ہمیں دلچسپی محسوس ہوئی اور غور سے پڑھنے لگے۔یہ کہانی قدیم دورکی کسی دنیاکی ترجمانی کررہی تھی۔تیسرے پیراگراف میں بات یہاں تک پہنچی۔
’’رانی نے شفقت سے اپنے سرتاج کے تاج پرہاتھ پھیرا اور گویا ہوئی:سرکار! آپ ڈریں نہیں ،میں خود دشمن کی فوج سے آنکھیں چارکروں گی اور انہیں شکست دوں گی۔۔۔نہیں نہیں ملکہ عالیہ میں آپ کا یہ ڈراؤنا خواب کبھی پورا نہیں ہونے دوں گا۔ بادشاہ نے آنکھوں میں آنسو بھر لاتے ہوئے کہا۔ آپ کے ہوتے ہوئے میں بھی اپنی جان دے دوں گا۔یہ دیکھ کر رانی کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ آنسوؤں کی برسات ہونے لگی۔
یہ منظر دیکھ کربادل بھی گرجنے برسنے لگے دراصل وہ بھی رورہے تھے کیونکہ انہیں رانی اوربادشاہ سے بہت محبت۔۔۔‘‘
اس سے زیادہ ہم سے نہ پڑھا گیا،ہم نے تحریر کو دونوں ہاتھوں میں بھینچ کر ایک گولا سا بنایااوراسے سیدھاکھڑکی سے باہرپھینک دیاجہاں نیچے ردی کاغذات کاڈرم اس کامنتظر تھا۔
اگلی تحریر توہم سے بالکل ہی نہ پڑھی گئی۔کیونکہ کچھ یوں شروع ہورہی تھی۔
’’نگار اٹ از امپوسبل !۔۔۔شاہین نے نگار کی بات اگنورکرتے ہوئے کہا۔وائی ،وائی ۔۔۔نگارچیخی۔واٹز میٹروِد ھ یو،تم میراپرابلم سول کرسکتی تھیں،آئی نیڈہیلپ۔مائی ڈیرآئی کین ہیلپ یو بٹ ۔۔۔ بٹ ؟واٹ مینزیو۔۔۔تم نے مجھے بہت ہرٹ کیا،آئی ہیٹ یو۔۔۔‘‘
’’ثناآآ‘‘ہم نے گھبراکربہت زورسے آوازدی ۔وہ دوڑی آئی۔
’’ثنا !تم سے کس نے کہاتھاکہ انگریزی کہانیاں بھی ہمارے سامنے دھردو۔‘‘ہم اس پر برس پڑے ۔
’’باجی اس کے پلاٹ میں بہت جان ہے۔۔۔‘‘
’’تومیری جان تم پہلے اس پوری تحریرکااردوترجمہ کرکے لاؤ،کیونکہ ہمیں توکچھ سمجھ نہیں آرہا۔جانتی ہوناں ہماری انگلش بہت کمزورہے! ‘‘
’’ہاں جانتی ہوں ۔‘‘وہ رحم آمیزلہجے میں بولی۔
اگلی تحریر کانام تھا’’چنو منو کی دہائی‘‘،ہم نے نام پڑھتے ہی اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔اگلی تحریرتھی ’’گول گپے اوربتاشے‘‘ اس میں ہنسانے کے نام پر پھکڑپن کے سوا کچھ نہ تھا۔بس دن بھریہی ہوتارہا، تحریر ہاتھ میںآئی اورگئی ردی کی ٹوکری میں،زیادہ بری ہوئی توگولابن کر کھڑکی سے باہرپہنچی۔
بڑی مغزماری کے بعدبس ایک کہانی کچھ کام کی ملی مگراس میں بھی بہت سے فقرے ایسے تھے کہ انہیں تبدیل کر کرکے ہمارے ہاتھ دکھ گئے۔بہرحال وہ اس قابل ہوگئی کہ اسے شایع کرتے توامید تھی کہ قاریات دُرّ دُرّ پھِٹ پھِٹ نہیں کریں گی۔
تیسرا دن یعنی بدھ بھی کہانیوں کی تلاشمیں گزرا۔اسی دن ہمارے میاں کاتیارکردہ شمارہ جو وہ خودپریس میں دے گئے تھے شایع ہوگیا،ہماری میزپربھی آیامگرسچ پوچھیے توہم ٹائٹل کے سوا کچھ بھی نہ دیکھ سکے۔وقت ہی نہیں تھاکچھ اورپڑھنے کا۔دوبجے کے بعد قاریات فون پرالگ سرکھاتی رہیں۔
قاریات کی فرسودہ تحریروں کی خاک چھاننے بلکہ پھانکنے کے بعداس دن کی شام تک صرف ایک اورایسی کہانی مل سکی جس کامرکزی خیال اچھاتھا،مکالموں میں ایک تہائی ترمیم کے بعدہم نے اسے بھی قابلِ اشاعت بنالیا۔
*
’’کچھ مضامین بھی توہونے چاہییں۔‘‘
چوتھے دن یعنی جمعرات کوہم ثناسے مخاطب تھے،کیونکہ ہمیں فون پربنت فاروق سے پڑنے والی ڈانٹ اچھی طرح یاد تھی۔
جواب میں ثنا نے ایک پلندہ ہمارے سامنے پیش کردیا۔۔۔اور ہم دوتین ’’معیاری مضمون‘‘ تلاش کرنے لگے،حالانکہ بخوبی احساس تھاکہ ابھی کہانیاں بھی پوری نہیں ہوئیں۔صرف دوکہانیاں ملی ہیں،دومزید چاہییں۔
پہلا مضمون ہم نے پہلے بھی پڑھا ہوا تھا، یہ نویں کی اردو ٹیکسٹ بک سے چرایا گیا تھا۔ہم نے فوراً چاک کرکے ردی کی ٹوکری میں ڈالا۔دوسرا تیسرااورچوتھامضمون پڑھ کربخوبی اندازہ ہواکہ یہ
سب غصیلی ساسوں کے لکھے ہوئے ہیں کیونکہ سب نے بہوؤں کی کام چوری اورہڈحرامی کے خوب ہی خوب لتے لیے تھے۔پانچواں چھٹااورساتواں مضمون پڑھتے ہوئے اچھی طرح احساس ہورہاتھاکہ یہ تینوں مضمون ڈرپوک قسم کی’’بہوؤں‘‘نے لکھے ہیں جواپنی ساسوں پرغصہ نکالنے کے لیے ہمارے باوقار رسالے کے صفحات استعمال کرناچاہتی ہیں۔ہم نے کسی پس وپیش کے بغیر ان سب کوردی میں ڈالا۔ردی کی ٹوکری اب لبالب بھرگئی تھی۔ہم نے نعمان کوکہاکہ اسے فوراً باہرڈرم میں خالی کردے۔
سرکھپاتے کھپاتے تین بج گئے، اس دوران بجلی تین بارآئی گئی۔جب کوئی مضمون ڈھنگ کانہ ملاتو ہم نے پردے،فضیلتِ علم اوراسلامی معاشرت پرعلمائے کرام کی دوتین مشہورکتابیں اٹھائیں اوران کے کچھ حصوں پر نشان لگاکرثناسے کہا:
’’انہیں کمپوزنگ کے لیے نسرین کودے دو۔ انتخاب اہلیہ جہاں زیب،انتخاب اہلیہ گل زیب اورانتخاب اہلیہ خان زیب کے فرضی ناموں سے لگادینا۔‘‘
’’یہ فرضی نام بہت ملتے جلتے نہیں ہیں کیا؟‘‘ثنا کچھ حیران سی ہوکر بولی۔
’’ملتے جلتے لگ رہے ہیں توتم الگ تھلگ رکھ لو۔فرضی نام ہی توہیں۔‘‘ہم نے اسے گھورا۔
*
جمعے کوچھٹی رہی ،کچھ مہمان آئے رہے،بچے بھی گھر میں تھے ۔میں کام کیسے کرسکتی تھی۔
ہفتے کوثناپھرسامنے بیٹھی تھی۔
’’باجی آج پانچواں دن ہے۔آپ نے ایک دونظمیں بھی منتخب کرکے کمپوزکرانی ہیں ،اداریہ یعنی پیغامِ صبح بھی لکھنا ہے اورکہانیوں کاکوٹہ بھی مکمل کرناہے۔کیونکہ کل پورادن لگائیں گے تب تصحیح ہوگی ۔کل شام تک رسالہ تیارکرکے دیناہے۔‘‘ (جاری ہے)