کیا ؟ ہمارا اپنا خو ن ہے۔‘‘ زینب آپا کہے جارہی تھیں۔ زرینہ بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے شاباش دی پھر خود بھی بول اٹھیں۔
’’ہاں بیٹا۔ یہ عائشہ کو ذرا سمجھ نہیں ہے ان باتوں کی۔ بچے کو پالنا اس کے بس کی بات نہیں۔ ذرا دیکھو کیا حال کر دیا ننھی جان کا۔ زینب ذرا اے سی تیز کر ۔ بے چارے کا پسینہ خشک ہونے میں نہیں آرہا۔نہ جانے کب سے کچن میں بٹھا رکھا تھا پاگل ماں نے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے بڑے پیار سے زینب کے ہاتھوں سے عبداللہ کو لے لیا۔
اظہر پہلے تو ہکا بکا کھڑا سنتا رہا۔ پھر کچن میں جا کر عائشہ پر خوب گرجا۔
’’تمھیں بچے پالنے کی سمجھ نہیں ہے۔ کیا ہو گیا ہے تمھیں۔ اتنی گرمی میں یہاں رکھاہو ا تھا عبداللہ کو۔ جب زینب آپا نے کہا بھی تھا کہ میں اسے اٹھا لیتی ہوں تو تم پھر بھی اسے کچن میں کیوں لے آئیں؟ جاہل عورت! ‘‘
عائشہ سر جھکائے سنتی رہی۔ اس کے آنسو ہاتھوں پر گرتے رہے یہ وہ اظہر تو نہ تھا جو قدم قدم پر اس کا خیال رکھتا تھا۔ وہ بہت بدلتا جا رہا تھا۔ کب تک وہ زرینہ بیگم کی باتوں کا یقین نہ کرتا۔ اس کی ماں تھیں۔ آخر کار وہ انہیں بر حق سمجھتا تھا۔
یہ زرینہ خالہ ہی تھیں جنہوں نے ابھی کچھ گھنٹے پہلے عائشہ سے کہا تھا ۔’’اٹھاؤ اس کو ۔ یہاں کیا چھوڑے جا رہی ہو۔ تمھارا بیٹا ہے۔ تم ہی سنبھالو گی۔ بھئی ہم نےساری زندگی کچن کے کام بھی کیے اور بچے بھی سنبھالے۔ یہ نئی ماں دیکھی ہے جو بچے کو ہمارے سرہانے چھوڑ کر ہانڈی پکانے جارہی ہے۔ بھئی تم کیا نرالی آئی ہو۔ یا بچہ نرالا ہے جو گرمی سے جل ہی جائے گا۔ کچن کی کھڑکی کھول دینا ۔ ہوا آتی رہے گی۔ ‘‘
باوجود کوشش کے عائشہ کے دل میں زرینہ بیگم کے خلاف نفرت کے پودے سر اٹھانے لگے تھے۔ ظاہری بات ہے کانٹوں کے بیج سے بھلا پھول بھی کبھی اگے ہیں؟
(جاری ہے)