بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا کہ ”پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جس روز پہلا شخص یہاں مسلمان ہوا تھا“....ظاہر ہے جب برصغیر میں پہلے شخص نے کلمہ پڑھا تو یہاں ایک تہذیب، ثقافت اور دین کی بنیاد پختہ ہو گئی۔ کلمہ گو افراد کے نام ، آداب اور معاشرت بدل گئی۔ پہلے شخص کے کلمہ پڑھنے سے ہندو اور مسلم میں جو نظریاتی لکیر قائم ہوئی ،درحقیقت وہی فرق بعد ازاں مطالبہ پاکستان اور قیام پاکستان کی وجہ بنا۔ قیام پاکستان کی علمی و تحقیقی وجوہات اور دانشمندانہ تجزئیے اپنی جگہ ، مگر ہندو مسلم معاشرت میں متعصب رویے ہی تھے، جن کی وجہ سے برصغیر میں ایک ہزار سال تک مسلمان اور ہندو اکٹھے رہے، مگر دریا کے دو کناروں کی طرح کبھی مل نہ پائے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہندو اور مسلم کا فرق نمایاں رہا، ہندو محلے، مسلم محلے، ہندو حلوائی اور مسلم حلوائی، ہندو پانی اور مسلم پانی کی تقسیم اتنی مضبوط تھی کہ اکبر کے دین الٰہی سے نیشنلسٹ کانگریسی علماءتک کوئی اسے ختم نہ کر سکا۔
ابو ریحان البیرونی نے1030ءمیں اپنی کتاب”کتاب الہند“ میں لکھا کہ ”ہندو دین میں ہم سے کلی مغائرت رکھتے ہیں۔ غیروں کو یہ لوگ ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں اور ان کو نا پاک سمجھنے کی وجہ سے ان سے ملنا جلنا ، شادی بیاہ کرنا، ان کے قریب جانا، ان کے پاس بیٹھنا اور ساتھ کھانا بھی جائز نہیں سمجھتے“۔ مغلیہ عہد میں اکبر اعظم نے ہندوﺅں کو بڑے بڑے منصبوں اور عہدوں پر فائز کیا ، ہندو عورتوں کو حرم میں داخل کیا ، حتیٰ کہ نیا دین ،دین الٰہی متعارف کروایا، اس کے باوجود بنگالی نژاد ہندو نرادسی چودھری اپنی کتاب "The Continent of Circe"میں لکھتا ہے کہ ”اکبر کے بڑے بڑے جرنیل ، وزراءاور حکام جب اس کے دربارسے لوٹتے تو بغیر نہائے، یعنی مسلم حکومت کی غلاظت سے اپنے آ پ کو پاک کئے بغیر کھانا کھانے کے لئے نہیں بیٹھتے تھے، کیونکہ ایک مسلمان بادشاہ کی صحبت انہیں ناپاک کر دیتی تھی“....پھر انگریز عہد میں جدید تعلیم بھی ہندو ذہنیت کو تبدیل نہ کر سکی۔ مشہور ہندو لیڈر بال گنگا دھر تلک1897ءمیں بمبئی جیل میں نظر بند تھے تو انہوں نے حکومت ہند کو درخواست دی کہ ”ان کا کھانا برہمن باورچی پکایا کرے“۔ کہیں مسلم باروچی کے ہاتھ کا کھانا کھا کر وہ ناپاک نہ ہو جائے۔
ہندو تعصب کا جو مشاہدہ گیارہویں صدی میں البیرونی نے کیا ،وہی بیسویں صدی میں بھی نظر آتا ہے۔ 15مارچ1939ءکے روزنامہ انقلاب میں خبر تھی کہ ایک ہندو سیٹھ ہرداس گوروداس اور ان کی سیٹھانی نے جی آئی پی ریلوے میں سکینڈ کلاس کے چار برتھ مخصوص کروائے، راستے میں ایک سٹیشن پر جگہ نہ ہونے پر عملے نے ایک مسلمان مسافر کواس ڈبے میں جگہ دےدی۔ یہ بات سیٹھ کے لئے ناقابل قبول تھی ، مسلمان کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا۔ گھر پہنچ کر سیٹھ نے ریلوے کے خلاف پانچ ہزار روپے ہر جانے کا دعویٰ کر دیا۔ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو سیٹھ نے دلیل دی کہ ایک مسلمان کے ڈبے میں آ جانے سے ان کا کھانابھر شٹ ہو گیا چنانچہ وہ رات بھر بھوکے رہے۔ایسا ہی ایک واقعہ مشتاق احمد وجدی کے ساتھ بھی پیش آیا ۔وہ اپنی سوانح عمری ”ہنگاہوں میں زندگی “ میں رقمطراز ہیں کہ زندگی میں ریل کا پہلا سفر کیا تو ایسا تلخ سبق ملا کہ آج تک نہیں بھولا۔ بنارس جانا تھا بھائی صاحب انٹر کا ٹکٹ دلا کر گاڑی تک پہنچا گئے ،ڈبے میں داخل ہوا تو بیٹھنے کو جگہ نہ تھی۔ اِدھر اُدھر نگاہ ڈالی تو ایک سیٹ پر ترکاری کی ٹوکری رکھی تھی، بلا سوچے سمجھے اس کو اُٹھا کر نیچے رکھ دیا اور بیٹھ گیا ۔ گاڑی ہندوﺅں سے بھری ہوئی تھی ،ابھی سانس بھی لینے نہیں پایا تھا کہ سب مشتعل ہو گئے۔ جن بابو جی کی ٹوکری تھی، اُنہوں نے ڈانٹنا شروع کر دیا اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے، دوسرے مسافر بھی اس میں شامل ہو گئے۔ مَیں نے معذرت کی توآخر کسی نے بچ بچاﺅ کرایا اور یہ فیصلہ کیا کہ آٹھ آنے کی ترکاری ہو گی، اس کے دام ادا کرواور ترکاری خود لے جاﺅ ، اس لئے کہ ایک مسلمان کا ہاتھ لگ جانے سے ترکاری نا پاک اور بھر شٹ ہو گئی تھی ۔
مشہور ادیب ممتاز مفتی نے بھی ایسے ہی تلخ تجربے کا تذکرہ اپنے مضمون ”رام دین“ میں کیا ہے کہ 1934ءکے لگ بھگ ان کا تبادلہ گورنمنٹ سکول دھرم سالہ میںہو گیا۔
ممتاز مفتی اس سکول کے اکلوتے مسلمان استاد تھے۔ ایک روز انہوں نے ایک طالبعلم سے کہا کہ مجھے ایک گلاس پانی دو، لڑکا بڑے ادب سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ انہوں نے دوبارہ کہا تو لڑکا بڑے ادب سے بولا:”ماسٹر جی مَیں آپ کو پانی نہیں پلا سکتا “۔ممتاز مفتی نے حیرت سے پوچھا کیوں؟ لڑکے نے کہا مہاراج میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔ ہندوﺅں کا مسلمانوں کے ساتھ حقارت کا رویہ چند انفرادی معاملات نہیں اور نہ ہی ہندوستانی مسلمانوں تک محدود تھا، بلکہ وہ تو مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے ۔
آسٹرین نژاد نو مسلم محمد اسد اپنی خود نوشت ”بندہ صحرائی“ میں لکھتے ہیں کہ1933ءمیں محمد اسد کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع جو گندر سنگھ ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہاں سے گاڑی دو گھنٹے بعد پٹھان کوٹ جائے گی ،چنانچہ ہم قریبی مانوس بازاروں اور گلیوں میں گھومنے لگے۔ اس مٹر گشت کے دوران ہمیں ایک دکان پر گرما گرم دودھ کے کڑھاﺅ نظر آئے، اس نے ہماری بھوک کو جگادیا۔ ہم دکان پر پہنچے تو دکاندار نے دودھ سے بھرا ہوا لکڑی کا پیالہ پکڑا ہوا تھا اور وہ ایک آوارہ کتے کو دودھ پلا رہا تھا ....( مجھے یہ منظر دلی طور پر اچھا لگا ).... جب میرے دوست نے اسے پنجابی میں بتایا کہ ہم بھی دودھ پینا چاہتے ہیں تو اس نے اسی پیالے کو ،جس سے وہ کتے کو دودھ پلا رہا تھا ،پانی سے کھنگالا اور دیوار میں بنے ہوئے طاقچے کی طرف اشارہ کیا ،مَیں نے اپنے دوست سے اشارے کا مطلب پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ ہندو ہے ، ہم ہندو نہیں، اس لئے ناپاک ہیں۔ وہ کسی ایسے برتن کو ہاتھ نہیں لگائے گا، جس میںہم جیسے لوگ کچھ پئیں گے۔ وہ چاہتا تھا کہ ہم خود طاق سے گلاس اُٹھائیں اور وہ کڑچھے سے اس میں دودھ ڈالے۔ یہ سنتے ہی میرا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کتے کو دودھ پلا رہا تھا، مگر ہمیں ناپاک سمجھ کر برتن کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ میرے سخت غصیلے چہرے اور تندو تیزلہجے کو دیکھ کر دکاندار نے گلاس اُٹھایا۔ مَیں نے گلاس اس سے چھین لیا ، کڑچھا لیا ، گلاس کو لبالب دودھ سے بھرا اور اسے دوبارہ دودھ کے کڑھاﺅ میں ڈال دیا اور سارے دودھ کو ناپاک کر دیا۔ گلاس کو دور پھینکتے ہوئے مَیں نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا جو پورے کڑھاﺅ کی قیمت سے زیادہ تھا، اسے دکاندار کو دے مارا۔ ذات پا ت اور پاک و ناپاک کے ہندو تصور کا میرا یہ اولین مجادلہ تھا“۔
ہندو کی یہ تنگ نظری ہی تھی کہ ہندوستان میں مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ اکٹھے رہے، مگرایک قوم نہ بن سکے، ان کے درمیان افکار حیات کے ساتھ ساتھ اطوار حیات کا فرق موجود رہا۔ 1897ءمیں پیسہ اخبار نے البیرونی کے خیالات کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ”زمانہ جانتا ہے کہ مسلمان بے چاروںکو اتنی نفرت اور اس قدر گریز کبھی ہندوﺅں سے نہیں رہا ، جس قدر ہندوﺅں کو مسلمانوں سے رہا۔ ہزاروں شہادتیں دے سکتا ہوں کہ اگر مسلمان کا سایہ بھی ہندو پر پڑ جائے تو گویا وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔ ہاتھ کی پکی ہوئی چیز کھانا تو درکنار ،مسلمانوں کی چھوئی ہوئی چیز بھی نجس خیال کرتے ہیں۔ ذرا سامیل جول رکھنے یا مسلمانوں کو اپنے گھروں میں گھسنے کی اجازت دینے سے بھی عارکرتے ہیں“۔ پکے کانگرسی رہنماڈاکٹر انصاری اپنے کانگرسی دوستوں کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب بہت سے کانگرسی لیڈر ان کے ہاں آئے تو ”میرے باورچی خانے سے کھانا پک کر ان کمروں میں بھیج دیا جاتاتھا ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے سبزی خور ممبران تمام کھانوں کو بالیٹوںمیں بھروا کر اپنے خدمتگاروں سے جمنا میں بہا دیتے اور چوری سے جو کھانا چاندی والوں کے یہاں سے پکا ہو ا آتا، وہ کھاتے تھے۔ اسی طرح احرار اسلام کے قائد چودھری افضل حق لکھتے ہیں کہ ”ہندو اور سکھ حلوائی اس خیال سے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگنے سے وہ پلید نہ ہو جائیں،مسلمان خریداروں سے اپنے ہاتھ سے پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔اس غرض کے لئے وہ ایک لکڑی کی ڈوئی کا استعمال کرتے تھے، اس کا دستہ خود حلوائی تھام لیتا اور مسلمان سے کہتا کہ وہ اس کے پیالے میں پیسے ڈال دے۔ جب مَیں اس ڈوئی کے پیالے میں پیسے ڈال رہا تھا تو بد قسمتی سے دکاندار کو میر اہاتھ لگ گیا۔ اس سے دکاندار لال بھبھو کا ہو گیا اور اس نے مجھے ایک ہی سانس میںہزاروں گالیاں سنا ڈالیں۔ ایک ساعت کے لئے مَیں بالکل بھونچکا ہو کر رہ گیا اور بے حس و حرکت کھڑا رہا ۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ملک میں کوئی بھی سیاسی یا سماجی تحریک نہیں تھی اور مسلمان روزمرہ ایسی ذلتیں برداشت کرتے رہتے تھے“۔
یہ عام ہندو ہی کا معاملہ نہ تھا، یہ تفریق ہندوﺅں کے تمام طبقوں میں پائی جاتی تھی ۔ انڈین جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے4مئی1912ءکو پہلی ”ایوننگ پارٹی“ روزنامہ پیسہ اخبار کے دفتر میں ترتیب دی، جس میں19ہندو اور مسلمان مدیران و جرائد و اخبارات شریک تھے۔ تقریب کے اختتام پر تمام صاحبان اُٹھ کر ایک بالائی کمرے میں چلے گئے اور ہندوﺅں اور مسلمانوں نے علیحدہ علیحدہ میزوں پر مٹھائی، میوہ جات و دیگر اشیائے خورونوش کا لطف اُٹھایا۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ وہ اشتہار ہے جو لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار ٹی بی کرے کوئن نے ہائی کورٹ کے احاطے میں چند دکانیں کرایہ پر دینے کے سلسلے میں 9اپریل1935ءکو شائع کروایا تھا، ان دکانوں میں ”ہندو حلوائی“اور”مسلمان حلوائی“ کے لئے علیحدہ علیحدہ ٹینڈر طلب کئے گئے تھے۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں میں یہ تفریق شروع سے تھی اور ہمیشہ رہی۔ درحقیقت ہندوانہ تعصب ہی تھا، جس نے مطالبہ پاکستان اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب قیام پاکستان سے ختم نہیں ہو گیا ،بلکہ تاحال ہندوستان میں نمایاں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد پروفیسر محمد اسلم نے 1995ء میںاپنا ”سفر نامہ ہند“ تحریر کیا ،اور اس میں لکھا کہ مجھے منماڑ سے اورنگ آباد جانا تھا، اس لئے یہیں اتر گیا۔ ٹرین کے آنے میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ دن بھر کے سفر نے مجھے یوں بھی تھکا دیا تھا، مَیں رات کا کھانا تناول کرنے ریلوے کے ریستوران میں گیا۔ اتفاق سے ایک مسافر جو ٹرین میں میرے برا بر والی سیٹ پر سفر کر چکا تھا وہاں موجود تھا۔ میں نے ویجیٹیرین کھانے کا آرڈر دیا، اس نے بھی کھانا منگوایا۔ ہم آمنے سامنے میز پر بیٹھ گئے تھے۔ اس نے اپنی ہتھیلی پر ایک گلاس سے پانی ڈالا اور اسے اپنے سامنے میز پر اس انداز سے گرایا کہ اس کے اور میرے درمیان پانی کی دیوار حائل ہو گئی ۔اس طرح وہ ایک مسلمان کے مسموم اثرات سے اپنے کھانے کو محفوظ کرنے میںکامیاب ہو گیا“۔
تاریخی نظریات میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ہندو¶ں اورمسلمانوں کے درمیان کھانے کی میز کی یہ لکیر ہی آخرکار بعد ازاں سرحد کا روپ دھار گئی ہے ۔جب تک روےے اور تعصبات رہیں گے، سرحدیں بنتی رہیں گی۔ مشہور ہندو انقلابی رہنما ایم این رائے نے اپنی کتاب ”اسلام کا تاریخی کردار“ میں لکھا ہے کہ دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ تاریخ اسلام سے اتنا ناواقف نہیں اور دین محمد سے اتنا متنفر نہیں، جتنا ہندو معاشرہ ہے۔ ہمارے قومی نقطہ نظر کا نمایاں ترین رویہ دھرمی استعمار ہے اور یہ رویہ جس قدر دین محمد کے ضمن میں گھناﺅنا ہے، اس قدر کسی اور دین کے بارے میں نہیں“۔ اچھوت رہنما ڈاکٹر امبید کرنے لکھا ہے کہ مسلمان ہندوستان میں حق انفرادیت اورتشخص کے لئے کوشاں رہے ۔پروفیسر بار کر کا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کہ قومیں ذات سے نا آگاہی اور غفلت کے عالم میں صدیاں بسر کر دیں۔ ان کے افراد کو شعور ہی میسر نہ ہو کہ ان کی ایک روحانی قومی اساس ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ غافل بھی رہے اس امر سے کہ ان کی ایک روحانی قومی اساس ہمیشہ موجود رہی ہے۔ یہی باعث ہے کہ انہوں نے اپنا حق قومیت بہت دیر کے بعد جتایا ،لیکن اس دیر سے آگاہی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک روحانی اساس رکھنے والی قوم کی صورت میں کوئی وجود نہیں رکھتے تھے“۔ ہندو¶ں نے فطری تعصب سے برصغیر میں مسلمانوں کی انا مذہبیت اور سماجی رویوں پر زد لگا لگا کر انہیں جگایا اور جب مسلمان بیدار ہوئے اور انہیں قائد اعظمؒ جیسا رہنما ملا تو وہ برصغیر جس میں پہلے ہندو پانی اور مسلم پانی، ہندو محلہ اور مسلم محلہ ، ہندو شہر اور مسلم شہر اور پھر ہندو صوبہ اورمسلم صوبہ نمودار ہوا، وہاں ہندو ملک اور مسلم ملک کا قیام تاریخی ارتقاءہی کا نتیجہ ہے۔ ہندو تعصب کی چھوٹی چھوٹی لکیروں نے مل کر ایک بڑی سرحد قائم کر دی اور یوں ہندوﺅں کا ہندوستان ، مسلمانوں کا پاکستان وجود میں آگیا۔(منتخب کالم)